’80 کی دہائی کا گانا جو 10 سال بعد میری کھوئی ہوئی یادداشت واپس لے آیا‘

بیتھ روز - بی بی سی


Portrait of Thomas Leeds in a park

ایک ڈرم بیٹ آتی ہے اور پھر کی بورڈ۔ نوٹس کی ایک ترتیب اور گلوکار کی آواز

I pictured a rainbow”

You held it in your hands

I had flashes

“But you saw the plan

یہ موسیقی تھامس کے دماغ میں کہیں دور تک پہنچ جاتی ہے۔

Illustration of the song lyrics mixed with Thomas' memory flashbacks

اور جیسے ہی واٹر بوائز کے 1980 کی دہائی کے گیت ’دا ہول آف دا مون‘ کے بول تھامس کے ایئر فونز کے ذریعے اس کے کانوں میں پڑتے ہیں، تو اسے ماضی کے چھ قصے یاد آ جاتے ہیں، ہر قصے کو اس سے پہلے والے قصے نے متحرک کیا ہوتا ہے۔

تیس سالہ تھامس کے لیے، یہ ایک غیر معمولی لمحہ تھا۔ ایسا تجربہ جس کے لیے وہ 10 طویل سالوں سے ترس رہے تھے۔ جب دس سال پہلے انھیں ایک کار نے ٹکر ماری تھی ان تمام یادداشت جاتی رہی تھی تھی۔ وہ میموری چین کے متعلق کہتے ہیں کہ ’یہ سب سے زیادہ جادوئی چیز ہوئی تھی۔‘

’میں ایک عجیب سے نیلے رنگ کے فرش پر بیٹھا تھا اور میں اس چاندی جیسے ریڈیو کو دیکھا۔ پھر، میں کسی اور جگہ پر تھا اور میں نے اس شخص کا دیو قامت ہاتھ پکڑا ہوا تھا… اور پھر ایک اور یاد آئی۔‘

اسے ایک کرسمس کا درخت یاد آیا جو اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ’وہاں ایک عورت کھڑی تھی، وہ جوان تھی اور مسکرا رہی تھی اور اس کے بال سفید نہیں تھے۔ وہ میری ماں تھی اور میں اس کا چھوٹا لڑکا تھا۔ اور یہ حقیقت تھی۔‘

تھامس نے فوراً ہی یادیں لکھ لیں۔

اسے یہ یقین کرنے کی ضرورت تھی کہ وہ حقیقی ہیں، اور ان کا دماغ ان کے ساتھ چالیں نہیں چل رہا۔ کیا یہ ان کے دماغ کی چوٹ کا کوئی اور مظاہرہ تھا، جس طرح ان کی شخصیت میں تبدیلی یا فیس بلائنڈنیس (سیاق س سباق کے بغیر چہرہ نہ پہچاننے کی بیماری)۔

لیکن اگر فلیش بیک حقیقی تھے، تو پھر آخر کیسے ان کا دماغ ان کی یادداشت کو کھولنے میں کامیاب ہوا؟

grey_new

وہ شام کا وقت تھا اور وسطی لندن میں ابھی بھی گہما گہمی تھی جب تھامس لیڈز اپنے والد سے لفٹ لینے کے لیے گرین پارک سٹیشن کی طرف گئے۔ 19 سالہ تھامس نے یونیورسٹی شروع کرنے سے پہلے گیپ ایئر یا ایک سال کا وقفہ لیا تھا اور اپنے ایک دوست سے ملنے جا رہے تھے۔

رات نو بجے کے قریب سڑک عبور کرتے وقت ایک کار نے انھیں ٹکر مار دی۔

جس آفیسر نے حادثہ ہوتے دیکھا تھا وہ بعد میں اس کے متعلق بتاتے ہوئے شدید صدمے کا شکار تھے۔

ٹکر کے بعد تھامس ٹیکسی کی چھت کے اوپر سے اڑتے ہوئے سر کے بل پیچھے جا گرے۔ گاڑی کے سامنے ڈینٹ پڑے تھے، بونٹ کا برا حال تھا، ونڈ سکرین ٹوٹ گئی تھی اور چھت ان کے جسم سے ٹکرانے کی وجہ سے نیچے کی طرف بیٹھ گئی تھی۔

تھامس کے والد، ڈاکٹر انتھونی لیڈز کو جب پولیس نے فون کر کے ایکسیڈنٹ کے متعلق بتایا تو وہ تیزی سے سینٹ تھامس ہسپتال پہنچے۔

لیکن ایسا لگتا تھا کہ تھامس غیر معمولی طور پر خوش قسمت تھے اور بس انھیں سر پر معمولی سی چوٹ آئی تھی۔ ڈاکٹر انتھونی یاد کرتے ہیں کہ ’خراشوں اور معمولی چوٹوں کے علاوہ کسی اور انجری کا بہت کم ثبوت تھا۔‘ اگلی صبح تھامس کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔

اس کے بعد اگلے دو دن تھامس متلی، خوفناک سر درد اور کمر میں درد کی شکایت کرتے رہے۔ جب پولیس افسر نے اپ ڈیٹ کے لیے فون کیا تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ تھامس کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ اس سے تھامس کی والدہ جیکولین بے چین ہو گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’وہ آفیسر سمجھتے تھے کہ (اس قسم کے حادثے کے بعد) کوئی بھی اس سے صاف بچ نہیں سکتا۔‘

یہ سن کر وہ تھامس کو اے اینڈ ای (ایمرجنسی) لے گئیں اور ان کے سکین کا مطالبہ کیا۔ اس نے ایک ’بالکل حیران کن‘ سچائی کا انکشاف ہوا کہ تھامس کے دماغ میں بلڈ کلاٹ بن چکا تھا۔

وہ موت سے صرف 24 گھنٹے دور تھے۔

کلاٹ کو ختم کرنے کے لیے اسی وقت تھامس کی سرجری ہوئی۔ اور جب وہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں واپس لائے گئے تو ان کی اپنے آپ پر زیادہ گرفت نظر نہیں آئی۔

Thomas Leeds's brain scan showing the bleed

Thomas Leeds

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے مبہم سا یاد ہے کہ میں بہت زیاد کنفیوزڈ تھا، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ میں خوفزدہ نہیں تھا۔ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ کیسے ڈرا جاتا ہے۔ میں ایک بچے کی طرح تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک ’جذباتی بلبلے‘ میں تھے۔ اس کے متعلق دماغی چوٹ کے متعلق کام کرنے والا ایک خیراتی ادارہ ’ہیڈ وے‘ کہتا ہے کہ سر کے ٹراؤما کی وجہ سے ہونے والے کیمیائی عدم توازن کے بعد یہ ایک عام بات ہے۔ یہ مریض کو حیرت انگیز طور پر مطمئن رہنے کا احساس دے سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

یادداشت کے بارے میں چھ دلچسپ و عجیب انکشافات

یادداشت کھو جانے والی خاتون کا سراغ

پانچ نسخے جو آپ کی یادداشت کو بہتر بنا سکتے ہیں

کبھی ماں نہ بن پانے کا سوگ، ’میں 18 سال کے جسم میں ایک 80 برس کی خاتون جیسی ہوں‘

جب تھامس ذرا صحت یاب ہوئے تو انھیں ان سے ملنے آنے والے لوگوں کو دیکھ کر لطف آتا۔ اگرچہ وہ انھیں واقف کار ہی معلوم ہوتے، لیکن جب وہ انھیں بتاتے کہ وہ ان کے والدین اور ان کے پانچ بہن بھائی ہیں، تو انھیں کچھ یاد نہ آتا۔

ہر ایک نے ان کی اس ابتدائی الجھن کا موردِ الزام مورفین کے اثرات کو ٹھہرایا۔

جیکولین کہتی ہیں کہ ’وپ چل سکتے تھے، بول سکتے تھے اور وہ ہمارے لیے ٹھیک تھا۔ ہم بس سب سے زیادہ اسی کی امید کر سکتے تھے، لہذا ہم نے مزید تحقیقات نہیں کیں۔ ہم سب نے فرض کیا تھامس ٹھیک تھے۔‘

لیکن جب تھامس گھر واپس آئے تو انھیں گھر یاد نہیں تھا، حالانکہ وہ وہاں بچپن سے رہ رہے تھے۔

لوگوں نے ان کے دوستوں اور دلچسپیوں کا ذکر کر کے ان کی یاد داشت واپس لانے کی کوشش کی کہ وہ حادثے سے پہلے کے مہینوں میں کیا کرتے رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں واقعی ہر ان کی بتائی ہوئی کہانیوں میں فٹ ان ہونے کی کوشش کرتا۔‘ لیکن انھیں کچھ یاد نہیں آیا۔

آہستہ آہستہ ان کے خاندان کو احساس ہوا کہ تھامس حادثے سے قبل کی اپنی تمام یادیں کھو چکے ہیں۔

Thomas Leeds after the accident and as he begins his recovery

Thomas Leeds

ابتدائی طور پر تو انھیں اس کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ ابتدائی کچھ سال تو حادثے میں ہونے والے کمر کے تین فریکچرز کے ٹھیک ہونے میں گذر گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جذباتی بلبلا‘ ان کے گرد حصار بنائے رہا۔

’میرے خیال میں زیادہ تر لوگ اپنے بچپن کے موسم گرما کو اسی طرح یاد رکھتے ہیں۔ ہر چیز حیرت انگیز تھی، اتنی بڑی اور لامحدود، اور مجھے ایک طرح سے یاد ہے کہ میں درختوں کے نیچے پارک میں بیٹھا ہوا تھا، یہ کتنا پاگل پن لگتا ہے۔‘

تھامس خوش قسمت تھے کہ اگرچہ اپنے انھیں اپنے سکول کے دن یاد نہیں تھے، انھیں بنیادی سطی کی پڑھائی، لکھائی اور ریاضی یاد تھی۔ جو چلا گیا تھا وہ ان کا ثقافتی علم اور حوالہ جات تھے، جو چیزیں ایک دوسرے سے گپ شپ اور رشتوں میں ہوتی ہیں۔

اور جب وہ نئی یادیں بنانے میں کامیاب ہوئے تو ان کی شخصیت بھی بدل گئی۔ یہ ایسی چیز ہے جو شدید دماغی چوٹ پیدا کر سکتی ہے۔ پہلے، وہ ایک ٹھنڈے مزاج والے کم گو انسان تھے، لیکن اب وہ محبت کرنے والے اور پرجوش انسان بن گئے تھے۔

تھامس ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرے بھائی میرے حادثے کی وجہ سے خوش نہیں تھے، لیکن کچھ ایسا سمجھتے ضرور تھے کہ ’تم اب زیادہ اچھے ہو۔‘ ان کی ماں جیکولین نے بھی ایسا ہی محسوس کیا۔ ’وہ بہت جذباتی ہے۔ وہ بہت کھلا ہے۔ ان میں بچے والی کچھ ایسی چیز ہے جو دوسروں میں نہیں ہے۔‘

صحت یاب ہونے کے بعد تھامس نے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔

انھوں نے یونیورسٹی میں اپنے مضمون کے بارے میں سوچا جو حادثے سے قبل وہ لینے والے تھے۔ ان کا ارادہ ڈیزائن پڑھنے کا تھا، لیکن جب انھوں نے اپنی ڈرائنگز کی طرف دیکھا تو انھیں لگا کہ انھیں ان میں اب کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

Thomas Leeds as a child, schoolboy and teenager

Leeds family

وہ کہتے ہیں کہ ’جو لڑکا میں ہوا کرتا تھا، اب کسی باپ دادا سے زیادہ اصل نہیں لگتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ وہ موجود تھے اور ہو سکتا ہے کہ آپ نے تصاویر دیکھی ہوں لیکن وہ حقیقی نہیں لگتے۔ میں پہلے چند سالوں میں تو اس سے زیادہ پریشان نہیں ہوا۔ ہم سب جوان تھے لہذا ہر چیز بس آنے والے ’کل‘ کے بارے میں تھی۔ لیکن جیسے ہی ہم 20 کی دہائی گھسے، سب کچھ گزرے ہوئے ’کل’ کے بارے میں ہو گیا۔‘

تھامس کا مستقبل رک گیا تھا۔ دریں اثناء ان کے بہن بھائی اور دوست اب 20 کی دہائی کے وسط میں تھے اور کیریئر، مکانات اور بچوں کے متعلق سوچ رہے تھے۔

’میں نے پھر بھی جو بھی کام کیے ان پر اپنے آپ کو بہت خوش قسمت محسوس کیا اور کہ میں ابھی زندہ ہوں، لیکن کسی آغاز کے بغیر مستقبل کے سخت حقائق کا سامنا کرنا واقعی غیر منصفانہ محسوس ہونے لگا۔‘

اور ان کی زندگی میں بھی ابھی کسی اور چیز کی کمی تھی۔ اور وہ تھا پیار۔

سنہ 2010 میں انٹرنیٹ ڈیٹنگ کی بھی شہرت ذرا بہتر ہونا شروع ہو چکی تھی، لہذا تھامس نے سائن اپ کیا۔ انھوں نے چند لڑکیوں سے رابطہ کیا لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ جب انھوں نے سوفی سے ملنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کرسمس قریب آ رہی تھی۔ وہ بھی لندن کی رہائشی تھیں اور ان کے بھی پانچ بہن بھائی تھے۔

سوفی کو اپنی انوکھی صورتحال کے بارے میں بتانے کے بعد وہ دونوں رات کے کھانے پر ملے اور پھر ویسٹ اینڈ میں گھومنے نکل گئے۔ دونوں ایک دوسرے کو بہت پسند آئے اور اگلے دن دوبارہ ملنے کا فیصلہ کیا۔ جدا ہوتے ہوئے تھامس نے کہا: ’مجھے افسوس ہے، لیکن کل میں آپ کو پہچان نہیں پاؤں گا۔‘

حادثے سے ایک اور پیچیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ تھامس کو پروسوپیگنوسیا ہو گیا تھا۔ یہ چہرہ نہ پہچاننے کی ایک بیماری ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ کسی کو بھی سیاق و سباق سے باہر پہچان نہیں سکتے ہیں، اپنے والدین کو بھی نہیں، اس لڑکی کو بھول ہی جائیں جس سے وہ ابھی ملے تھے۔

Thomas Leeds in a crowd of people with blurred faces

فیس بلائنڈنیس کے ساتھ، دماغ چہروں میں مختلف تبدیلیوں کو نہیں پہچانتا، جیسا کہ ابرو کی کمان، دانت کا زاویہ، وہ چیزیں جن کی وجہ سے ہمیں لوگوں کی شناخت میں مدد ملتی ہے۔

برطانیہ میں پندرہ لاکھ افراد جن کو یہ بیماری یا حالت ہے وہ اس کے ساتھ ہی پیدا ہوئے ہیں، لیکن تھامس کے حادثے وجہ سے ان کے دماغ کے پچھلے حصے میں ایک چھوٹی سی جگہ خراب ہو گئی تھی جو دیکھنے، پہچاننے اور ہم آہنگی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

انھوں نے لوگوں کو موبائل فون کے نقشوں میں محل وقوع، سیاق و سباق اور پن ڈراپ کے ذریعے پہچاننے کی حکمت عملی سیکھی، اور وہ کسی کی آواز سن کر بھی اسے تھوڑا بہت پہچان سکتے ہیں۔ لیکن سوفی کے متعلق کچھ سب کچھ مختلف تھا۔ ’ہماری ملاقات سے ایک ہفتہ قبل، انھوں نے اپنے بالوں کا رنگ سرخ، پاگل پن والا لال رنگ۔ وہ ایک روشن مینار کی طرح تھیں۔‘

کئی برسوں میں پہلی مرتبہ تھامس کسی کو ہجوم میں پہچان سکے، اور اس طرح ان کی پریم کہانی شروع ہوئی۔

انھوں نے دو سال ڈیٹ کیا اور بعد میں شاید کر لی۔ اس کے فوراً بعد ایک بیٹی پیدا ہوئی اور پھر دوسری آ گئی۔ سوفی نے کبھی بھی اپنے بال رنگنے نہیں چھوڑے اور اب بھی سوفی ہی واحد شخصیت ہیں جنھیں تھامس پہچان سکتے ہیں۔

Thomas and Sophie on their wedding day

Sarah London Photography

’وہ کمال کی لڑکی ہیں۔ وہ ہمیشہ مجھے یہ احساس دلاتی ہیں کہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ میں انھیں ملا۔ اس مجھے مستقبل کے بارے میں بہت بہتر محسوس ہوتا ہے۔‘

اس حادثے کے دس سال بعد، اگرچہ تھامس اپنے ماضی کے مقامات پر دوبارہ گئے اور خاندان اور دوستوں سے پوچھ گچھ بھی کی، لیکن ان کی کوئی یادیں واپس نہیں آ سکیں۔

اور پھر ایک حیرت انگیز پیشرفت ہوئی۔ تھامس نے اپنی 30 ویں سالگرہ کے لیے 80 کی دہائی کی ایک پلے لسٹ تیار کی تھی، وہ میوزک جس کے ساتھ وہ بظاہر بڑھے ہوئے تھے۔ اپنی پارٹی سے ایک رات قبل وہ سونے کے لیے بیڈ پر لیٹے اور کانوں میں ائیرفونز لگا لیے۔ انھوں نے وہ پلے لسٹ کو ٹریک بائی ٹریک سنا اور انھیں سارے گانے زبانی یاد تھے۔

انھوں نے سکیپ کا بٹن ایک اور مرتبہ پھر دبایا۔ کسی طرح، ٹریک ’دی ہول آف دی مون‘ نے جو برطانیہ کے چارٹ میں تیسرے نمبر پر آ چکا تھا، تھامس کا ماضی ڈھونڈ لیا۔

وہ فلیش بیکس کی سیریز کے متعلق کہتے ہیں کہ ’اس نے میری ہر چیز کو بدل دیا تھا۔‘

’وہ انتہائی مختصر تھا، کچھ بھی نہیں کہا گیا، لیکن یہ ادراک کہ وہ حقیقت تھی اور وہ میرے اپنے ذہن میں تھی اور یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے، اور یہ صرف دانے دار تصویر بھی نہیں ہے ۔۔۔ یہ ایک طرح سے میرا ایک تھوڑا سا آغاز تھا۔‘

فلیش بیک کے پیچھے کی سائنس کی وضاحت کرتے ہوئے نیورولوجسٹ ڈاکٹر کولن شیف کہتے ہیں کہ یادیں ’کیمیکلز کے پیکٹوں‘ سے مل کر بنی ہیں، جن میں مختلف جہتیں جیسا کہ خوشبو، ذائقہ اور لمس وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بس آس پاس اسے تھوڑے میموری کیمیکلز کی ضرورت ہے تاکہ ذرا بڑی تصویر کو متحرک کر سکے۔ اس کے نتیجے میں ایک طرح کی برسات ہو گئی جسے انھوں نے ایک وژن میں بدل لیا۔‘ برسوں کے مس فائر کے بعد تھامس کے دماغ میں موجود کیمیکلز کے پیکٹس آپس میں ٹکرا گئے اور یاد داشت کو ڈھونڈ نکالا۔

تو کیا وہ ہمیشہ ہی وہاں تھے؟

ڈاکٹر شیف کہتے ہیں کہ تھامس کی طویل مدتی یاد شاید اب بھی وہیں موجود ہے لیکن وہ اس ’بالکل خوفناک فائلنگ سسٹم‘ میں ان کی پہنچ سے دور ہے۔

’آپ کے پاس کسی کتاب کا مینو سکرپٹ ہو سکتا ہے، اور جب آپ اسے پڑھتے ہیں تو یہ حیرت انگیز لگتا ہے۔ لیکن اگر آپ ان صفحات کو کو کہیں گرا دیں اور کوئی انھیں اٹھا لے تو پھر ان کے سامنے بہت سے مواد سے بھرے ایسے صفحات پڑے ہوتے ہیں جن کو کچھ سمجھ نہیں آتی۔ کچھ صفحات قدرے خراب اور ٹیڑھے میڑھے ہو گئے ہوتے ہیں۔

یادوں کی دوسری بوچھاڑ برسوں بعد اس وقت ہوئی جب تھامس یوٹیوب پر ’دی سنو مین‘ دیکھ رہے تھے تاکہ اپنے بچپن کے حوالے سے کچھ جاننے کی کوشش کریں۔ انوکھی تصاویر اور ساؤنڈ ٹریک نے ایک اور میموری کو متحرک کر دیا اور وہ تھا سکول کی کینٹین میں لنچ ٹائم۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ میرے لیے یہ محسوس کرنے کے لیے کافی تھا کہ میں نے تعلیم حاصل کی تھی۔‘

ڈاکٹر شیف کہتے ہیں کہ ’ریکوری غیر معینہ مدت تک جاری رہ سکتی ہے۔‘ لہذا تھامس کے پاس مزید یادوں کا پتہ لگانے کی گنجائش موجود ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ ایسا ہی ہو۔

گھر میں دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ رہنے والے تھامس کہتے ہیں کہ ’کچھ دن دوسروں سے بہتر ہوتے ہیں،‘ لیکن اپنے بچیوں کے پیچھے پارک میں بھاگنے جیسی چھوٹی چھوٹی چیزیں مشکل ہوسکتی ہیں کیونکہ چہرے کے اندھے پن کی وجہ سے ان کے لیے اپنی بچیوں کو پہچاننے میں مشکل پیدا ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھار ’خالی سال‘ انھیں پریشان کر دیتے ہیں، لیکن ان کی بیٹیاں بھی انھیں پارکس میں کھیلتی ہیں جن میں کبھی وہ کھیلا کرتے تھے، اور وہ ان کے ساتھ نئی یادیں بنا رہے ہیں۔

ایک اور ورثہ جو انھیں حادثے میں ملا وہ مرگی ہے، اور اپنے دماغ کے ’برے دنوں‘ میں پر وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔

’میرے دماغ کے ٹشو پر نشان دماغ کے سگنلز میں مداخلت کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجھے دورے پڑتے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اس میری یاد داشت زیادہ سے زیادہ متاثر ہوتی جا رہی ہے۔

’اس چیز کی سمجھ کہ میں اپنا شعور کھو سکتا ہوں، انتہائی خوفناک ہو سکتا ہے۔‘

ٹانک۔کلونک دورے کے بعد، جس میں وہ ہوش کھو دیتے ہیں، تھامس عارضی طور پر 10 سال کی یادداشت کھو دیتے ہیں۔ آخری بار جب ایسا ہوا تھا تو انھیں لگا کہ وہ 2008 کا سال ہے۔

’میں نہیں جانتا تھا کہ میری بیوی کون ہے، نہیں جانتا تھا کہ بچے کون ہیں۔ سوفی نے مجھے ایمیزون ایکو سمارٹ سپیکر دکھایا اور اسے میرا دماغ میں ڈالا۔‘ وہ اب اسے مزاح کے ساتھ دیکھتے ہیں اور ان کا خاندان ان سب مضحکہ خیز اقساط کو لکھ رہا ہے تاکہ وہ بلکی اینڈ وائٹ میں تھامس کی یاد کے لیے رہیں۔ ہمیشہ۔

وہ کریئٹیو رائٹنگ کے متعلق بھی بہت پرجوش ہیں، یہ ایک دلچسپی ہے جسے وہ بظاہر اپنے بچپن سے شیئر کرتے ہیں، اور انھوں نے 8 سے 10 سالہ بچوں کے لیے ایک فینٹسی یا تصوراتی ایڈوینچر بھی لکھا ہے۔

اس کے مرکزی کردار، جیبین، کو مرگی کے دورے پڑتے ہیں اور وہ جنوں اور پریوں کی دنیا میں بغیر کسی یاد کے جاگتے ہیں۔

Thomas Leeds writing his adventure story

Thomas Leeds

انھوں نے اپنی یاد داشت کی بجائے بچوں کی کتاب لکھنے کو ترجیح دی کیونکہ اس طرح سے وہ اپنی کہانی کو دوبارہ نہیں جی نہیں رہے ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ درد اور مشکل کو ’کسی نئی اور دلچسپ چیز‘ میں تبدیل کرنا اپنے آپ میں ایک علاج ہے۔

یہ اس سیریز کی پہلی کتاب ہے اور اسے دی گڈ لٹریری ایجنسی نے سائن کیا ہے۔ تھامس کہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے اگلے باب کے بارے میں پرجوش ہیں۔ اور اگرچہ ان کا لکھنے کا کام آگے بڑھ رہا ہے، وہ اب بھی اپنی تاریخ کے ٹکڑوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’اب اسے 18 سال ہو چکے ہیں اور میں یہ شخص ہوں۔ اپنے متعلق یہ تھوڑا بہت جاننا کہ میں پہلے کون تھا ایک اچھی بات ہے، لیکن میں نے ایسی زندگی گذاری کی ہے۔‘ اور وہ اب بھی کرسمس کے موقع پر اپنی ماں کے فلیش بیک کو ایک خزانہ سمجھتے ہیں۔

’بس اس بات کو جاننا کہ میرے پاس پہلے کی کچھ حقیقت ہے، اپنی کہانی کے آغاز کی، مجھے واقعی مستقبل کا سامنا کرنے میں مدد دیتا ہے۔‘

Ouch graphic


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp