معاشرے میں عدم برداشت


علم انسان میں سب سے پہلے برداشت کا مادہ پیدا کرتا ہے، اگر کسی تعلیم یافتہ شخص میں برداشت کا عنصر موجود نہیں ہے اور وہ کسی بات پر کوئی پر تشدد قدم اٹھاتا ہے تو یہ اس کے تعلیم یافتہ ہونے پر سوالیہ نشان ہے۔

عمومی طور پر تشدد سے مراد جسمانی تکلیف پہچانا جیسے کہ ہاتھ اٹھانا مار پیٹ کرنا وغیرہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ تشدد کی 11 اقسام ہیں جن میں جنسی، جسمانی، جذباتی، نفسیاتی زبانی تشدد و دیگر شامل ہیں۔ آج ہمارا مکمل معاشرہ متشدد ہو گیا ہے، نا کوئی کسی کی بات سننے کو تیار اور اور نا ہی ماننے کو۔

بسند احادیث علم تک رسائی کے لیے انسان کو حلم تک آنا ضروری ہے اور حلم بغیر صبر حاصل نہیں ہو سکتا گویا جس کے پاس صبر نہیں، برداشت نہیں وہ علم حاصل نہیں کر سکتا وہ عالم نہیں ہو سکتا ۔

یہ کالم عدم برداشت اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے گالی کلچر اور اس کے اثرات پر ہے۔ عدم برداشت ایک ایسی بیماری ہے جسے آپ جتنا برداشت کرتے چلے جائیں گے یہ اتنا پھیلتی چلی جائے گی۔ یہ کسی جان لیوا وبا سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے جو سیدھا انسانی دماغ پر اثر کرتی ہے اور اسے سماجی فاصلے اور ماسک لگا کر بھی نہیں روکا جا سکتا نا ہی اس کی کوئی ویکسین ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہمارا میڈیا اس متشدد معاشرے کو بہتر بنانے میں کار آمد ثابت ہو سکتا تھا لیکن اس میڈیا کے ذریعے ہی لوگوں کو شدت پسند بنایا جا رہا ہے، لاؤ شو میں گالم گلوچ، کردار کشی اور کیچڑ اچھالنا تو معمول کا حصہ بن ہی چکا تھا حال ہی میں بات دست درازی تک بھی پہنچ گئی۔ اس کا تمسخر اڑانے کے بجائے ہمیں فکرمند ہونا چاہیے کہ قوم کا مستقبل اب ان ہاتھوں میں ہے جو اپنے ہی لوگوں پر زور آزمائی کر رہے ہیں۔

ہم جس کلچر کو فروغ دے رہے ہیں وہ غیر انسانی اور غیر مہذب ہے، انسان میں متشدد سوچ اور فکر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ ایک سیاست دان کو اگر کسی ٹاک شو میں گفتگو کا سلیقہ نا ہو تو وہ ملک کے حالات کیا سدھارے گا؟ ایک صحافی کو اگر کسی پروگرام میں ادب کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا موقف پیش کرنے کا ڈھنگ نا آتا ہو تو وہ اپنے پڑھنے یا سننے والوں میں ادب و آداب کیسے منتقل کرے گا؟ دوسری سیاسی جماعتوں کا تو چلیں برا حال تھا ہی، اب مذہبی جماعتیں بھی اس گالی کلچر کو فروغ دینے میں پیچھے نہیں رہیں، میرا اشارہ آپ خوب سمجھتے ہیں نام لے کر مجھے گالیاں کھانے کا بالکل شوق نہیں۔

وہ ماں باپ جو اولاد کی تربیت کے لیے اس قدر فکر مند ہوا کرتے تھے کہ ان کی ہر نقل و حرکت، ان کی صحبت پر کڑی نظر رکھا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بچے کے منہ سے کبھی کوئی غلط بات نکل جانے کی صورت میں سخت سزا دیتے تھے تاکہ دوبارہ کوئی ایسی بات نا دہرائیں وہ کس منہ سے اپنے بچوں سے نظریں ملائیں گے نیشنل ٹیلی ویژن پر گالی کلچر عام ہو رہا ہو۔ عوام میں رواداری، برداشت، تحمل مزاجی کو فروغ دینا ہوگا اور یہ تب ہی ممکن ہے جب قوم کے بڑے اپنا احتساب کریں، لوگ نیشنل ٹیلی ویژن پر جو دیکھیں گے سوشل میڈیا پر اور نجی زندگی میں وہ ہی دہرائیں گے۔

ویسے تو معاشرے میں بھڑکتی شدت پسندی اور عدم برداشت کی آگ پر کافی لکھا اور پڑھا جا چکا ہے میں یہاں ایک خاص تحقیق کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے موضوع سے متصل ہونا چاہوں گا، یہ تحقیق ماہر نفسیات البرٹ بنڈورہ اور اس کے ساتھیوں نے کی تھی، یہ مشاہدوں سے سیکھنے کے عمل پر ہونے والی دنیا کی سب سے مشہور اور پر اثر تحقیق کے طور پر مانی جاتی ہے۔ 1961 کی اس تحقیق میں بنڈورہ اور ان کے ساتھیوں نے 3 طرح کے بچوں کا مشاہدہ کیا جنہیں ایک الگ الگ اسکرین پر 3 الگ الگ مناظر دکھائے گئے، ایک میں ماڈل کو ایک ڈول پر جارحانہ طرز عمل رکھنے پر تحفہ ملتے دکھایا گیا، دوسری قسم ان بچوں کی جنہیں اسکرین پر اس ماڈل کو ڈول کی پٹائی کرنے پر سزا ملتے دکھایا گیا اور تیسری قسم ان بچوں کی جنہیں اسکرین پر ماڈل کو ڈول کی پٹائی کرنے پر بنا کچھ کیے چھوڑ دیا گیا اور پھر تینوں مناظر دیکھنے والے بچوں کے رویوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ بچے تب ہی جارحانہ رویہ اپناتے ہیں جب انہیں اس میں کوئی تحفہ یا شاباشی حاصل ہو رہی ہو اور ان میں جارحیت اس کے مشاہدے اور اس مشاہدے کی نقل کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ نئی نسل کو آپ تشدد دکھائیں گے وہ متشدد بنے گی، آپ بے ادبی اور گالم گلوچ دکھائیں گے وہ بے ادب اور بدتمیز بنے گی۔

ٹی وی چینلز سے لے کر صحافت اور سیاست دانوں تک دیکھا جائے تو معیار ہر چیز کا ہی گر چکا ہے۔ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر جرمانے اور کڑی پابندی عائد ہونی چاہی تاکہ معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔ ایک پیمانہ بنایا جانا چاہیے، حد بندی کی جانی چاہیے پیمرا سمیت ہر متعلقہ ادارے کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے اور اس کلچر کو فروغ دینے سے روکا جائے جس نے پوری قوم کا مستقبل داؤ پر لگا رکھا ہے۔ گالی کلچر ہمارا معاشرتی مسئلہ ہے اور اس کا سدھار ہم سب کے لیے ایک اہم فریضہ، ہمارا آج ہمارے آنے والے کل کا ذمہ دار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments