مزید گندی باتیں

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


جی، میں وہی کہنا چاہ رہی ہوں جو آپ سوچ رہے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ باوجود ہزار خواہش و صد کوشش کہی نہ جائے۔

لاہور کی مون سون شروع ہو چکی ہیں اور یہ موسم ایسا ہے کہ کہتے ہیں زمین میں جو دبا ہوتا ہے سبزے کی شکل میں باہر نکل آتا ہے۔ اطباء کے نزدیک اسی موسم میں ، جسم کے فاسد مادے پھوڑے پھنسیوں کی صورت پھوٹ نکلتے ہیں۔

ہم چونکہ ڈیجیٹل عہد میں زندہ ہیں اس لیے اب سے یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اسی موسم میں ہمارے معاشرے کے کچھ مخصوص رویوں میں کج روی بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔

لیکڈ ویڈیوز کے اس موسم نے میرے ایک مفروضے پہ تو مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ ہمارے معاشرے کے جنسی رویے بگڑ چکے ہیں۔ ان غیر فطری رویوں کی پردہ پوشی اور آبیاری کرتے کرتے ہم آدھے معاشرے کو ذہنی بیمار اور باقی کو عیاش طبع بنا چکے ہیں۔

فطرت سے جنگ ممکن نہیں اور جب ہم بطور معاشرہ ، منافقت میں مبتلا ہوتے ہیں تو انسانی رویوں کی ایسی بگڑی ہوئی اشکال ہمارے سامنے آتی ہیں۔

عالم کا باعمل ہونا بہت ضروری ہے۔ ہم تو عالم بے عمل کی بحث پہ ہی اٹکے تھے کہ عالم شوقین طبع سامنے آ گئے۔ ہمارے ایک عزیز جنہیں بے وجہ کی دانشوری جھاڑنے کا شوق ہے ،دور کی کوڑی لائے اور فرمایا کہ افغان جہاد کے لیے فتوے دینے کو یہ نقلی علما بنائے گئے اور اب جبکہ امریکہ جارہا ہے تو ان نقلی علما کی اصلیت بھی سامنے لائی جا رہی ہے۔

اس قسم کے سازشی دانشوروں کےپاس اپنے سازشی نظریات کو ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کی دلیل اور منطق موجود ہوتی ہے۔ ان دلائل اور منطقوں کے آگے، ہماری تو ایک نہیں چلتی۔

لیکڈ ویڈیوز کی حد تک تو ہم ان کے نظریات کو مان لیتے ہیں لیکن جب بات ہمارے وزیر اعظم کی آتی ہے تو برسات کو دوش دینے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔

خان صاحب کا تو کوئی دشمن بھی نہیں، جو ان کی تنہائی میں کہی باتیں باہر آ کر سنائے یا دکھائے۔ یہ عظیم کام وہ خود ہی سرانجام دیتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں اس لیے پاکستانی مردوں کو بے قصور قرار دیتے ہیں۔

یقیناً ان بےقصور مردوں میں وہ تمام بزرگ بھی شامل ہیں جو پچھلے دنوں ڈیجیٹل عہد کی ستم ظریفی کا شکار ہو چکے ہیں۔ان کا کیس اگر وزیر اعظم کے بیان کے تناظر میں دیکھا جائے تو دور دور تک کسی عورت کے موجود نہ ہونے کے باوجود انہوں نے یہ ثابت کیا کہ انسان ہیں اور خطا کے پتلے ہیں۔

سوال پھر وہی اٹھتا ہے کہ انسان تو عورت بھی ہے ، پھر مرد کے جرم پہ بھی وہی خطا کار اور خود اس سے اگر کوئی خطا سرزد ہو جائے تو کیا اسی قسم کی کوئی تاویل، کوئی دلیل،کوئی معافی کا خانہ اس کے لیے بھی ہے یا نہیں؟

خیر سے عمران خان صاحب کی حکومت بہت مضبوط ہے، راجہ باسک ان کے تخت تلے کنڈلی مارے بیٹھے ہیں، کیا آنے والے دنوں میں خان صاحب عورتوں کے حق میں بھی کوئی اسی طرح کا بیان دیں گے؟ ان کی زبان جو اکثر پھسل جاتی ہے، کبھی ایسے بھی پھسلے گی کہ صرف اتنا ہی کہہ جائے، عورت بھی روبوٹ نہیں ہے۔

ممکن ہے ایسا کبھی نہ ہو، کیونکہ خان صاحب میں لاکھ خامیاں سہی ایک اچھائی ہے اور وہ یہ کہ سچ کہتے ہیں اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ سچ یہ ہی ہے صاحبو، کہ پاکستانی عورت روبوٹ ہے اور پاکستانی مرد خطا کا پتلا، قابل معافی، معصوم اور بے چارہ۔

کاغذ پہ جگہ بھی بہت باقی ہے اور کہنے کو بھی بہت کچھ ہے لیکن کیا لکھیے؟ ہمارے لکھے سے اگر کچھ بدل سکتا تو سب سے پہلے یہ خیال ہی بدل جاتا کہ ریپ جنسی اشتعال ہے۔

ریپ جرم ہے، ایک بھیانک جرم ،جس کے لیے عورت کے کم یا زیادہ کپڑوں کا ہونا، بلکہ عورت کا ہونا نہ ہونا بھی ضروری نہیں۔ مثالیں سوشل میڈیا پہ وافر مقدار میں دستیاب ہیں اور برسات کے ختم ہوتے ہوتے امید ہے مزید مثالیں سامنے آ جائیں گی۔

جب تک معاشرے میں توازن نہیں آئے گا بگاڑ بڑھتا جائے گا۔ بگاڑ سدھارنا ہے تو اپنے رویوں کا محاسبہ کیجیے اور غور کیجیے کہ اشتہا اور جبر کے درمیان حد فا صل کیا ہے اور یہ حد مٹ کر جبر ،اشتہا کیوں بن گیا؟

کپڑوں میں کچھ نہیں دھرا،بگاڑ معاشرتی رویوں میں ہے ،سدھار بھی وہیں تلاش کیجئے ورنہ یہ گندی گندی باتیں کرنے اور دہرانے سے سوائے ان معاملات کی حساسیت ختم ہو نے کے کچھ نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).