جانا ہمارا پی ٹی وی کے یوتھ پروگرام ”فروزاں“ میں


عزیز دوست باصر کاظمی نے پی ٹی وی کے بارے میں کچھ یادیں شیئر کی ہیں تو مجھے بھی 41 برس پرانا ایک ٹی وی پروگرام یاد آ گیا ہے۔ سن 1980 کی بات ہے جب لاہور سنٹر سے ایک یوتھ پروگرام فروزاں کے نام سے نشر ہوا کرتا تھا جس کی میزبان غزالہ قریشی تھیں۔ ابتدا میں یہ پروگرام کراچی سنٹر سے شروع ہوا تھا جس کی میزبانی کے فرائض مہتاب چنہ (راشدی) کے ذمہ تھے۔

فروری کا شاید پہلا ہفتہ تھا کہ میں باصر سے ملنے کرشن نگر گیا۔ باصر نے بتایا کہ اسے ”فروزاں“ میں شمولیت کی دعوت ملی ہے اور اس سلسلے میں ٹی وی سٹیشن جانا ہے۔ چلو اکٹھے چلتے ہیں۔ ہم دونوں ایبٹ روڈ پر واقع ٹی وی سٹیشن چلے گئے۔ پروگرام کے پروڈیوسر سید علیم پاشا کے کمرے میں میٹنگ تھی۔ اس وقت مشہور شاعر حفیظ طاہر اس پروگرام کے سکرپٹ رائٹر تھے۔ وہاں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا ایک طالب علم تھا جو طارق عزیز کی نقل اتارتا تھا۔ وہ ڈاکٹر بن کر قوم کی خدمت کرنے کے جذبے کو بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ وہ اپنی میڈیکل پریکٹس میں کسی مریض سے کوئی فیس نہیں لے گا۔ اس پر پوچھا گیا پھر اپنا گزارہ کس طرح کرو گے۔ اس نے جواب دیا وہ کاروبار کرے گا۔ میں نے کہا، یہ نہ ہو کہ مریض کے منہ میں تھرمامیٹر لگا کر آپ ٹیلی فون پر بازار کے بھاو پوچھتے رہیں۔ میرا یہ جملہ حفیظ طاہر صاحب کو بہت پسند آیا اور انھوں نے نوٹ کر لیا۔

سید علیم پاشا نے باصر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی فلسفے والے کو بھی پروگرام میں شامل کرنا پسند کروں گا۔ اس پر میں نے کچھ نام بتانا شروع کر دیے۔ پاشا صاحب زچ ہو رہے تھے کہ میں ان کا اشارہ نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ تنگ آ کر کہا آپ اپنا نام کیوں نہیں لیتے؟ مجھے کچھ حیرت ہوئی کہ وہ مجھے شامل کرنے کا سوچ رہے تھے۔ میرے پاس تعارف کرانے کو تو کچھ بھی نہیں تھا۔ فلسفے کا لیکچرر ہونا تو کوئی ایسی اعزاز کی بات نہیں تھی۔ لیکن آپ کا یوتھ پروگرام ہے، میں نے جواب دیا۔ اس پر انھوں نے کہا ہمارا یوتھ پینتیس برس تک ہے۔ یوں بیٹھے بٹھائے میرا نام بھی شرکا کی لسٹ میں شامل ہو گیا۔ زندگی میں کسی ٹی وی پروگرام میں شرکت کا یہ پہلا موقع تھا اور تاحال پی ٹی وی پر آخری بھی۔

میرے اور باصر کے علاوہ باقی شرکا سٹوڈنٹس تھے۔ ایک لڑکی پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ سے تھی جو کشتی رانی کرتی تھی۔ ایک لڑکی کا تعلق شاید این سی اے سے تھا اور اس نے بانسری بجانا تھی۔ ایک آدھ کوئی اور بھی تھا۔

باصر کاظمی: اس تصویر کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ باصر نے وہ جوتے پہن رکھے ہیں جو ان کے والد ناصر کاظمی نے انہیں بستر مرگ پر عنایت کئے تھے۔

اگلے روز سب شرکا کے ساتھ ریہرسل ہونا تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پی ٹی وی پر پروگراموں کے معیار پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ میں لیٹ ہو گیا تھا۔ میرے پہنچنے تک ریہرسل ہو چکی تھی۔ شرکا سے پوچھا گیا آپ کپڑے کون سے پہنیں گے۔ میں جواب سوچ ہی رہا تھا کہ کسی نے جملہ چست کیا، فلسفی ہیں اس لیے سوچ میں پڑ گئے ہیں۔ میں نے جواب دیا دراصل یہ سوال آج تک مجھ سے کبھی کسی نے پوچھا ہی نہیں۔ کپڑے جو دل چاہتا ہے پہن لیتا ہوں۔ سید علیم پاشا نے کہا نو سوٹ، نو ٹائی۔ یعنی بہت زیادہ فارمل ڈریس نہیں ہونا چاہیے۔

اگلے روز پروگرام کی ریکارڈنگ تھی۔ ریکارڈنگ شروع سے پہلے غزالہ قریشی نے باصر اور مجھے دیکھا، پھر اپنے لباس پر نظر دوڑائی اور مسکرا کر کہا، اچھا آج ہم تینوں نے براون رنگ پہنا ہوا ہے۔ تعارفی کلمات کے بعد سب سے پہلے باصر کو سٹیج پر بلایا گیا۔ باصر نے شاعری پر بہت عمدہ گفتگو کی۔

شاعری پر گفتگو ہو تو بات افلاطون تک پہنچ ہی جاتی ہے جس کی مثالی ریاست میں شاعروں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اب میزبان نے کہا کہ اس موضوع پر بات کرنے کے لیے ہم نے ایک فلسفی (یہی کہا گیا تھا) کو بھی مدعو کیا ہے۔ خیر مجھے بھی سٹیج پر بلایا گیا۔ اب بات کو کیا چھپانا، سوالات چونکہ سارے میرے ہی بتائے ہوئے تھے اس لیے میرے جوابات بھی برمحل تھے جن پر کافی داد ملی اور خوب تالیاں بجیں۔

پروگرام کے درمیان میں باصر کو غزل سنانے کے لیے کہا گیا۔ باصر نے جب اپنی غزل کا یہ شعر پڑھا:

مجھے تو صرف ترا پیار کھینچ لایا ہے

یہاں رقیب بھی ہوں گے مجھے خیال نہ تھا

تو تالیوں کی گونج میں ایک چہرے پر سرخی دوڑ گئی اور کچھ چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ (باصر کی یہ غزل کچھ برس بعد پی ٹی وی کے لیے غلام عباس نے گائی بھی تھی جس کی کمپوزیشن بہت عمدہ تھی۔ )

پروگرام کی ریکارڈنگ ختم ہوئی تو ہمیں کہا گیا کہ ابھی بیٹھے رہیں تاکہ یہ چیک کر لیا جائے کہ ریکارڈنگ درست ہو گئی ہے۔ اس اثنا میں حاضرین کو مشغول رکھنے کا کہا گیا۔ باصر نے فرمائش پر یہ غزل سنائی:

اتر گئی ہیں رگ و پے میں یوں تری نظریں

کوئی بھی نقش بنانے لگوں بنیں آنکھیں

لگی ہے آنکھ ہماری ترے تصور میں

تری ہی شکل مقابل ہو جب کھلیں آنکھیں

(یہ غزل بھی اس زمانے میں بڑی مشہور ہوئی تھی اور ڈاکٹر امجد پرویز نے بہت عمدہ گائی بھی تھی۔)

ڈاکٹر ساجد علی: تب آتش جوان تھا

باصر کے بعد میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹ نے کھڑے ہو کر فلسفیوں کے متعلق ایک لطیفہ سنانا شروع کیا جس پر حاضرین احتجاج کرنے لگے۔ حاضرین میں زیادہ تعداد شعبہ فلسفہ پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی تھی۔ میں نے انھیں اشارے سے چپ کرایا۔ اس کے لطیفہ سنانے کے بعد میں نے وہ کہاوت سنا دی کہ شاعر کی ہجو، فقیر کی گالی اور مسخرے کی بات کا برا نہیں ماننا چاہیے۔ اس بات پر اس طالب علم ڈاکٹر نے قدرے خفگی سے کہا، میں ڈاکٹر ہوں، مسخرہ نہیں۔ میں نے کہا لیکن آپ کو یہاں ڈاکٹر کی حیثیت سے مدعو نہیں کیا گیا۔ بعد میں حفیظ طاہر صاحب نے کہا، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ اتنی جملے بازی کر سکتے ہیں۔

فروری کے آخری ہفتے میں یہ پروگرام نشر ہوا تو اس کی کافی دھوم مچی تھی۔ پروگرام نشر ہونے کے دو تین دن بعد کی بات ہے کہ میں اور باصر مغرب کے وقت مال روڈ پر پھر رہے تھے۔ وہاں ٹولنٹن مارکیٹ کی نکڑ پر استاد محترم پروفیسر مرزا منور صاحب مل گئے۔ فرمانے لگے آؤ ملک بشیر الرحمان صاحب کے ہاں چلتے ہیں۔ ملک صاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں اردو کے صدر شعبہ رہے تھے۔ کلاس میں ان کا اتنا رعب ہوتا تھا کہ مجھے ان کے سامنے زبان کھولنے کا کم ہی یارا ہوتا تھا۔ ان کا گھر قریب ہی پرانی انارکلی چوک میں تھا۔ ہم جب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے تو ملک صاحب کے گھر میں چھوٹے بچوں نے میری اور باصر کی طرف دیکھ کر کہا، انھیں ٹی وی پر دیکھا تھا۔ ملک صاحب نے بھی پروگرام دیکھ رکھا تھا اور بہت خوش تھے۔ البتہ مجھے بولتا دیکھ کر وہ کسی قدر حیرت زدہ تھے۔ مرزا صاحب سے کہنے لگے یہ کنجوسی کی حد تک کم گو تھا اور کلاس میں تو بولتا ہی نہیں تھا۔ جواباً مرزا صاحب نے پنجابی کا ایک اکھان سنایا جو مجھے یاد نہیں رہا لیکن اس میں کلہاڑوں کے لمبے دانتوں کا ذکر تھا۔ کہنے لگے آپ کے سامنے نہیں بولتا تھا، ورنہ اس وقت بھی بہت تقریریں کیا کرتا تھا۔ باتوں باتوں میں ملک صاحب نے یہ بھی کہا، تم دونوں کے بعد پروگرام بالکل بے کار ہو گیا تھا۔ اور بھی کئی لوگوں نے مجھ سے یہ بات کہی کہ آپ دونوں کے بعد پروگرام کو کیا ہوا تھا۔ میرا جواب تھا، کچھ نہیں ہوا تھا، بس روٹین پروگرام شروع ہو گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments