تاریخ کا بوجھ


وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حالیہ دنوں کچھ پریشان کن بیانات دیے ہیں۔ ان کے نتیجے میں ملک میں اور بیرون ملک اشتعال پھیلا۔ لوگوں نے غم و غصے کے علاوہ تشویش اور مایوسی کااظہار کیا۔ لیکن دونوں راہ نما اپنے بیانات پر قائم ہیں۔

عمران خان سوچتے ہیں کہ پاکستانی عورتیں پردہ نہ کرتے یا مناسب لباس نہ پہنتے ہوئے مردوں کے جذبات بھڑکا تی ہیں۔چنانچہ یہ عمل ریپ کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ بات کرتے ہوئے اُنہیں یہ خیال نہیں آیا بچے، لڑکوں اور لڑکیوں کے ریپ ہونے میں اُن کے لباس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ عورتوں کی آبروریز ی کرنے کا تعلق اُنہیں بے پردہ دیکھ کر جنسی جذبات کے بھڑک اُٹھنے سے نہیں۔یہ طاقت، غلبے اور استحصال کا سلفی اظہار ہے جو چاہے ایک پدرسری معاشرے (male-dominated society)کے ”عزت“ اور ”انتقام“ کے تصورات سے شہ پاتا ہو یا مخالف کو فتح کرنے کے جنون کا حیوانی اظہار ہو۔ قدیم زمانے میں فاتح افواج دشمن کی عورتوں کی آبرو ریزی کرتی تھیں۔ یہ دھشت زدہ کرنے کے لیے جنگ کا ایک طاقتور ہتھیار تھا۔ قیدی عورتوں کی مال غنیمت کی طور پر نمائش کی جاتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ عمران کا بیان اشتعال انگیز قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ یہ آبروریزی کا شکار ہونے والی مظلوم خواتین پر ریپ کی دعوت دینے کا الزام لگاتا ہے۔

عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بھارت کے ساتھ کشمیر کا تنازع کسی طور ”حل“ ہوجائے تو پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ ایک بے دلیل، بلاجواز دیا گیا بیان ہے۔ چونکہ کشمیر کا تنازع کبھی (پاکستان کے حق میں) حل نہیں ہونے جارہا، یہ کشمکش اپنی جگہ پر موجود رہے گی، لہذا ایٹمی ہتھیار بھی کہیں نہیں جارہے۔ بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوگا۔ لیکن اگر کبھی کسی سمجھوتے کے تحت مسلہ ئ کشمیر کا کوئی ”حل“ نکل آئے تو بھی ریاستی طاقت کا اظہار کرنے والی علاقائی سیاست، بالادستی کاخواب، قومی وقار اور مذہبی اور تہذیبی شناخت پر مبنی ٹکراؤ کہیں نہیں جارہا۔درحقیقت عمران خان کا یہ تصور اتنا ہی احمقانہ ہے جتنا 2008-09 ء میں صدر آصف زرداری کا جب اُنہوں نے بھارت کی ایٹمی حملے میں پہل نہ کرنے کی پیش کش قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے مسٹر زرداری پاکستان کی بطور کمزور ریاست، ڈیٹرنس پالیسی کے اصول سے شاید بے خبر تھے۔

عمران خان کو یقین ہے کہ اسامہ بن لادن ایک ”شہید“ تھا حالانکہ عالمی تنظیم، اقوام متحدہ، جس کا پاکستان بھی ایک رکن ہے، نے اُسے خطرناک عالمی دھشت گرد قرار دیا تھا۔ درحقیقت مئی 2011 ء میں امریکی میرین کمانڈوز نے ایبٹ آباد کے ایک مکان میں آپریشن کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو اٹھا لیا تو صدر پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف نے صدر اوباما کو اس عظیم کامیابی پر ”مبارک باد“ دی تھی۔

آج جب پاکستان کو افغانستان میں القاعدہ اور اس کے اتحادی، تحریک طالبان پاکستان کی طر ف سے شدید خطرہ لاحق ہے، وزیر اعظم پاکستان کی زبان سے القاعدہ کے لیڈر کوبطور شہید، ایک ہیروقرار دینا انتہائی صدمے والی بات ہے۔ اپنے لیڈر کی طرح، شاہ محمود قریشی بھی عالمی سطح پر پاکستان کے لیے شرمندگی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جب پوچھا گیا کہ کیا اسامہ بن لادن دھشت گرد تھا یا شہید تو موصوف نے سنجیدگی سے کہا، ”میں اس کا جواب نہیں دوں گا۔“یہ بات اس وقت کہی گئی جب عالمی میڈیا اُن کے سی این این پر یہود مخالف بیان کو اجاگر کررہا تھا کہ پاکستانی وزیر خارجہ یہودیوں اور صیہونی انتہا پسندوں میں فرق کرنے سے قاصر ہیں۔

جس دوران کابل کو خدشہ ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے عزائم کے پیچھے پاکستان کی مبینہ حمایت ہوسکتی ہے، اور کابل کے ان خدشات کو رفع کرنے اور شراکت اقتدار کا کوئی فارمولہ طے کرنے کے لیے پاکستان کے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ خطے میں بھاگ دوڑ کررہے ہیں، مسٹر قریشی افغان انٹیلی جنس چیف کے ساتھ الجھ بیٹھے۔ یہ صورت حال محمد بن سلمان کی سعودی حکومت پر شاہ محمود قریشی کی کڑی تنقید کی یاد تازہ کررہی ہے۔ مسٹر قریشی کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اوآئی سی میں پاکستان کے کشمیر موقف کی حمایت نہیں کر رہا۔ اس کے بعد جنرل باجوہ کی سرتوڑ سفارتی کوششوں کے بعد کہیں جا کر ہونے والے نقصان کا ازالہ ہوا تھاتاکہ سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی امداد پاکستانی معیشت کی سانسیں بحال رکھے۔

تحریک انصاف کے راہ نماؤں کی الجھن کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ ایک طرف حکومت ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں آنے کے لیے بے قرار ہے کیوں کہ اسے اپنی معاشی بحالی کے لیے عالمی امداد کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ یہ کہ یہ عالمی مالیاتی اداروں، جیسا کہ آئی ایم ایف، عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک وغیرہ، اور امریکا، یورپی یونین اور سعودی عرب جیسے ممالک کو خوش کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ دوسری طرف یا تو اسٹبلشمنٹ کے انڈیا اور افغانستان کی بابت قومی سلامتی کے نظریات کی وجہ سے، یا پھر سیکولر مخالف، رجعت پسند عناصر اور شہروں کے درمیانی طبقے میں پائی جانے والی عسکری سوچ کو خوش کرنے کے لیے یہ مغرب مخالف موقف اپنانے پر مجبور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے نزدیک ”استعمار مخالف“ اسامہ بن لادن شہید ہے، تمام یہودی صیہونی ہیں جن کے قبضے میں مغربی میڈیا ہے، اور مسلہ فلسطین اسلامی جہت رکھتا ہے۔ دراصل تحریک انصاف کے مقامی اور سمندر پار حامیوں کی عشروں سے برین واشنگ کی گئی ہے۔ وہ ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔

پاکستان کے لیے افغان مسلے کو ہینڈل کرنے میں بھی ایسا ہی مسلہ درپیش ہے۔ ایک طرف پاکستان اور کابل کی کئی ایک سیکولر حکومتوں کے درمیان ناپسندیدگی کی تاریخ ہے کیوں کہ پاکستان نے افغانستان میں ہمیشہ اسلامی مجاہدین یا طالبان کی حمایت کی ہے۔تاہم اس وقت پاکستان طالبان کے کابل پر قبضے کی بھرپور حمایت کرنے سے پیچھے ہٹ گیا ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے امریکا اور عالمی برداری کی طرف سے سخت ردعمل آئے گا۔اور اسلام آباد کو ان ممالک سے رقم اور ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ درحقیقت افغانستان میں ایک اور خانہ جنگی کے خدشات گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ قریبی ہمسایہ ممالک کی حمایت سے نسلی بنیادوں پر وجود میں آنے والے دھڑوں کے امکانات تشویش ناک ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ بھارت کو مداخلت کا موقع مل جائے گا بلکہ یہ کہ تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کی سرحد پار سے پاکستان میں دھشت گردی کی کارروائیاں شروع ہوجائیں گے، اور مہاجرین کی ایک اور کھیپ پاکستان میں داخل ہوکر ہماری پہلے سے ہی غربت زدہ ریاست پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال دے گی۔ اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ عمران خان پاکستان میں ٹھکانے حاصل کرنے کے امریکی مطالبے کو مسترد کرنے پر کیوں اتنے دوٹوک ہیں۔ امریکی افغانستان میں طالبان پر نظر رکھنے اور اُن پر بمباری کرنے کے لیے ٹھکانے چاہتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ تو چاہے گی کہ امریکی ڈرون تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کو نشانہ بنائیں۔

فاٹا اور بلوچستان میں اسٹبلشمنٹ مخالف قوم پرستی کے ابھرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مسائل تحریک انصاف کی بدانتظامی کی وجہ سے کتنے سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ وہ ان سے نمٹنے کے لیے داخلی سیاسی اتفاق رائے او ر استحکام پیدا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ رواں ہفتے اسٹبلشمنٹ مخالف پشتون قوم پرست، عثمان کاکڑ کی پراسرار موت (کچھ کا کہنا ہے، قتل) پر لاکھوں سوگواران باہر نکلے، جب کہ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ جنسی حملے پر یا یہود مخالف تبصرے کرتے رہے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن نے پارلیمنٹ میں ایک دوسرے پر بجٹ کے مسودے خوب برسائے۔ کیا ہوااگر اس سے چند دن خیبرپختونخواہ پولیس نے احتجاج کرنے والے پشتون قوم پرستوں پر گولی چلادی جس سے تین افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ بے شمار احتجاجی مظاہرین کو حراست میں لیا گیا۔ کیا ہوا اگر بلوچستان میں طالبان کے حامی پاکستانی پشتون لشکر سرحد پار کرکے افغان طالبان کے ساتھ مل کر جنگ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس دوران تحریک طالبان پاکستان بھی پاکستان میں دھشت گردوں کو بھیجنے کے لیے کمر کس چکی ہے۔ یہ ہے تاریخ کا کمر توڑ بوجھ!

بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments