کینیڈا: جب زندہ بچنے والا بچہ فائز گھر آئے گا۔۔۔



آج سے 14 سال پہلے جب افضال خاندان نے پاکستان کو چھوڑنے کا سوچا ہو گا تو وہاں موجود کرپشن، منافقت، تعصب، مذہبی شدت پسندی اور بچوں کی جان و مال کی حفاظت کے حوالے سے تنگ آ کر ہی سوچا ہو گا۔ جیسا ہم سب ہجرت کر نے والے سوچتے ہیں۔ کون ہے جو اپنی جڑیں کاٹ کر ہوا میں معلق رہنا چاہتا ہے۔ اس خاندان نے جب کینیڈا کا انتخاب کیا ہو گا تو اس کی وجہ انہی عناصر کی عدم موجودگی کو دیکھ کر کیا ہو گا۔ مگر یہ انتخاب ان کی جان لے گیا۔

لندن اونٹاریو میں مقیم یہ خاندان پاکستان اور اسلام کا خوبصورت چہرہ تو تھے ہی انسانیت کے بھی علم بردار تھے۔ ان میں کسی بھی معاشرے کو پر امن اور خوبصورت بنانے کے تمام گن موجود تھے۔ سلمان افضال ( 46 سال) ۔ فیصل آباد، لاہور اور کراچی کا پڑھا ہوا ایک ڈاکٹر جو یہاں بھی اپنے پیشے سے منسلک تھا، کرکٹ کھیلتا تھا، مسجد جا تا تھا اور اولڈ ہو مز میں جا کر بزرگوں کی خدمت کیا کرتا تھا۔ 44 سالہ مدیحہ سلمان ایک انجینئر جو یہاں ویسٹرن یونیورسٹی میں جیو انوائیرمنٹ انجنیئرنگ میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی اور وہ لکھاری اور ادب دوست بھی تھی۔

وہ خاتون شان الحق حقی (اردو ادب کی نامی گرامی شخصیت) کے قریبی عزیزوں میں سے تھی۔ سلمان اور مدیحہ کی 15 سالہ بیٹی یمنی افضال لندن اسلامک سکول میں کی پڑھی ہوئی تھی اور جب اس کی گریجویشن ہوئی تو اس نے سکول کی دیوار پر ایک جہازی سائز کی پینٹنگ بنائی اور اس پر لکھا ’چاند پر پہنچنے کی جستجو ضرور کر نی چاہیے کیونکہ اگر آپ گر بھی جائیں گے تو پھر بھی ستاروں کے درمیان ہی ہوں گے۔‘

وہ چاہتی تھی کہ وہ اس سکول میں اپنی کوئی یاد چھوڑ کر جائے۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی وہ دیواری پینٹنگ کتنی بڑی یادگار بننے جا رہی ہے۔

9 سال کا فائز افضال، جو ان سب اعلی تعلیم یافتہ اور اعلی اقدار کے حامل افراد کی فیملی کا ایک ننھا سا حصہ ہے (پانچ میں سے زندہ بچ جانے والا خوش قسمت یا۔ ) ۔ اور پھر سلمان کی والدہ طلعت صاحبہ جو فیصل آباد میں آرٹ اور کرافٹ کی استاد ہوا کرتی تھیں اور اب 74 سال کی عمر میں ہاتھ میں ٹارچ اٹھائے اپنے بیٹے کی فیملی کو منزل کی طرف لے کر جا رہی تھی۔ ان سب کی نظریں آسمان پر تھیں مگر پاؤں زمین پر تھے اور وہ خاندان جس زمین پر پاؤں رکھتا تھا اسے اپنے علم، آرٹ، ادب اور انسان دوستی سے حسین بنا دیتا تھا۔

مگر 7 جون کو ایک بیس سال کے مقامی لڑکے نے انہیں ان کے اسلامی حلیے میں چہل قدمی کرتے دیکھا تو انہیں وہی دہشت گرد مسلمان سمجھا جو اس کو پل پل مغربی میڈیا دکھاتا ہے۔ اس بیس سال کے بچے کو یہاں کی اس سیاست اور اس صحافت نے تیار کیا تھا جو صرف نفرت پھیلاتی ہے اور وہ نفرت کے پجاری کون ہیں یہ، ہم سب کینیڈینز اچھی طرح جانتے ہیں مگر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اس نوجوان کی نفرت نے اس خاندان کی تین نسلوں کو ختم کر دیا اور جب واحد بچ جانے والا نو سالہ فائز آ کر ہم سے پو چھے گا کہ میرے خاندان کا قاتل کون ہے تو ہم جواب میں صرف اس ایک بیس سال کے چہرے کا نام نہیں لے سکتے ہیں؟ نہیں فائز کے خاندان کے قاتل وہ سب لوگ ہیں جو مسلسل مسلمانوں کے خلاف ایسی نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں (جون ایلیا)

2007 میں جب ایک مسلمان بچی کو اس کے باپ نے قتل کر دیا تھا تو اگلے ہی دن کی اخباریں ان سرخیوں سے بھری ہوئی تھیں کہ ایک شدت پسند مسلمان باپ نے حجاب نہ لینے پر لڑکی کا گلا گھونٹ کر مار دیا ہے۔ میں نے تب ایک کالم لکھا تھا کہ اتنی جلدی یہ کیسے پتہ چلا گیا کہ یہ قتل حجاب نہ لینے پر ہوا تھا۔ اور مسلمان کا لفظ لکھنے کی کیا ضرورت تھی ہو سکتا ہے وہ کوئی نفسیاتی مریض ہو۔ ان کا کوئی اور جھگڑا ہوا ہو۔ میں نے اس کالم میں اس قتل کو کہیں بھی جسٹیفائی نہیں کیا تھا بلکہ بھر پو ر مذمت کی تھی مگر مجھے حیرت کا سامنا تب کرنا پڑا جب مجھ پر اپنے ہی مسلمان پاکستانی لکھاریوں نے یہ کہہ کر بوچھاڑ کر دی کہ روبینہ فیصل قرآن شریف سے شادی کو سپورٹ کر رہی ہے۔

روبینہ زندہ باد اور ونی زندہ باد جیسے نعرے لکھے۔ حالانکہ میں میڈیا کے ون سائیڈڈ کردار پر بات کر رہی تھی کہ یہاں کے کچھ اخبارات جیسے کہ ”ٹورنٹو سن“ وغیرہ سرخی بھی ایسے بناتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف خوب نفرت پھیلے۔ اس کا نتیجہ اب ہم بھگت رہے ہیں۔ مغربی میڈیا کو ان داتا سمجھنے والے عام لوگ کیسے سچ اور جھوٹ کی تفریق کر سکتے ہیں۔ وہ بچی چونکہ مسز گاہی کی تھی اور یہیں کے ہائی سکول کی طالبعلم تھی۔ میں نے بعد میں اس کی قریبی سہیلیوں اور ان کی ماؤں سے بات چیت کی تو میری بات سچ تھی میڈیا نے جس طرح خبر بنائی تھی اس کا حقیقت سے ایک پرسنٹ ہی تعلق ہو گا اور وہ بس یہ کہ معصوم بچی قتل ہو گئی تھی۔ اور مارنے والے یقینا ظالم اور قاتل تھے مگر وجوہات کئی اور تھیں جو کسی بھی اور مذہب کے لوگوں کے پاس ہو سکتی ہیں۔ ان کو جاننے یا ان کی خبر بنانے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔

جیسے ایک چائنیز سٹوڈنٹ نے امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں ماس شوٹنگ کی اور اس کے نتیجے میں بھی انسانی جانوں کا ضیاع ہی ہوا کوئی کھیتوں میں سے پھل پھول نہیں اگے تھے مگر کسی نے فوراً ہی یہ نہیں لکھ دیا کہ یہ دہریہ ہے یا یہودی ہے یا ہندو ہے یا بدھسٹ ہے یا عیسائی ہے یا زرتش ہے۔ بلکہ بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اس کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے گا۔

اسی طرح یہاں ایک سکھ فیملی کی والدین کے کنٹرول کی المناک داستان ڈاکومنٹری کی صورت پڑی ہوئی ہے۔ کہ کیسے ان کی بیٹی انڈیا میں ایک غریب رکشے والے سے شادی کر نا چاہتی تھی اور جب وہ اس کو ملنے انڈیا گئی تو والدین نے کرائے کے قاتلوں سے اس کو وہیں پر مروا دیا۔ اور یہ بات پوری تفتیش اور تحقیق کے بعد منظر عام پر آئی۔ قتل کے بعد کسی اخبار میں ایسے خبر نہیں تھی کہ سکھ باپ نے غیرت کے نام پر اپنی بیٹی کو قتل کروا دیا۔

حتی کہ آج اس نیتھا نئیل ویلٹ (دہشت گرد لڑ کا) کا نہ ہمیں مذہب پتہ ہے اور نہ خاندان کا۔ اس کی تصویر تک نہیں دکھائی جا رہی ہے۔ (کیونکہ اب اس کو سیکورٹی کا مسئلہ ہے ) ۔ جب اس کی سیکورٹی کے لئے اتنی احتیاط ہو سکتی ہے تو ان سب مسلمانوں کی سیکورٹی کا کیا جو آئے روز ایسے ہی دیسی بدیسی نام نہاد لبرلز کے تعصب کا شکار بنتے ہیں۔ اور جن کے بغیر تحقیق کے بیانات کی وجہ سے لوگ اسلام کو دہشت گردی اور مسلمانوں کو دہشت اور جاہلیت کی علامت سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔

وہ نفرت وہ تعصب جو ایسی متعصب انداز کی رپورٹنگ سے پھیلتا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہاں کی صحافت کا متعصب ہونا اور حکومت کی ایسی باتوں پر خاموشی؟ نفرت کے ان پجاریوں کی ہی بدولت 2015۔ 2019 تک نیشنل کونسل آف کینیڈین مسلمز (NCCM) کے مطابق اب تک ایسے 300 واقعات ہو چکے ہیں اور اب اس کو بھی شامل کر لیں تو اب تک 301۔

مغربی میڈیا کی بات چھوڑیں ماشااللہ ہمارے اپنے ایسے ایسے دانشور یہاں پڑے ہیں جو نہ جانے کس ایجنڈا پر ہیں۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کی روزی روٹی اسلام دشمنی اور نفرت پھیلانے میں ہی ہے مگر اس سب کے نتائج تو پھر معصوم شہریوں کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں۔ یہ وہ آستین کے سانپ ہیں جو پاکستان کے کسی چھوٹے سے علاقے کے ان پڑھ مولوی کی کہی گئی کسی احمقانہ بات کو پکڑ کر یہاں کے مین سٹریم میڈیا میں یوں پیش کرتے ہیں جیسے اسلام یہی کچھ ہو۔

مثال کے طور پر پاکستان کے کسی ان پڑھ مولوی نے ایک بیان دیا کہ عورتیں فلاں فلاں سبزیاں ہاتھ میں نہ پکڑا کریں جن کی مشابہت مردانہ عضو تناسل سے ہے ورنہ وہ گناہ کی مرتکب ہو نگی اب اس خبر کو یہاں کینیڈا میں بیٹھ کر اس پر پورا کالم لکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ دیکھو یہ ہے اسلام۔ پڑھنے والے کو لگے کہ اسلام کوئی جاہلوں کا مذہب ہے اور اس کو فالو کرنے والے تمام شدت پسند عقل کے اندھے اور کوڑھ مغز ہیں۔

ہمارے وزیر اعظم جسٹن ٹڑوڈو نے کہا ہے کہ ”اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس ملک میں نفرت اور مذہبی اور نسلی عصبیت نہیں ہے، تو میں یہ پوچھتا ہوں کہ ہسپتال میں پڑے زخمی بچے کو ہم کیا بتائیں گے کہ کیا ہوا تھا؟ ہم مسلمان فیملیز کی آنکھوں میں دیکھ کر یہ کیسے کہیں گے کہ اسلاموفوبیا کی کوئی حقیت نہیں ہے؟“

وزیر اعظم ٹروڈو کا یہ بیان سیاسی ہے یا نہیں مگر میں اس بیان پر ان کو حقیقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کے لئے پو رے دس نمبر دیتی ہوں۔ کوئی شک نہیں کہ کینیڈا ایک خوبصورت اور پر امن ملک ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس خاموشی کے ساتھ مذہبی عصبیت کا زہر پھیلایا جا رہا ہے اس کو محسوس کر نے کے بعد خاموش رہنا ایک جرم ہو گا۔ جو ملک ان تعصبات کے خلاف خاموش رہتے ہیں پھر ان میں شدت پسندی کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ہمارے سامنے پاکستان اور اب انڈیا کی مثال ہے کیسے مر حلہ وار مذہبی نفرتیں اور تعصبات پھیلائے گئے۔ ایک کا گھر جلا تو ہم خاموش رہے او ر پھر نوبت یہاں تک آ گئی کہ سب کے ہی گھر جلنے لگے۔ آنکھیں بند کر لینے سے بلی چلی نہیں جاتی بلکہ وہ آپ کی آنکھوں میں پنجے گاڑ دیتی ہے۔ ان بلیوں سے بچنے کے لئے آنکھیں بند نہیں کھلی رکھنی چاہئیں۔

وہ لوگ جو مسلمانوں کے خلاف ایک ایجنڈا کے تحت نفرت پھیلا رہے ہیں ان کا منہ توڑ جواب دینے کا وقت آ گیا ہے۔ ان پر مین سٹریم میں لکھنے پر پابندی ہو نی چاہیے اور جب یہ لوگ سوشل میڈیا پر بکواس لکھیں تو اس کو اگنور کر نے کی بجائے نوٹس لے کر ان کے خلاف کمپین چلانی چاہیے کیونکہ یہی وہ سانپ ہیں جو کینیڈا کی پر امن فضا میں غیر محسوس طریقے سے زہر گھول رہے ہیں۔ یہ زہر صرف مسلمانوں تک ہی نہیں رہے گا اس کا شکار سب ہو جائیں گے۔ اپنی آنے والی نسلوں کو نفرت اور تعصب کی اس عفریت سے بچانے کے لئے ہمیں اس معصوم فیملی کے بے رحمانہ قتل کو رائگاں نہیں جانے دینا چاہیے۔ اگر آج بھی ہم نے اس صحافت اور اس سیاست کا بائیکاٹ نہ کیا جو ان نفرتوں کے ذمہ دار ہیں تو پھر ہمارا رسمی افسوس کسی کام کا نہیں۔

جنوری 2017 میں اسلامک سنٹر آف کیوبک سٹی میں ایسے ہی نفرت کے پجاری کی گولیوں کی اندھی بوچھاڑ سے 6 نمازی شہید اور 5 شدید زخمی ہو گئے تھے۔ تب اسی سال مارچ کے مہینے میں ہاؤس آف کامنز (پارلیمنٹ) میں لبرل پارٹی اور این ڈی پی نے اسلاموفوبیا اور تمام مذہبی اور نسلی تعصبات کے خلاف قانون بنانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ مگر Erin O ’Toole جو کنزرویٹو پارٹی کے موجودہ لیڈر ہیں نے 85 اور پارٹی ممبران کے ساتھ اس کی بھر پو ر مخالفت کی تھی۔ اب یہی لیڈر ہاؤس آف کامن میں فرما رہا ہے کہ

”پولیس کے مطابق لندن میں ایک خاندان پر ہو نے والا حملہ دہشت گردی ہے۔ پولیس نے تنبیہہ کی ہے کہ ملک کے ایک حصے سے دوسرے تک عدم برداشت، نفرت انگیزی، دہشت گردی اور اسلامو فوبیا بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔“

اور سوموار کو موصوف نے یہ ٹویٹ بھی کیا تھا کہ ”کینیڈا میں اسلاموفوبیا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور ہمیں ایسے متشدد رویوں کی مذمت کر نی چاہیے۔“

واہ! افضال فیملی کے بس میں ہو تا تو آ کر ان نوٹکیوں کو کہتے ؛
شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم۔

جانے والوں کے لئے دعائے مغفرت اور بچ جانے والے ننھے منے فائز کے لئے ڈھیروں دعائیں ہیں اور میں خواہش کرتی ہوں جب فائز ہسپتال سے واپس آئے تو اس کو کینیڈا اس طرح کا ہی دکھائی دے جس کی خوبصورتی دیکھ کر اس کے والدین نے یہاں آ کر بسنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور وہ اپنا غم بھول کر یہاں وہی تعمیری کردار نبھا سکے جس کا عزم اس کے والدین نے کیا تھا۔ گو کہ اب اس گھر میں اس دنیا میں اس کو وہ کہیں نظر نہیں آئیں گے جن کو اس کی آنکھیں تمام عمر تلاش کرتی رہیں گی۔ مگر فائز بیٹا۔

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مر نے کے لئے (محمود رام پوری)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments