جانی خیل میں آباد قبائل احتجاج اور اسلام آباد کی طرف مارچ کیوں کر رہے ہیں؟


جانی خیل میں آباد قبائل علاقے سے عسکریت پسندوں کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع سے منسلک نیم قبائلی علاقے جانی خیل میں گزشتہ چند ماہ سے کشیدگی جاری ہے۔

مقامی قبائل کے جرگے کے رکن اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے ملک اوویز خان نے گزشتہ 25 روز سے جاری احتجاجی دھرنے سے متعلق کہا ہے کہ حکومت تحریری معاہدے پر عمل درآمد کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملک اوویز خان کا کہنا تھا کہ حکومت نے علاقے سے تمام مشتبہ نقاب پوش عسکریت پسندوں کو نکالنے کا وعدہ کیا تھا۔

افغانستان میں نومبر 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد جب غیر ملکی عسکریت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مبینہ طور پر منتقل ہونا شروع ہوئے تو شمالی اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ ساتھ بنوں سے ملحقہ نیم قبائلی علاقوں جانی خیل اور بکاخیل میں بھی ان عسکریت پسندوں نے مقامی قبائل کے ساتھ تعلقات استوار کر کے ٹھکانے بنائے۔

جون 2014 کے وسط میں جب شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستان کی فوج نے آپریشن ’ضربِ عضب‘ شروع کیا۔ تو لاکھوں افراد گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ایسے میں بکاخیل میں ’باران کیمپ‘ کے نام سے نقل مکانی کرنے والوں کے لیے ایک خیمہ بستی قائم کی گئی۔

خیمہ بستی کے قیام سے اس علاقے میں سے صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی عسکریت پسند منتقل ہوئے. جب کہ جانی خیل کے مکینوں کے مطابق عسکریت پسند مقامی ہم خیال لوگوں کے تعاون سے علاقے میں موجود رہے۔

جانی خیل میں کون کونسے قبائل آباد ہیں؟

خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر بنوں سے 26 کلومیٹر کے فاصلے پر میران شاہ روڈ پر نیم قبائلی علاقے جانی خیل کی آبادی لگ بھگ 50 ہزار گھرانے 18 دیہات میں آباد ہیں۔

جانی خیل کے رہائشی بیشتر افراد کا تعلق اتمانزئی وزیر قبیلے سے ہے جو ملحقہ بکاخیل، بنوں اور شمالی وزیرستان میں بھی آباد ہیں۔

جانی خیل کے شمال میں بکاخیل، مغرب میں شمالی وزیرستان، جنوب میں لکی مروت اور ٹانک کے بیٹنی قبائل اور مشرق میں لکی مروت کے مروت قبائل آباد ہیں۔

جانی خیل میں زرعی زمین بہت کم ہے۔ لہذا اس علاقے کے زیادہ تر لوگوں کی زندگی کا دار و مدار محنت مزدوری، ٹرانسپورٹ، بیرونِ ملک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ملازمتوں پر ہے۔ جب کہ تعلیمی یافتہ اور نیم تعلیم یافتہ افراد مختلف سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سے وابستہ ہیں۔

گزشتہ دو دہائیوں سے امن و امان کی ابتر صورتِ حال دہشت گردی اور انتہا پسندی کے واقعات کے باعث علاقے میں موجود ڈگری کالج کا وجود برائے نام رہ گیا ہے۔ جب کہ دو اسکول سیکیورٹی فورسز کے بیرکس میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

علاقے کے 30 سے 35 فی صد افراد نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے جب کہ انٹر میڈیٹ، گریجویشن اور ماسٹر ڈگری ہولڈرز کی تعداد بھی بہت کم ہے۔

غربت، پسماندگی اور وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی جانی خیل میں ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی تعداد تقریباََ 20 جب کہ انتظامی افسران کی تعداد صرف دو ہے۔ جب کہ اسی علاقے میں سرکاری اسکولوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کی تعداد 90 کے قریب ہے۔

جانی خیل میں آباد قبائل کے مطالبات

مبصرین کے مطابق شرح خواندگی کم ہونے کے باعث اس علاقے سے تعلق رکھنے والے کئی افراد شدت پسند گروہوں سے متاثر رہے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے منسلک افراد بھی اس علاقے میں موجود رہے ہیں۔

مقامی میڈیا میں یہ رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں کہ عسکریت پسند تنظیموں سے منسلک جنگجوؤں کو ایک زمانے میں اچھے طالبان (Good Taliban) اور برے طالبان (Bad Taliban) میں تقسیم کیا جاتا رہا ہے۔ حکومتی اداروں بالخصوص سیکیورٹی فورسز اور تحقیقاتی اداروں کے وفادار جنگجوؤں کو ’اچھے طالبان‘ کہا جاتا ہے۔

جانی خیل میں آباد قبائل کے مطابق دونوں قسم کے طالبان مبینہ طور پر تشدد خاص طور پر گھات لگا کر قتل کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔ ان جنگجوؤں کو علاقے سے نکالنے کے لیے جانی خیل قبائل کئی برس سے مطالبات کرتے آ رہے ہیں۔

جانی خیل میں آباد قبائل کے افراد کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے یا سہولت کاری کے الزام میں جانی خیل کے 67 افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔ بیشتر افراد کو ایک دہائی قبل سیکیورٹی فورسز نے حراست میں لیا تھا البتہ کسی بھی فرد کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

چار بچوں کی لاشیں برآمد

رواں برس مارچ میں جانی خیل کے ایک گاؤں کے چار کم عمر لڑکے لاپتا ہوئے تھے۔ بعد ازاں گاؤں کے لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ان کو معلوم ہوا ہے کہ بچوں کو مبینہ عسکریت پسندوں نے اغوا کیا ہے۔

ان چاروں لڑکوں میں ایک یتیم بچہ بھی شامل تھا جس کے والد کو گھات لگا کر قتل کیا گیا تھا۔ جب کہ لڑکے کا ایک بھائی مبینہ بطور پر سیکیورٹی فورسز کی حراست میں تھا جب کہ دوسرا بھائی سیکیورٹی فورسز کی حراست میں مبینہ طور پر ہلاک ہوا تھا۔

قبائلی رہنماؤں کے بقول ایک پالتو کتے کی نشاندہی پر چاروں لڑکوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں 21 مارچ 2021 کو ایک غیر آباد علاقے میں قبرستان سے برآمد ہوئی تھیں۔

چاروں لاشوں کی برآمدگی کے بعد جانی خیل میں آباد قبائل نے احتجاجی دھرنا دیا تھا جس کے نتیجے میں خیبر پختونخوا حکومت نے رواں برس 28 مارچ کو ایک چھ نکاتی معاہدے پر دستخط کر کے 29 مارچ کو قبائل کے تمام مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس معاہدے کے بعد اپریل اور مئی کے وسط تک جانی خیل میں امن و امان کی صورتِ حال برقرار رہی۔ البتہ مئی میں عید الفطر کے دوسرے روز بلوچستان کے فرنٹیر کور سے منسلک چھٹیوں پر آئے ہوئے مقامی شخص کو گھات لگا کر قتل کر دیا گیا تھا۔

اس واقعے کے ردِعمل میں مقامی قبائل نے لاش کو سڑک پر رکھ کر احتجاجی دھرنا دیا۔ البتہ مقامی انتظامیہ اور پولیس حکام کی یقین دہانی پر یہ دھرنا ایک روز جاری رہنے کے بعد ختم کر دیا گیا تھا۔

صوبائی حکومے سے 28 مارچ کو ہونے والے معاہدے پر مقامی قبائل کے قومی جرگے کے سربراہ کی حیثیت سے دستخط کرنے والے قبائلی رہنما ملک نصیب خان کو 30 مئی کو نقاب پوش مسلح افراد نے گھات لگا کر گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کر دیا تھا۔

اس واقعے کے ردِ عمل میں جانی خیل قبائل نے ایک بار پھر احتجاج شروع کیا ہے جو تا حال جاری ہے۔ بدھ کو احتجاج کو اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے مارچ بھی شروع کیا گیا تھا البتہ بنوں میں اس مارچ کو پولیس نے روک دیا ہے۔

بنوں کے نواحی علاقے باران میں جانی خیل قبائل تین ہفتے قبل قتل ہونے والے رہنما ملک نصیب خان کی لاش کے ہمراہ دھرنا جمعرات کو دوسرے دن بھی جاری رہا۔

مظاہرین کی اسلام آباد پیش قدمی روکنے کے لیے سڑکوں پر پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات ہے جب کہ جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔

صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ملک شاہ محمد کی قیادت میں ایک وفد مظاہرین سے مذاکرات کے لیے باران پہنچ گیا ہے۔ اس حوالے سے ملک شاہ محمد نے وائس آف امریکہ سے ٹیلیفون پر گفتگو میں بتایا کہ احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے قبل کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

قبائل کے قومی جرگے میں شامل ملک حبیب خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مذاکرات شروع ہوتے ہی انہوں نے ایک روز قبل گرفتار کیے جانے والے افراد کی رہائی اور تباہ شدہ املاک کے تلافی کا مطالبہ کیا۔

جانی خیل قبائل کے قومی جرگے میں شامل ارکان کے مطابق 30 مئی کو گھات لگا قتل کیے جانے والے رہنما ملک نصیب خان سمیت اب تک گھات لگا 93 افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments