نقل کرنا طالب علم بے چارے کا حق ہے


اگر وہ پورا سال کورس کے رٹے لگا رہا ہے، گھوٹ گھوٹ کے مطالعہ پاکستان پی رہا ہے، اے پلس بی ہول سکوئر برابر اے سکوئر پلس ٹو اے بی پلس بی سکوئر جیسا خشک فارمولہ یاد کرتا ہے تو کیا وہ پاس نہیں ہونا چاہتا؟

جسے آپ نالائق کہتے ہیں، نکما سمجھتے ہیں، نقل خور کہتے ہیں، کیا وہ سکول میں چھولے بیچنے آتا ہے؟ اسے نہیں پسند کہ ماں باپ کی آنکھوں میں اس کے رزلٹ پر بھی ویسے ہی چراغ جلیں جیسے ’لائق‘ بچوں کے فرسٹ آنے پہ روشن ہوتے ہیں؟

سب کے ذہن ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کسی کو تاریخیں تک رٹ جاتی ہیں کوئی نام بھی یاد نہیں رکھ پاتا۔ یہ پیدائشی معاملہ ہے۔

کوئی بچپن سے باقاعدہ ایک چیز پہ فوکسڈ ہوتا ہے، کوئی نہیں ہوتا یا ہونا نہیں چاہتا۔ یہ پیدائش کے بعد والا معاملہ ہے لیکن ہے یہ بھی قدرت کا گیم۔ آپ کوشش کر کے محنتی ہو سکتے ہیں، ذہین ہونا اوپر والے کی عطا ہے۔

بات سمجھیں۔ فرق موجود ہے! اسے مانیں۔ قسمت کا فرق ہے اور دماغ کا فرق بھی موجود ہے۔ آپ لاکھ پھینٹیاں لگاتے رہیں مگر جو بچہ کمزور ہے پڑھائی میں تو وہ بہرحال قدرتی طور پہ کسی ’لائق‘ بچے کی طرح نہیں بن سکے گا، جس کے لیے سب آسان ہو بلکہ حلوہ ہو۔

اب ہوتا کیا ہے۔ دنیا بھر میں سسٹم کا ماننا ہے کہ جو اول آئے گا وہ زندہ باد ہے۔ جو پاس ہو گا وہ لائق ہے۔ جو کامیاب ہو گا اسے عزت ملے گی۔ سکول میں داخل ہونے کے بعد آپ کا بچہ اس سولی پر لٹک جاتا ہے اور ساری عمر وہاں سے نیچے نہیں اتر سکتا۔ کیسے؟ پڑھائی کے بعد زندگی کی دوڑ چالو ہو جاتی ہے، اس میں بھی نمبر ون کا چکر۔ تو وہ کبھی جان چھوڑتی نہیں ہے جو مرضی کر لیں۔

ایسے میں اگر کوئی بچہ بوٹی لگا رہا ہے، آگے والے کی طرف جھک کر دیکھنا چاہ رہا ہے کچھ، ساتھ والے سے پوچھ رہا ہے یا سب سے چھپا کے ہینڈ فری کان میں ڈالی ہوئی ہے اور کہیں سے جواب پوچھ رہا ہے تو اسے اگنور کر دیں۔ کوئی قیامت نہیں آ رہی۔ کسی ’حق دار کا حق‘ نہیں مارا جا رہا، وہ صرف پاس ہونا چاہتا ہے۔ وہ نمبر ون کے کھیل کا حصہ ہے ہی نہیں بھائی، وہ تو عزت سے رہنے کے چکروں میں یہ سب کر رہا ہے۔ وہ صرف پاس ہون جوگی ’چیٹنگ‘ کرے گا پھر نکل جائے گا۔

ٹھیک مانیں تو اصل میں وہ اس امید پہ پورا اترنا چاہتا ہے جو ماں باپ سمیت پورے خاندان نے اس سے لگائی ہوئی ہے۔ سکول میں پڑھنا، کالج جانا، یونیورسٹی کی ڈگری، نوکری۔ یہ سب نارمز ہیں اور وہ زبردستی اس راستے پہ چل رہا ہے کیوں کہ اس کے پاس کوئی آپشن اور موجود ہی نہیں ہے۔

ایسے میں بھائی وہ سارا سال پڑھتا ہے یا نہیں، آپ یہ چیک نہ کریں، سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر وہ پاس ہو گیا تو آپ کا بگڑ کیا جانا ہے؟ اگر آپ استاد ہیں، امتحان لینے والے افسر ہیں، چھاپہ مار ٹیم کا حصہ ہیں یا وہ شکایتی ڈیش ہیں جو ہر کلاس میں ہوتا ہے۔ تو کیا جان لیں گے بچے کی؟ اگلے کا مستقبل کیوں خراب کرتے ہیں؟ منہ دوسری طرف پھیر لیں اور سکون سے نکل لیں آگے، قسم خدا کی آپ کا ایک درگزر اگلے کا پرچہ پاس کرا دے گا!

سن لیں، سن لیں، دیکھیں جو بھی ڈگری وہ آپ کے زیر سایہ کر رہا ہے اسے کوئی لاکھوں کی نوکری نہیں ملنی۔ وہ دھکے کھائے گا، خواریاں کاٹے گا، قسمت اور پیسہ ہو گا تو باہر ملک چلا جائے گا۔ ڈگری صرف امید ہے جو اس کے اماں باوا کو ہے یا شاید تھوڑی بہت اسے ہو۔ ورنہ بچے بچے کو پتہ ہے کہ پی ایچ ڈی بھی کر کے پچیس تیس سال رگڑے لگیں گے تب شاید کوئی ماحول بن جائے ’لاکھوں کی نوکری‘ کا!

سسٹم بدل دیں؟ بچوں کو نقل کی آفیشل اجازت دے دیں؟ امتحانی طریقہ کچھ اور ہو؟ کورس بدلیں؟
نہیں!

کچھ بھی نہیں ہو گا۔ کچھ ہوا بھی تو اپنا ہر کام موٹر وے جیسا سیدھا ہوتا ہے، 223 کلومیٹر تھا جی ٹی روڈ پہ لاہور سے اسلام آباد، اب تقریباً چار سو کلومیٹر ہے۔ راستہ بدلیں یا ایندھن پھونکیں تو کیوں نا تھوڑا سا خود کو بدل لیں؟ عادت پال لیں، جو کر رہا ہے نقل اور آپ کو نظر آ گیا ہے تو بابا درگزر کر لیں اور بھول جائیں۔ کوئی قیامت نہیں آئے گی۔

میرا بلاگ جب کسی اور کے نام سے کہیں سوشل میڈیا لگا ہوتا ہے تو یار قسم سے خوشی ہوتی ہے کہ اگلے نے اس قابل سمجھا، عزت اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ خدا جانتا ہے، میں جانتا ہوں، میرا پڑھنے والا جانتا ہے میرا کام اصل تھا، بات ختم!

اپنی عزت نہیں کروانا چاہ رہا بھائی، عرض یہ ہے کہ میں نے بچپن، جوانی، الحمدللہ جب موقع ملا نقل کی۔ جب نہیں ملا تو دماغ کے زور سے پاس ہو گیا یہ بھی قسمت تھی، تکا لگ گیا۔ مگر کن سبجیکٹس میں کی؟ حساب، فزکس، بائیو۔ آخر چھوڑ دیا وہ دھندا، ماں باپ مان گئے۔ بزنس پڑھ لیا، صحافت پڑھ لی۔ سب کے ماں باپ نہیں مانتے۔

ہو سکتا ہے آپ ڈاکٹر زبردستی بنے ہوں، آپ اندر سے پروگرامر ہوں لیکن بن انجینئیر گئے ہوں، اچھی اردو لگتی ہو لیکن ایم اے کیمسٹری میں کیا ہو۔ ایسا ہے نا؟ تو ان محرومیوں کے صدقے بابا نقل کرنے والے کو بخش دیں، اسے بھی کوئی جگاڑ لگانی ہے اس سب میں پاس ہونے کے لیے جس میں اسے دلچسپی نہیں ہے۔

تو کل ملا کے جو مقصد تھا اس پوری تحریر کا، وہ صرف یہ تھا کہ نقل کوئی برائی نہیں ہے۔ جو پڑھتا ہے بسم اللہ، جو نہیں پڑھتا یا جس کا دماغ نہیں چلتا یا جس کے گھر میں کوئی پریشانی ہے، پاس ہونا اس کا بھی حق ہے۔ آپ اس کی فکر چھوڑ دیں، روزی روٹی اس کی بھی مالک کے ذمے ہے بس اس پریشانی سے نکلنے دیں اسے۔

جن مہربانوں کو پسند نہیں آئی بات ان سے معذرت لیکن اپنی وجہ سے ایک بھی جوان اگلی بار پاس ہوتا ہے تو اپن کا لکھا کامیاب ہے استاد! جیتے رہیں، کامیاب رہیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments