جب جمہوریت تیسری بار قید ہوئی


یہ سن 1976 کے اوائل ہیں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک اہم فیصلہ کرنا ہے۔ آرمی چیف جنرل ٹکا خان کی مدت ملازمت پوری ہو رہی ہے اور انہیں اب اس منصب پر نیا فرد مقرر کرنا ہے۔ وزارت دفاع 5 سینئیر ترین جنرلز کے نام ایک سمری کی صورت میں وزیر اعظم آفس بھیج دیتی ہے۔ وزیر اعظم اس سمری کے برعکس ایک فیصلہ کرتے ہیں اور وہ فیصلہ جو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اور وہ یہ تھا کہ وہ اس لسٹ میں آٹھویں نمبر پر ہونے والے شخص کو آرمی چیف مقرر کر دیتے ہیں اور جس شخص کو وہ اس منصب پر فائز کرتے ہیں وہ تھے اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الحق۔

سارے ٹاپ آفیشلز حیران تھے کہ یہ کس قسم کا فیصلہ ہے اور یہ کیوں گیا ہے مگر اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب ایسا شخص اپنے ماتحت طاقتور عہدہ پر رکھنا چاہتے تھے جو ان کا تابع دار ہو اور نا ہی ان کی حکومت کو اور ان کو اس شخص سے نا کوئی خطرہ ہو۔ اور جنرل ضیاء بھٹو صاحب کے اس معیار پر پورا اترے اور انہوں نے بھی بھٹو صاحب کی قربت لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نا چھوڑا۔

اب ہم ذرا بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ بھٹو صاحب اپنی نیشنلائزیشن پالیسیز کو آگے بڑھا رہے تھے مگر اس کا کوئی خاص فائدہ نا ہو سکا اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور 1973 کے تیل کے عالمی بحران کی وجہ سے معاشی محاذ پر مسائل تھے مگر خارجہ محاذ پر بھٹو صاحب کی گرفت مضبوط تھی۔ اپوزیشن کو بھٹو صاحب نے دیوار سے لگایا۔ نیپ کی بلوچستان اور سرحد میں حکومتیں گروائیں۔ بلوچستان میں نیپ کے لیڈرز کو علیحدگی پسند قرار دے کر بلوچستان میں آپریشن شروع کیا اور ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جو آج بھی حیدر آباد ٹربیونل کے نام سے مشہور ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگوائی 1975 میں اور ایف ایس ایف کے نام سے نئی فورس سے جاسوسی کے کام لینے شروع کیے جس کا بنیادی مقصد اپوزیشن رہنماؤں کی جاسوسی کرنا تھی۔

اس کے باوجود بھٹو صاحب کی عوامی مقبولیت برقرار رہی۔ شملہ معاہدہ کیا اور ایٹمی پروگرام شروع کیا اور اسلامی تعاون تنظیم کی دوسری سربراہی کانفرنس کا لاہور میں انعقاد سے بھٹو صاحب کو مسلم امہ کا مقبول لیڈر مانا جانے لگا اور ان کی شاہ فیصل سے دوستی کو بھی رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ بھٹو صاحب اسی عوامی مقبولیت کی بنیاد پر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیتے ہیں 1977 میں اور تمام اپوزیشن جماعتیں پاکستان قومی اتحاد کے نام سے انتخابی اتحاد بنا کر پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابات لڑتی ہے۔

پہلے قومی اسمبلی کی 200 نشستوں پر پہلے انتخاب ہوتے ہیں جس کے نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کو 155 نشستیں ملتی ہیں۔ دھاندلی کا شور اٹھتا ہے اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد پی این اے احتجاجی تحریک چلاتی ہے اور وزیر اعظم سے استعفی کا مطالبہ کرتی ہے۔ بد ترین سنسرشپ کے باوجود تحریک چلتی ہے اور وہ تحریک اچانک تحریک نظام مصطفی بن جاتی ہے اور اور شدت اختیار کرنے لگتی ہے۔ ملک کے ہر گلی کوچے میں احتجاج ہو رہا ہوتا ہے اور اس دوران 200 افراد مارے جاتے ہیں۔

جون کے آخری ہفتے میں آرمی چیف دونوں فریقین کو ایک نقطے پر متفق ہونے کی تلقین کرتے ہیں کہ مسئلہ سلجھائیں تا کہ نقص امن ختم ہو۔ مگر اصل میں جنرل ضیا نہایت چالاکی سے اپنے پلان پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور وہ ہوتا ہے وزیر اعظم کے خلاف بغاوت کرنا۔ کئی کتابوں میں یہ ذکر آ چکا ہے کہ بھٹو صاحب جنرل ضیاء کو بندر کے نام سے پکارتے تھے اور پوچھتے تھے کہ میرا بندر جنرل کہاں ہے؟ جنرل ضیاء اس حقارت آمیز سلوک کو سہتے رہیں اور وہ مناسب وقت کا انتظار کرتے رہے اور انہیں وہ مناسب وقت جولائی کے اوائل میں مل ہی گیا۔

وہاں حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ پر پہنچ ہی گئے تھے اور دستخط بھی ہونے کے نہایت قریب تھے۔ جنرل ضیاء کو خبر ملی تو انہوں نے فوری کارروائی کا فیصلہ کیا۔ 4 جولائی 1977 کی شب جنرل ضیاء نے امریکی سفارتخانے میں امریکہ کے یوم آزادی کی تقریب میں شرکت کی۔ اس کے بعد 111 بریگیڈ نے اپنے پلان پر آغاز کیا۔ اس آپریشن کا نام آپریشن فیئر پلے رکھا گیا۔

4 اور 5 جولائی کی شب 1۔ 2 بجے آپریشن مکمل ہو چکا تھا۔ دارالحکومت اور تمام اہم شہروں کی سرکاری عمارتوں کا کنٹرول فوجی دستے سنبھال چکے تھے اور پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی عمارت پر قبضہ ہو چکا تھا۔ جب وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم کو گرفتار کیا گیا تو انہوں نے جنرل ضیاء کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ سر آپ کو کچھ دنوں کے لئے حفاظتی تحویل میں لے رہے ہیں۔ آپ کے تحفظ کے لئے۔ ملک میں نقص امن حد سے بڑھ گیا ہے۔ یہ تھوڑے دنوں کی بات ہے۔ حالات نارمل کر کے آپ کو چھوڑ دیا جائے گا جس پر معزول وزیر اعظم نے اطمینان کا اظہار کر کے فون بند کر دیا مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ مکالمہ ان کو پھانسی کے پھندے تک لے کر جائے گا

اس کے بعد جنرل صاحب تقریر کر کے بتاتے ہیں کہ آئین تیسری دفعہ معطل کر دیا گیا ہے اور اسمبلیاں تحلیل کردی گئی ہیں اور 90 روز میں نئے انتخابات کروائے جائیں گے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ وہ 90 روز کبھی بھی ان 11 سالوں میں جب جمہوریت کو تیسری دفعہ قید کیا گیا کبھی نہیں آئی۔ بھٹو صاحب کو رہا تو کر دیا گیا مگر ان کے فقید المثال استقبال اور آمریت کے خلاف آواز سے جنرل ضیاء جانتے تھے کہ ان کا اقتدار خطرے میں ہے۔ اسی لئے احمد رضا قصوری کے والد کا قتل کا کیس دوبارہ کھولا گیا اور قتل کے الزام میں ستمبر میں بھٹو صاحب کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد ان کا بدنام زمانہ ٹرائل ہوا اور ان کا عدالتی قتل 4 اپریل 1979 کو راولپنڈی کی سنٹرل ڈسٹرکٹ جیل میں ہوا پھانسی دے کر۔

اس کے بعد پیپلز پارٹی نے مزاحمتی تحریک چلائی اور کئی سو کارکنان نے جانیں گنوائیں، کوڑے کھائے، قید کاٹی اور نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی مزاحمت شروع ہوئی اور اس تیسری بغاوت کو جواز دے دیا گیا اور ایک اسلامی ریاست قائم کی جانے لگی اور مرد مومن مرد حق کے القاب دیے گئے باغی کو جو اپنی طاقت اور بندوق کی بدولت اقتدار پر قابض ہوا اور 1979 میں افغانستان کے معاملہ میں کودنا اور امریکیوں سے مثالی تعلقات اور اربوں ڈالرز کے عوض جو مجاہدین گروہ بنائے گئے انہی مجاہدین کی وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پھنسا ہوا ہے اور شبہ بڑھتا جا رہا ہے کہ کہیں ہم بلیک لسٹ نا ہو جائیں۔ منشیات سرعام ہوئیں اور حدود آرڈیننس کے نفاذ سے ریپ زنا بالجبر قرار دے کر متاثرہ خاتون کو کوڑے بھی مارے گئے۔ صحافت کا گلا گھونٹا گیا اور نا جانے کتنے لوگ اٹھا کر مار دیے گئے ہوں کچھ پتا نہیں۔ مذہبی انتہا پسندی بڑھی۔ فرقہ ورانہ فسادات بڑھے۔

مگر ایک بات اس واقعہ سے یہ ثابت ہوئی کہ مزاحمت کرنے والے ہمیشہ تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں اور اسی لئے آج بھی بھٹو زندہ ہے کیونکہ اس نے عوامی حاکمیت کا مقدمہ لڑا مگر اپنے موقف سے پیچھے نا ہٹے۔ دوسری بات کہ عوامی رائے کے بغیر آنے والوں کو کبھی نا عوام معاف کرتی ہے اور نا ہی تاریخ۔ مگر یہ سلسلہ 1947 سے چل رہا ہے۔ جمہوریت بارہا قید ہوتی رہتی ہے۔ آزادی اظہار قید ہو جاتا ہے۔ سیاچن چلا جاتا ہے مگر ابھی تک ہم اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے اور نا ہی سیکھیں گے۔

ہر بندہ یا فرد یا گروہ ہر کام نہیں کر سکتا۔ وہ وہی کام کر سکتا ہے جس میں اس کی مہارت ہو اور اس کا شعبہ ہو۔ پاکستان میں یہ بات بھی اب مان لینی چاہیے کہ عوامی رائے مقدم رکھنی پڑے گی کیونکہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو مگر اگر اس کے برعکس اپنے ذاتی مفادات یا اپنی سوچ کے تحت ڈر و خوف پیدا کر کے آپ کا ذاتی قلیل مدت فائدہ تو ہو جاتا ہے مگر اس مہم جوئی کا نتیجہ اور اس کے تحت ہونے والے غلط فیصلوں سے جنم لینے والے مسائل کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔

آج کی پیپلز پارٹی بے شک اپنے قائد کے اس بات سے پیچھے ہٹ گئی ہو مگر انہیں بھی سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ آج بھی سندھ میں مقبول ہیں تو وہ بھٹو صاحب کی اس قربانی کی وجہ سے ہیں اور عوامی طاقت ہی سب سے زیادہ دیر پا اور مضبوط طاقت ہوتی ہے۔ اور سب سے اہم سبق 5 جولائی 1977 سے ملتا ہے کہ ضروری نہیں اقتدار کی وجہ سے ہی نام بنے دنیا میں یا آپ مقبول ہو۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ اقدار اور نظریات پر قائم رہنے والا شخص زیادہ مقبول ہوتا ہے اور مرنے کے بعد بھی اس کے افکار، جد و جہد اور نظریات زندہ رہتے ہیں، وہ کبھی مردہ نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments