مستنصر حسین تارڑ: راکھ میں چنگاری کی تلاش


پاکستانی قومیت کی بے قرار روح گزشتہ پچاس برس سے اپنے بدن کی تلاش میں سرگرداں تھی۔ بارے اب آن کر مستنصر حسین تارڑ نے اسے مردانؔ کا شایان شان پیکر عطا کیا ہے۔ مستنصر نے ”راکھ“ میں دیس پردیس کے بیسیوں جاندار اور متحرک کردار پیش کیے ہیں۔ رنگا رنگ جغرافیائی اور تہذیبی پس منظر میں نشو و ارتقا کے مراحل سے فن کارانہ نفاست سے گزرتے ہوئے منفرد کردار۔ مگر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارا قومی وجود اس ناول کا مرکزی کردار ہو جو سرزمین پاکستان کے اندر تصور پاکستان سے حکمرانوں کے مسلسل اور شعوری انحراف کے باعث زار و زبوں ہے۔ ہمارے اجتماعی پیکر کے زخموں کو مستنصرؔ نے کرید کرید کر دیکھا اور مختلف زمینوں اور زمانوں کی خارجی اور باطنی سیاحت کے دوران اس نے اس نادر و نایاب مگر زخم زخم وجود کے لیے مرہم اندمال ڈھونڈنے کے بہت جتن کیے ہیں تب کہیں جا کر اسے کیپٹن مردانؔ کی صورت میں یہ نسخۂ شفا دستیاب ہوا ہے۔

مردانؔ ایک متقی اور محنتی کسان چوہدری اللہ داد کا بیٹا ہے جو گاؤں سے لاہور آتا ہے اور اپنے خاندان کے ساتھ کچھ وقت گوالمنڈی میں بسر کرنے کے بعد لکشمی مینشن میں مستقل ٹھکانہ تلاش کر لیتا ہے۔ لکشمی مینشن اس کے بڑے بھائی مشاہدؔ کے لیے ایک جہان حیرت ہے کہ اس میں نت نئی کہانی کی تلاش میں سرگرداں سعادت حسن منٹوؔ رہتا ہے جو اس پر لاہور کی تہذیبی اور تخلیقی کائنات کے راستے روشن کر دیتا ہے مگر مردانؔ کے لیے یہ سہ منزلہ عمارت ایک اور طرح کی اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔ وہ اس کی بلندی سے یوم استقلال کی سالانہ پریڈ کا نظارہ کرتا ہے اور پہروں اس منظر میں جذب رہتا ہے۔ یہ دلکش منظر مردانؔ کو ایک نئے جہان آرزو سے آشنا کرتا ہے :

”مشاہدؔ کا خیال تھا کہ مردانؔ گہری نیند میں ہے لیکن اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور وہ جھنڈے کو تکے جا رہا تھا۔ چودہ اگست کی پریڈ ابھی تک اس کے اندر ہو رہی تھی۔ ٹھپ ٹھپ کرتے ہوئے بھاری بوٹ اور گڑگڑاتے ہوئے ٹینک۔ ملک کو بچانے والے۔ میں اگر فوجی بن جاؤں تو کتنا مزہ آئے۔“

فوج مردانؔ کے لیے وسیلۂ روزگار نہیں بلکہ قومی سربلندی اور وسیع تر انسانی بہبود کا خواب ہے۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کے دوران اس کی آنکھوں میں خون کی بجائے آنسو اترتے ہیں اور دل میں غصے کی بجائے درد کا الاؤ بھڑک اٹھتا ہے۔ مکتی باہنی کے مظالم اور فوج کا سفاک سامراجی ردعمل ہر دو اس کے لیے سوہان روح ثابت ہوتے ہیں۔

مشرقی پاکستان میں ظہیر الدینؔ بابر کے گھر میں ”ایک چھوٹا سا مغربی پاکستان آباد تھا۔ نوجوان فوجی افسر اپنے اپنے چکوال، گجرات اور صوابی سے دور خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہوئے وہاں مکھیوں کی طرح آتے تھے۔ باہر بہت بدامنی تھی لیکن آنٹی بابرؔ کے گھر سکھ چین تھا۔ نوجوان افسروں کے چہرے باتیں کرتے کرتے سرخ ہو جاتے۔ ان میں سے ہر ایک عارفینؔ اور نازنینؔ پر فدا تھا۔ مگر خود عارفینؔ اور نازنینؔ کیپٹن مردانؔ خان کے التفات کی تمنائی تھیں۔ اسی گھر میں مردانؔ کی ملاقات صدر پاکستان آغا محمد یحییٰ خان کی چہیتی بلیک بیوٹی مسز حسینؔ اور مسز حسینؔ کے“ بدن کی کومل سیڑھی سے ”ترقی کے مدارج طے کرنے پر نازاں مسٹر حسینؔ سے ہوئی اور اس طرح ہوئی کہ“ وہ چند ہفتوں کے اندر اندر مسز حسینؔ کے بدن کے سارے حروف تہجی، ان کے زیر و زبر، پیش سے آگاہ ”ہو گیا۔ مسٹر حسینؔ تو خیر وسیع القلب تھے ہی، ان کے دونوں بیٹے اس بات پر پھولے نہ سماتے تھے کہ پاکستان کے صدر اور افواج پاکستان کے سربراہ ان کی ماں کے اشارۂ ابرو پر رقص کرتے ہیں :

”آفٹر آل صدر پاکستان آغا جنرل یحییٰ خان کے لیے ان کے صدارتی محل میں پرفارم کرنا۔ جب کہ ان کی والدہ محترمہ ان کے ہمراہ ایک سرخوشی میں رقص کرتی تھیں اور آغا صاحب کی گھنی پلکیں اور خوبصورت آنکھیں سرخ ہوتی ہوئی ان پر جھکتی تھیں ایک قابل فخر بات تھی۔“

ایک اوباش جرنیل، جسے عالمی سازش کا ایک مہرہ بنا کر مسند صدارت پر لا بٹھایا گیا تھا، کی یہ کنیز مردانؔ کا انتخاب نہ تھی بلکہ مردانؔ کو خود اس نے اپنی طوائفیت کو ہرا بھرا رکھنے کی خاطر چن لیا تھا۔ مردانؔ کا انتخاب تو مہرالنساءؔ تھی۔ مردانؔ اپنی یونٹ کی مسجد کی بجائے قریب کے گاؤں کی مسجد میں جمعہ پڑھنے جایا کرتا تھا اور وہاں اپنے بھائی بنگالی مسلمانوں میں گھل مل جایا کرتا تھا:

”پھر آہستہ آہستہ وہ میرے قریب ہوئے اور میرے اپنے جو تھے میرے بہت قریب ہوئے۔ مولوی احتشام الدین ایک روز مجھے گھر لے گئے۔ وہی پھونس کا جھونپڑا، ایک تالاب، ناریل سپاری اور ناڑ کے چند درخت اور اس سادگی میں ایک قناعت اور ٹھہراؤ۔ مولوی صاحب اکثر اپنے ہارمونیم پر مجھے نذرل کے گیت سناتے۔

Really Baba
ہاں۔ اور تمہاری ماں بھی وہیں تھی۔ ”
پھر غیروں کی تدبیریں کارگر ہوئیں اور اپنی بے تدبیری یہ رنگ لائی:

”مولوی احتشام ؔ الدین اب بھی اپنے پاکستانی مسلم عقیدے پر قائم تھا لیکن اسے ہم وطنوں کے جلتے ہوئے جسموں کی بو بہت پریشان کرتی تھی۔ گاؤں کے لوگ اعتراض کرتے تھے۔ پاکستانی فوجی۔ ادھر نہیں آئے گا احتشامؔ الدین۔ بچرز۔ ان کو صرف زمین چاہیے۔ مہرؔالنساء بھی بہت خاموش رہتی تھی۔ اس کے بالوں سے اٹھنے والی ناریل کی مہک اگرچہ اب بھی مردانؔ کو کچھ عجیب سی لگتی تھی لیکن وہ منتظر اسی مہک کا رہتا تھا۔

آپ کی جان کو ادھر خطرہ ہے کپتان صاحب۔ آپ ادھر نہ آیا کرو۔ تھوڑا دن ٹھہر جاؤ پھر اللہ کو منظور ہوگا تو پھر میل جول ہوگا۔ ”

مولوی احتشام الدین کے سے بنگالی مسلمان بڑی دلسوزی کے ساتھ حالات کے سدھرنے کی دعائیں مانگ رہے تھے مگر ہمارے فوجی حکمرانوں کے نمائندے حالات سے جان بوجھ کر غفلت برتتے ہوئے بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ مغربی پاکستان کی ڈیفنس ہاؤسنگ کالونیوں میں اپنے زیر تعمیر مکانات کے نقشوں کو خوب سے خوب تر بنانے کی مہمات سر کرنے میں منہمک تھے۔ ایسے میں ایک شام جب بلیک بیوٹی اپنے آغا جیؔ سے تازہ تر وصال کے بعد واپس مشرقی پاکستان پہنچی اور یحییٰ خان کی بھنوؤں کی سیکس اپیل کے موضوع پر رطب اللسان ہوئی تو حاضرین نے بار بار درخواست کی کہ وہ پاکستان کی اعلیٰ ترین قیادت کا مشرقی پاکستان کے سنگین بحران پر ردعمل بتائیں۔ اس پر بلیک بیوٹی یوں گویا ہوئیں :

”میں سب کچھ تو نہیں بتا سکتی۔ مسز حسینؔ نے بظاہر ٹالتے ہوئے کہا۔ لیکن وہ اتنا مرد ہے کہ جنگ۔ جنگلوں میں اور صحراؤں میں جاری رہے گی۔ جنگ۔ میں سب کچھ تو نہیں بتا سکتی۔

شاید یہی وہ لمحہ تھا جب چوہدری اللہ داد خان کا بیٹا کیپٹن مردانؔ خان بدلا۔ اس کے اندر بہت کچھ آگے پیچھے ہوا۔ اس کی کلف لگی وردی بوسیدہ ہونے لگی۔ حب الوطنی کیا ہے۔ ڈسپلن کیا ہے۔ سچ ہے یا جھوٹ ہے اور حکم ماننا دانش مندی ہے یا یہ سوال کرنا کہ حکم کون دے رہا ہے اور اس کی اہلیت کیا ہے دانش مندی ہے۔ ”

چنانچہ جب پاکستان کی تاریخ کے متبذل ترین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا تو کیپٹن مردانؔ خان نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ ان میں شمار نہیں ہونا چاہتا تھا جو اپنے عسکری وجود پر ذلت رقم کرنے کے بعد شجاعت کے تمغے وصول کرتے ہیں :

”سبھی تو ٹائیگر نہیں ہوتے کہ مسکراتے ہوئے، اطمینان سے اپنے رینک اتار کر میز پر رکھ دیں، اپنا ریوالور دوسرے ہاتھ میں دے دیں۔ ان میں بہت سارے ایسے بھی تھے جنہوں نے حکم عدولی کی۔ اپنے آپ کو دشمن کے سامنے بے لباس نہیں کیا اور ایک وحشت اور بے چارگی اور بے بسی کو اپنے اندر کچلتے ہوئے بیرکوں سے نکل نامانوس اور دلدلوں کی منتظر جنگلوں کی گھنی موت کے اندر چلے گئے۔

مردان ؔ بھی ان میں سے ایک تھا۔
وہ ہتھیار نہیں ڈال سکتا تھا۔ ”

چنانچہ وہ دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکنے کی بجائے جنگلوں، دلدلوں اور دریاؤں میں مارا مارا پھرتا رہا۔ ”بھاگتا ہوا، آزاد، مردانؔ، ہانپتا ہوا، ناریل کے جھکے ہوئے درختوں کے اندر ایک تقریباً کبڑا ہو چکا انسان بھاگتا تھا کہ اسے کسی سرینڈر کی میز پر نہ بیٹھنا پڑے۔ وہ اس جنگل کا پہلا ہارا ہوا سپاہی تھا جس کی وحشت اور درندگی کو جال ڈال کر قابو میں کیا گیا تھا۔ ایک جانور کی طرح پکڑا گیا وہ قابو میں نہ آتا تھا۔“ قید سے رہائی پر وہ واپس اس سر زمین پر آ پہنچا جو کبھی اس کا وطن تھا مگر آج علاقہ غیر:

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments