نیش عشق: ڈاکٹر اظہار ہاشمی کے قلم سے


جس دن سے کتاب ”نیش عشق“ ہاتھ میں آئی تھی، دل میں ایک خواہش تھی کے اس کے بارے میں کچھ لکھا جائے۔ بہت دن اس شش پنج میں گزر گئے کہ اس خوبصورت کتاب کے بارے میں اپنے جذبات کو کاغذ کی نذر کرنے کی جسارت کی جائے یا نہیں۔ آخر استدلال کو احساس کے ہاتھوں شکست فاش ہوئی اور طے پایا کہ ہماری رائے کتنی بھی ناپختہ کیوں نہ ہو، ایک باکمال کتاب کے بارے میں اپنے قلبی تاثرات کو تحریر کرنے ہی سے ایک ادنٰی قاری کا فرض ادا ہو پائے گا۔

ڈاکٹر اظہار ہاشمی صاحب ایک میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت درد دل رکھنے والے سماجی کارکن بھی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بیش قیمت حصہ خصوصی افراد، خواجہ سراء، معاشی مسائل کا شکار افراد، یتیم بچوں اور نفسیاتی مسائل کے شکار افراد کی بہبود کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ڈاکٹر اظہار ہاشمی سے عقیدت کا تعلق ہے۔ میرے لیے وہ ایک استاد بھی ہیں، گائیڈ بھی اور ہمت دلانے والے بڑے بھائی بھی۔ ان کی انسان دوستی، دانشمندی، خدمت خلق اور ادبی ذوق کی تو میں معترف تھی لیکن ان کے افسانوں کا مجموعہ پڑھنے سے پہلے ان کے اندر پوشیدہ ادیب سے چنداں واقفیت نہیں تھی۔

نیش عشق میں انہوں نے اپنے زندگی کے وسیع تجربات کو کہانیوں کی صورت میں اتنے خوبصورت طریقے سے پرویا ہے کہ پڑھنے والا اپنے اردگرد کے ماحول سے لاتعلق ہو کر خود کو ان کرداروں کی زندگی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ نیش عشق معاشرے کے ان افراد کی روداد ہے جن کے بارے میں لکھنا تو درکنار، شاید ہم میں سے بیشتر افراد ان کے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں۔

اس مجموعہ میں شامل تمام افسانے درد کی چاشنی سے گندھے محسوس ہوتے ہیں۔ مصنف کی انسان دوستی اور درد دل الفاظ سے چھلکتا محسوس ہوتا ہے۔ فیصل عرف ریکھا نامی خواجہ سرا ء ہو یا سردی میں اپنے بچے کو سردی سے بچانے کی ناکام کوشش کرتی ماں، ان کرداروں کے آنسو پڑھنے والے کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن ایک اور خوبصورت بات یہ ہے کہ قلمکار نے ہر کہانی میں امید کی شمع روشن رکھی ہے، قاری پر نہ تو کہیں مایوسی حاوی ہوتی ہے اور نہ ہی انسانیت پہ اس کا یقین ڈگمگاتا ہے۔ بلاشبہ کہانیاں معاشرے کی تلخیوں اور ناہمواریوں کی عکاسی کرتی ہیں لیکن پڑھنے والے کو زندگی کے بارے میں ایک پرامید تاثر کے ساتھ چھوڑتی ہیں۔

تحریر کا ایک اور بہت نمایاں پہلو جو بہت نکھر کر سامنے آتا ہے وہ اس میں کی گئی مفصل اور شاندار منظر نگاری ہے۔ افسانوں میں منظر نگاری اتنی کمال ہے کہ تمام منظر چشم تصور سے نہ صرف واضح دکھائی دیتے ہیں بلکہ پڑھنے والے کو اس ماحول کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ کردار نگاری بھی اتنی جاندار ہے کہ کرداروں کی شخصیت، انداز تکلم اور نفسیاتی الجھنیں پڑھنے والے پر بخوبی عیاں ہو جاتے ہیں۔ ایک منظر سے دوسرے کا سفر اتنا رواں ہے کہ قاری کی بھرپور توجہ کہانی سے ایک لمحہ ہٹ نہیں پاتی۔ افسانوں میں بیان کردہ ثقیل موضوعات کی سنجیدگی کو کسی حد تک تحلیل کرنے اور مزاح کا تاثر دینے کے لیے ڈاکٹر صاحب کہیں کہیں زمانہ طالبعلمی کی رومانوی یادوں کا تڑکہ لگاتے بھی نظر آتے ہیں۔

”سویٹر“ میں وہ ایک طرف غربت کے ستائے لوگوں کے دکھ بیان کرتے ہیں، تو دوسری طرف اس تحریر سے انسان کے اندر کی اچھائی پر ان کا غیر متزلزل یقین ایک روشنی کی طرح جھلکتا نظر آتا ہے۔ ”انکل اس شہر میں بہت سی مائیں اپنے بچوں کے لیے سویٹروں کی تلاش میں ہیں۔ جائیں انہیں ڈھونڈیں اور ان کو سویٹر دلوائیں۔“ بچوں کی طرف سے کہے گئے یہ الفاظ اس تحریر کا حاصل ہیں۔ مجھے یہ الفاظ پڑھتے ہوئے بے اختیار ساغر صدیقی کا یہ شعر یاد آ گیا،

یہی ہے ذوق عبادت کی انتہا ساغر
غم حیات کے ماروں کا احترام کرو

ڈاکٹر اظہار نے اپنی تحریروں میں ایک ماہر کی طرح انسانی نفسیات کی بھول بھلیوں کی منظر کشی کی ہے۔ اپنی تحریر ”بچھڑے کی محبت“ میں شیطان سے گفتگو کے استعارے میں وہ نفس امارہ و نفس لوامہ کی کشمکش کی آسان فہم تفصیل سمجھاتے نظر آتے ہیں۔ زندگی کے عام واقعات کے ذریعے وہ نفس کی غلامی اور اخلاقی برایوں کے پیچھے کارفرما منفی سوچ کو عام فہم انداز میں زیربحث لائے ہیں جو ان کی بطور ادیب مہارت کی غمازی کرتا ہے۔

” جنج گھر“ ایک پراسرار کہانی ہے جو ہمیں سادہ لوح دیہی لوگوں کے اعتقادات سے متعارف کرواتی ہے تو دوسری طرف ”نیش عشق“ ہمیں ایک خصوصی شخص کی نظر سے عشق کا ایک حیران کن فلسفہ بیان کرتی ہے۔ جبکہ ”شہر آشوب“ میں ہمیں روحانیت اور خود آگاہی کے بیش قیمت گوہر سمیٹنے کا موقع ملتا ہے۔

آخر میں میں شہر آشوب سے منتخب کردہ کچھ باکمال الفاظ، ”بابا جی بولے، اپنے سفر پر نکل جاو، لیکن اپنے راستے پر۔ سفر مقلد سے غیر مقلد کا ہے، جہاں پہنچ کر تم سمندر میں بھی ہو اور اپنی ذات میں سمند ر بھی۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments