میں آدمی ہوں میرا اعتبار مت کرنا


ہر طرف گھٹن ہے۔ ایسی حبس کہ سانس لینا دشوار ہو گیا ہے۔ پرندے تک چپ سادھے ہوئے ہیں۔ کس پر اعتبار کریں، کس سے منصفی چاہیں، کن کو اپنا راہبر مانیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی دوغلے پن، منافقت، دروغ گوئی کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ سچ ہمارے گلے میں پھانس بن کر اٹک جاتا ہے۔ حق گو آدمی اس عہد کا بڑا فسادی ہے۔ لکھنو کی زوال پذیر کھوکھلی تہذیب کا مطالعہ کرتے ہوئے لگتا ہے آج بھی ہم اسی تہذیب میں سانس لے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کی جادو نگری نے دلوں کے راز فاش کر دیے ہیں۔ ہر کردار مشکوک لگتا ہے۔ استاد کی باتیں، شیخ کی پارسائی، جج کی منصفی، ڈاکٹر کی مسیحائی، بیوروکریٹ کا دھیمہ لہجہ، سیاستدان کی تقریریں مشکوک ہیں۔ رشتوں کا تقدس پامال ہو چکا ہے۔ ہر شخص کو دولت اور عہدے سے تولا جا رہا ہے۔ صاحب نہج البلاغہ نے اسی زمانے کے بارے میں تو کہا تھا:

”آخری زمانے کے لوگ بھیڑیے ہوں گے اور حکمران درندے۔ درمیانی طبقہ کھا پی کر مست رہنے والا اور فقیر نادار، بالکل مردہ۔ سچائی دب جائے گی۔ جھوٹ ابھر آئے گا۔ محبت صرف زبانوں تک محدود رہے گی اور لوگ دلوں میں ایک دوسرے سے کشیدہ رہیں گے۔ کسب کا معیار زنا ہو گا۔ عفت اور پاک دامنی نرالی سمجھی جائے گی اور اسلام کا لبادہ پوستین کی طرح الٹا اوڑھا جائے گا“ ۔

یہ آخری زمانہ ہی تو ہے کہ باپ بیٹے کی گواہی نہیں دے سکتا۔ بیٹا باپ کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ استاد اور شاگرد الاماں، کچھ لکھتے ہوئے لگتا ہے آسمان ٹوٹ گرے گا۔ ستار العیوب ہمارے عیب چھپاتے چھپاتے تھک گیا ہے اور کراماً کاتبین کو حکم دے دیا ہے کہ اب اعلیٰ سنگھاسن پر متمکن، بغل میں چھری، منہ میں رام رام کہتے ہوئے نیکو کار کی پارسائی کو آہستہ آہستہ طشت از بام کرو۔ ایسے ایسے انکشافات کہ چور، مجرم:دیوتا نظر آنے لگیں۔

اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ جتنا بڑا کردار ہے اتنا زیادہ مشکوک۔ سیاست دان، جج، جنرل، جرنلسٹ، لبرل، پروفیسر، مولوی، وکیل، بیوروکریٹ، ہر کردار کی الگ داستان اور علیحدہ طریقہ واردات ہے۔ سب اپنے اپنے کام میں طاق، بے باک و بے خوف۔ ڈر کاہے کا۔ اندر سے سب ملے ہوئے ہیں۔ سب کی کرتوتوں میں گہرا اشتراک ہے۔ رہی سہی کسر مفتیوں نے پوری کردی ہے۔ مفتی قوی کے لچھن ابھی تھمے نہیں تھے کہ ایک اور لرزہ خیز داستان نے نئے سوالات کھڑے کر دیے۔

اعتراض یہ ہے کہ مفتی کی بابت طوفان کیوں برپا ہے۔ گناہ سب کا برابر ہے۔ اعتراض اٹھانے والے ذرا مفتی کے مدارج اور معانی تو ملاحظہ فرمائیں۔ ایک ایسا شخص جو دینی مسائل و معاملات میں شریعت کی روشنی میں رائے دے ہو سکتا ہو، اس کا گناہ سب کے برابر کیسے ہو سکتا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے بجا تو فرمایا ہے کہ انبیا کی وراثت کا دعوی دار اور عام روسیاہ کا گناہ کیسے برابر ہو سکتا ہے۔ جائیں تو کدھر جائیں، کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں۔ انبیا کے وارث بھی قابل اعتبار نہیں رہے۔

میری زباں کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں میرا اعتبار مت کرنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments