’الٹرا پروسسڈ‘ کھانوں کو ہم کیوں اتنا پسند کرتے ہیں اور وہ ہمارے جسموں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟
انسان نے آگ اور مصالحے دریافت کرنے کے بعد پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہم مستقل کھانے پینے کی اشیا کو توڑنے اور پھر جوڑنے کے نئے طریقے ایجاد کرتے رہتے ہیں۔
ہم نئے ذائقوں اور تجربات کے لیے خوراک کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں وہ ناقابل یقین حد تک ایک تخلیقی عمل ہے۔
لیکن جو کچھ وہ کھانے جو ہم کھاتے ہیں، ہمارے ساتھ کرتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے، خاص طور پر جب بات الٹرا پروسسڈ کھانوں کی ہو۔
’الٹرا پروسیسڈ‘ کھانے کیا ہیں؟
پکلنگ، کیننگ، پیسچورائزنگ، فرمنٹنگ، ری کونسٹیٹیوٹنگ ۔ یہ سب فوڈ پروسیسنگ کی شکلیں ہیں، اور حتمی نتائج اکثر کافی مزیدار ہوتے ہیں۔
لیکن جو چیز ’الٹرا پروسیسڈ‘ فوڈز (یوپی ایف) کو منفرد کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انھیں پہچان سے کہیں زیادہ اور کمیائی طور پر تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اس میں ایسے مختلف طریقے اور اجزا استعمال کیے جاتے ہیں جو ہم گھر پر کھانا پکاتے وقت عام طور پر استعمال نہیں کرتے۔
ڈاکٹر کرس وان ٹولکین نے حال ہی میں بی بی سی کے لیے ایک تجربہ کیا تھا جس میں انھوں نے ایک ماہ تک ’الٹرا پروسسڈ کھانا کھایا۔ سپوئلر الرٹ: یہ کوئی اچھا تجربہ ثابت نہیں ہوا۔
یہ تجربہ دستاویزی فلم ’ہم اپنے بچوں کو کیا کھلا رہے ہیں؟‘ کا حصہ تھا۔ اس تجربے کے دوران ڈاکٹر ٹولکین نے ایک ایسی غذا کھائی جس میں انھیں 80 فیصد کیلوریز الٹر پروسسڈ کھانوں سے حاصل ہوئیں۔ یہ وہ تناسب ہے جو تیزی سے زیادہ آمدنی والے ممالک جیسے برطانیہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، اور امریکہ میں عام ہو رہا ہے۔
یو پی ایف جسم پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں؟
مہینے کے اختتام پر ڈاکٹر ٹولکین نے کم نیند، سینے اور معدے میں جلن، سستی، قبض، پائلز اور وزن میں سات کلو اضافے کی اطلاع دی۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے دس سال بوڑھا محسوس کیا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ انھیں اس بات کا احساس کہ یہ سب کچھ کھانوں کی وجہ سے ہے، اور یہ احساس اس وقت تک نہیں ہوا جب تک ’میں نے وہ کھانا کھانا چھوڑ نہیں دیا۔‘ ڈاکٹر ٹولکین کے تجربے کے ساتھ ساتھ کی گئی ایک اور تحقیق میں اس کی کچھ سائنسی وجوہات بتائی گئی ہیں۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے مقابلے میں جو کم یوپی ایف کی غذا کھاتے ہیں، الٹرا پروسیسڈ غذا کھانے والے افراد نے روزانہ 500 سے زیادہ کیلوریز کھائیں۔
یہ بھی دیکھا گیا کہ بھوک کے لیے ذمہ دار ہارمونز میں اضافہ ہوا اور اس ہارمون میں کمی ہوئی جس سے ہمیں پیٹ بھرنے یا سیری کا احساس ہوتا ہے، جس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ بہت سے لوگوں نے کیوں زیادہ کھانا کھایا اور وزن بڑھا لیا۔
لیکن وزن میں اضافہ زیادہ یو پی ایف والی غذا سے وابستہ مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔ کئی دیگر مطالعات میں دیکھا گیا ہے کہ یو پی ایف غذا کے طویل عرصے تک کھانے اور دل کی بیماری، موٹاپا، ذیابیطس کی دونوں اقسام، کچھ طرح کے کینسروں اور حتیٰ کہ ڈپریشن میں بھی ایک طرح کا تعلق ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ٹیکنالوجی کی لت کیسے ہمارے دماغ کو آلودہ کر رہی ہے؟
بحیرۂ روم کے خطے کی خوراک صحت کے لیے اچھی ہے؟
دل کی صحت کے لیے مچھلی کا تیل کتنا فائدہ مند؟
مطالعہ میں یہ بھی دیکھا گیا کہ یو پی ایف کا ہمارے کھانے پر بھی اثر پڑا ہے۔ یو پی ایف سے بھرپور غذا کھانے والے افراد نے ان افراد کی نسبت بہت تیزی سے کھانا کھایا جن کی غذا میں بہت کم پروسسڈ فوڈ شامل تھا۔ ماضی میں کی گئی ایک اور تحقیق میں آہستہ کھانے والوں کو زیادہ بھرا ہوا اور پرسکون دیکھا گیا۔ لیکن ڈاکٹر ٹولکین یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ الٹرا پروسیسڈ کھانا ’وہ آسانی سے چبا اور نگل رہے تھے۔‘
فوڈ اور نیوٹریشن کی سائنسدان ڈاکٹر ایما بیکٹ یہ سمجھ سکتی ہیں۔ ’الٹرا پروسسڈ کھانے ذائقہ دار ہوتے ہیں۔‘ بطور ماہرِ غذائیات ان کے پاس بہت سی آسان وضاحت ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ چربی اور کاربوہائیڈریٹ یا نشائستہ دار غذا سے ہماری محبت ’ارتقاء کا خمار‘ ہے۔ ’جب ’نیچرل‘ سیلیکشن نے ہماری ذائقہ کی حس کا انتخاب کیا تو اس وقت توانائی اور نمک کے ذرائع بہت کم تھے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کے لیے ’میٹھا اور عمامی (نمک کی طرح کا گوشتہ جیسا ذائقہ) بالواسطہ توانائی کے ذرائع، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کی طرف بالترتیب اشارہ تھا۔ نمک سے بھوک لگنے کا امکان ہوتا ہو گا کیونکہ یہ تھوڑی مقدار میں ضروری تو ہے لیکن تاریخی اعتبار سے آسانی سے دستیاب نہیں تھا۔‘
لیکن ایک عنصر جو شاید ارتقاء سے کم اہم تو نہیں، وہ پیداواری عمل ہے جو ان الٹرا پروسسڈ کھانوں کے پیچھے ہے۔
ڈاکٹر بیکٹ بتاتی ہیں کہ ’یہ مصنوعات اکثر ہمارے ’بلِس پوائنٹس‘ (لطف اٹھانے والی حس) کے لیے تیار کی گئیں ہیں۔ نمک، چربی اور/یا چینی کی کامل سطح اور سیری کے لیے مخصوص حص کے پوائنٹ کے ذرا قریب وہ نقطہ ہے جہاں آپ کے حواس مغلوب ہو جاتے ہیں، اور آپ مزید کچھ اور نہیں چاہتے۔‘
دوسرے لفظوں میں الٹر پروسسڈ کھانے ہمارے دماغوں سے الجھ رہے ہیں۔
وہ دماغ کو کیا کرتے ہیں؟
ڈاکٹر ٹولکین اعتراف کرتے ہیں کہ ’الٹرا پروسیسڈ غذا کھانا ایک ایسی چیز بن گیا جس کے متعلق میرا دماغ صرف مجھے بتاتا ہے، چاہے مجھے اس کی ضرورت نہ بھی ہو۔
درحقیقت ان کی دماغی سرگرمی کے سکینز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انعام کے لیے ذمہ دار دماغ کے حصے ان حصوں سے مل گئے ہیں جو بار بار کام کرنے والے خود کار رویے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان کے دماغ کو الٹرا پروسسڈ غذا کی لت میں پڑ گئی تھی۔
ڈاکٹر ٹولکین یہ بھی نے اعتراف کرتے ہیں کہ ’ایک واقعی مزیدار کھانے کا ایک ضمنی اثر یہ ہوتا ہے کہ اسے کھانا بند کرنا واقعی مشکل ہو جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر بیکٹ بھی یہ کہتی ہیں کہ یو پی ایف ایک مکینیزم پیدا کر دیتے ہیں جسے کو ’امید پرستی‘ کہا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جنک فوڈ کے لیے مثبت جذبات ہمیں فوری طور پر متاثر کرتے ہیں۔ لیکن منفی اثرات میں اضافہ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ہمارے لیے یہ یقین کرنا آسان ہے کہ ہمارے پاس بعد میں (اپنی کھانے کی عادات) کو تبدیل کرنے کا وقت ہو گا، یا اس کا نتیجہ بہرحال ناگزیر تھا۔‘
آسان زبان میں: اب آپ اسے پسند کریں گے، لیکن بعد میں آپ کو پچھتاوا ہو گا۔
ڈاکٹر بیکٹ کہتی ہیں کہ کہ گویا جیسے انھیں ہمیں اس کی لت لگانے کے لیے ابھی اور مدد کی ضرورت ہو، ان کھانوں کی جارحانہ مارکیٹنگ انھیں ہمارے ذہن میں اور بھی گہری طرح چھاپ دیتی ہے۔
’ہمارے کھانے کے بہت سے انتخابات لاشعوری اور عادتاً ہوتے ہیں۔ ہم ہمیشہ جان بوجھ کر صحت کے بارے میں نہیں سوچتے۔ جتنا ہم اسے سٹوروں میں، میڈیا میں اور اشتہارات میں دیکھتے ہیں، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ ہم اسے خریدیں گے۔‘
الٹرا پروسسڈ کھانے کیوں کھائیں؟
سو اگر یوپی ایف صحت کے لیے اتنا ہی خطرہ ہیں تو آپ کو حیرت ہونے لگے گی کہ وہ ہیں ہی کیوں۔
ڈاکٹر بیکٹ کہتی ہیں کہ ’آسٹریلین گائیڈ ٹو ہیلتھی ایٹنگ‘ میں ہم ان کھانے کو ’صوابدیدی کھانیں‘ کہتے ہیں، کیونکہ یہ ضرورت نہیں، انتخاب ہیں۔‘
لیکن وہ کہتی ہیں کہ جن کے پاس انتخاب کی سہولت ہے انھیں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ’ہر ایک صحت کے لیے کھانے کے انتخاب کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ الٹرا پروسیسڈ کھانے طویل عرصے تک چلتے ہیں، آسانی سے سفر کرتے ہیں، اور ان کی تیاری میں بہت کم وقت لگتا ہے۔ جب ہمارے پاس وقت یا کیش کم ہو تو یہ توازن کے لیے اچھا آپشن ہو سکتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ڈرانے والی اصل قوتیں وہ ہیں جو لوگوں کو صحت مند کھانے کے بجائے الٹرا پروسیسڈ کھانوں کے انتخاب کی طرف راغب کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مثال کے طور پر دائمی تناؤ، میٹھا، چربی اور نمکین کھانوں کے لیے ہماری بھوک بڑھا سکتا ہے۔ اور تناؤ اس وقت اور طاقت کو متاثر کر سکتا ہے جو ہم صحت مند خوراک کو دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔‘
’اس کے علاوہ سب الٹرا پروسیسڈ کھانے لازمی طور پر جنک نہیں ہوتے۔‘
ڈاکٹر بیکٹ کہتی ہیں کہ ’پراسسڈ کھانوں میں کچھ اہم اور صحت مند کھانے بھی شامل ہیں، جیسے ڈبہ بند سبزیاں، پاستا، چاول، روٹی اور فائبر سے بھرپور ناشتے کے سیریئلز۔‘
لیکن سب سے بڑھ کر، یہ مت نہ بھولیے کہ کھانا اپنے مجموعی اجزاء سے کہیں زیادہ چیز ہے۔
ڈاکٹر بیکٹ کہتی ہیں کہ ’کھانا ضرورت سے زیادہ بڑی چیز ہے، یہ ہماری خوشی، ثقافت، معاشرہ، سماجی میل جول اور بہت زیادہ چیزوں کا ایک حصہ ہے۔‘
’ہمیں صرف لوگوں کی مدد کرنی ہے کہ وہ خوشی اور صحت میں توازن پیدا کریں۔‘
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).