عمیرہ احمد کا ڈرامہ ‘دھوپ کی دیوار’: ‘سارہ غصہ مت کرو، ورنہ سارا انڈیا اور پاکستان اداس ہو جائے گا’


‘ کیا مصنفہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری کشیدگی اور تناؤ کے بارے میں نہیں جانتی تھیں؟’ ‘ کیا ہیرو پاکستانی لڑکا نہیں ہو سکتا تھا؟’

یہ اور ایسے متعدد سوالات ہیں جو پاکستانی سوشل میڈیا صارفین انڈین ویب سٹریمنگ پلیٹ فارم پر پاکستان کی معروف ڈرامہ نگار عمیرہ احمد کی لکھی گئی ویب سیریز ‘دھوپ کی دیوار’ کا ٹریلر ریلیز ہونے کے بعد پوچھتے نظر آئے۔ کچھ لوگوں نے ڈرامے کی مصنفہ پر غداری اور ملک دشمنی کا الزام بھی عائد کر ڈالا کیونکہ یہ ڈرامہ پاکستان میں نہیں بلکہ انڈیا کے ویب سٹریمنگ پلیٹ فارم ‘زی فائیو’ پر آن ائیر ہونا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل اتنا شدید تھا کہ ڈرامے کی مصنفہ کو اپنا ایک طویل وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا جس میں ان تمام مسائل پر بات کی گئی جو اس ڈرامے سے متعلق لوگوں نے اجاگر کیے تھے۔

ڈرامے کی کہانی ہے کیا؟

سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد کو ڈرامے کی کہانی پر بھی اعتراض تھا بظاہر ریلیز کیے جانے والے ٹیزر میں دکھایا گیا ہے کہ ایک انڈین ہندو لڑکے کی ایک پاکستانی مسلمان لڑکی کے ساتھ نفرت اور لڑائی کیسے پیار بھرے رشتے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

دونوں کے والد انڈّیا اور پاکستان کے فوجی ہیں اور دونوں انڈیا اور پاکستان کی سرحد پر جاری کشیدگی کے دوران مارے جاتے ہیں۔

ابتدا میں دونوں اپنے اپنے والد کی بہادری کی داستان سناتے اور ایک دوسرے کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیان دے کر لوگوں سے تعریف بٹورتے نظر آتے ہیں لیکن دھیرے دھیرے ان کی لڑائی دوستی میں بدل جاتی ہے اور وہ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ملکوں کی کشیدگی لوگوں کی باہمی لڑائی ہرگز نہیں ہے۔

دونوں جس اذیت سے گزرتے ہیں اسے ‘یونائیٹڈ گریف’ مشترک دکھ قرار دیا گیا۔ تاہم ان کے خاندان کی جانب سے انہیں کڑے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ٹیزر کے اختتام پر احد رضا میر جو ڈرامے کا مرکزی ادا کر رہے ہیں وہ اداکارہ سجل علی جو اس ڈرامے میں پاکستانی لڑکی سارہ کا کردار کرتی نظر آتی ہیں ان کے لیے انگلش میں گانا گا رہے ہیں جس کا مطلب ہے ‘سارہ غصہ مت کرو، ورنہ سارا انڈیا اور پاکستان اداس ہو جائے گا۔’

چونکہ یہ ڈرامہ ہے اس لیے ساری کہانی ٹیزر سے بھانپی بھی نہیں جا سکتی۔ اس لیے ڈرامہ باقاعدہ نشر ہونے تک انتظار کرنا پڑے گا۔

غداری کا الزام اور مصنفہ کا بیان

عمیرہ احمد کا شمار پاکستان میں دور حاضر کے مقبول ترین ناول نگاروں اور مصنفوں میں ہوتا ہے۔ ان کے لکھے گئے کئی ڈرامے مقبول ہو چکے ہیں۔

مصنفہ عمیرہ احمد نے انڈین ویب سٹریمنگ پلیٹ فارم کے لیے ویب سیریز لکھنے پر ‘غدار’ اور ‘ملک دشمن’ کہلائےجانے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دھوپ کی دیوار نامی ویب سیریز پر انھوں نے جنوری سن 2019 میں کام کرنے کا آغاز کیا تھا۔

ان کے بقول پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ‘آئی ایس پی آر کو اس کی پوری کہانی بھیجی گئی تاکہ اگر کوئی قابل اعتراض مواد ہو تو اسے ایڈٹ کر دیا جائے۔’

مصنفہ کا دعوی ہے کہ ‘اس موضوع کو آئی ایس پی آر نے اوکے کر دیا تھا’ اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں راولپنڈی بلا کر ان سے میٹنگ بھی کی گئی اور کہا گیا کہ ‘انڈیا پاکستان کے تعلقات پر فوج کا بھی یہی سٹانس ہے۔’

آئی ایس پی آر سے کہانی کے اپروول سے متعلق جاننے کے لیے بی بی سی کی جانب سےرابطہ کیے جانے پر کوئی رد عمل نہیں دیا گیا۔

’یہ ڈرامہ کسی انڈین چینل کے لیے نہیں لکھا گیا تھا’

اس ڈرامے کے حوالے سے سوشل میڈیا صارفین کو ایک اور اعتراض بھی ہے کہ مصنفہ نے پاکستانی چینلز کے ہوتے ہوئے انڈیا کے لیے کوئی ڈرامہ کیوں لکھا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے عمیرہ احمد کا بظاہر دو ٹوک الفاظ میں کہنا تھا کہ ‘یہ ڈرامہ کسی انڈین چینل کے لیے نہیں لکھا گیا تھا۔’

انھوں نے وضاحت کی انھوں نے ’دھوپ کی دیوار‘ سمیت تین ڈرامے گروپ ایم نامی پروڈکشن کمپنی کے ساتھ 2018 میں سائن کیے تھے جو کہ ایک پاکستانی کونٹینٹ کمپنی ہے۔

عمیرہ احمد کا کہنا تھا کہ گروپ ایم نے ان میں سے دو پروجیکٹ ‘الف’ اور ‘لعل’ پاکستانی نجی چینل کو بیچے اور دو پروجیکٹ انٹرنیشنل پلیٹ فارم کو بیچنے کی کوشش کی، جن میں زی فائیو ، نیٹ فلکس اور چند دیگر فارم شامل ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے متعدد ڈرامے عنقریب پاکستانی چینلوں پر بھی ریلیز ہو رہے ہیں اور اگر کسی پاکستانی مصنف کے کام کو بین الاقوامی سطح پرپذیرائی ملتی ہیں تو یہ ان کی نظر میں اچھی بات ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ‘رائٹر کی لکھی ہوئی چیز کہاں پر چلے گی اس کا فیصلہ رائٹر نہیں کرتا بلکہ پروڈیوسر اور چینل کرتا ہے امید ہے کہ اب یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ یہ ایک لوکل کمپنی کے لیے لکھا گیا ہے کسی انڈین کمپنی کے لیے نہیں لکھا گیا اور یہ پروجیکٹ اس وقت لکھا گیا تھا جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات اتنے خراب نہیں تھے اور نہ ہی کشمیر میں جو آئینی طور پر حالیہ تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ کی گئی تھیں۔’

’دھوپ کی دیوار‘ سیریز کی پروڈکشن کمپنی گروپ ایم سے بی بی سی نے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے رابطہ کیا لیکن کمپنی نے اس کا جواب نہیں دیا۔

سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل

سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے جہاں عمیرہ احمد کے بقول ان کے انڈین ویب سٹریمنگ پلیٹ فارم کے لیے ڈرامے لکھے جانے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا وہیں کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی مصنف بین الاقوامی پلیٹ فارم پر کام کرتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔

ایک اور فیس بک صارف ہادیہ جواد کا کہنا تھا ‘ویسے انڈین موویز دیکھتے ہیں ان کے گانوں پر رقص کرتے ہیں اس وقت ان کو یاد نہیں ہوتا کہ انڈیا ہمارا دشمن ہے۔’

ٹویٹ

ایسے سوشل میڈیا صارفین بھی تھے جنھوں نے وقت سے پہلے ڈرامے سے متعلق نتائج اخذ کرنے کو جلد بازی قرار دیا انہی میں سے ایک جویریہ کا کہنا تھا کہ ‘میں لوگوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ تھوڑا صبر کریں اپنی پیش گوئیوں کی بنیاد پر نتائج مرتب نہ کریں۔ یہ سکرپٹ عمیرا احمد نے لکھا ہے۔ انھوں نے ایک روحانی ڈرامہ ‘الف’ اور نیوی کی جانب سے بنائی جانے والی ٹیلی فلم لعل، پیر کامل اور آب حیات جیسے ناول تحریر کیے۔’

کئی صارفین کو اعتراض تھا کہ ڈرامے میں پاکستانی فوجی اور انڈین فوجی دونوں کو جنگ میں مارے جانے پر ‘شہید’ کہا گیا یا جو کہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے مطابق نہیں ہے۔

فیس بک

اس پر ابتسام سمیر نامی فیس بک صارف نے تبصرہ کیا کہ ‘یہ سیریز دیکھے بغیر بھی مجھے یقین ہے کہ ایک ایسا انسان جو پیر کامل اور آب حیات جیسا ماسٹر پیس لکھ سکتا ہے وہ ملک اور مذہب کے خلاف کبھی نہیں لکھے گا۔’

ڈرامہ کی مصنفہ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ان کی کہانی میں لو سٹوری نہیں بلکہ دوستی دکھائی گئی ہے۔

اسی طرح وجیہہ عاصم سلطان نامی صارف نے کہا کہ ‘یہ فخر کی بات ہے کہ ہمارے ڈرامموں کو دنیا بھر میں چنا، دیکھا اور پسند کیا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی انڈیا میں ہمارے دھوپ کنارے اور تنہائیاں جیسے ڈراموں کی تعریف کی گئی اور ان کہانیوں کی نقل بنانے کی بھی کوشش کی گئی۔ اس لیے آپ ان لوگوں کو پریشان نہ کریں جو اچھا کام کر رہے ہیں۔’

کچھ ایسے سوشل میڈیا صارفین بھی تھے جنھوں نے اس بات سے ہٹ کر کہ یہ ڈرامہ کہاں اور کیسے چلے گا اس کے موضوع پر بھی بات کی۔

ٹویٹ

آمنہ نامی صارف کا کہنا تھا کہ ‘مجھے اچھا لگا کہ اس ڈرامے کے ٹریلر نے کچھ بنیادی مسائل کی نشاندہی کی اور مجھے نفرت ہے اس بات سے کہ لوگ کتاب کے بارے میں اس کے سرورق سے رائے قائم کرنے لگتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ان عوامل پر بات کی جائے جن کے ذریعے ایک خوبصورت خیال اور پلاٹ کو اجاگر کیا گیا اور آخرکار یہ عمیرا احمد نے لکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp