جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو…


ایسا نہیں ہے کہ سارے کے سارے سیاستدان ہی کرپٹ، مفاد پرست یا سیاست میں محض مال بنانے کے لیے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ سارے کے سارے ایم این ایز قومی اسمبلی میں گالیاں دیتے ہیں اور پھر گالیوں کو اپنے کلچر کا حصہ کہتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ سارے کے سارے عوام مفاد پرست، سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کے ذہنی غلام ہیں یا سب ہی الیکشن میں قیمے والا نان کھا کر ووٹ ڈالتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ سارے کے سارے علماء مذہبی و مسلکی منافرت پھیلانے کو دینی فریضہ سمجھتے ہیں، فتوے باز ہیں، دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں اور مذہب کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ مدرسوں کے سارے کے سارے اساتذہ بچوں سے جنسی زیادتی کرتے ہیں یا اس قبیح فعل کا ارتکاب بھی کرتے ہیں اور جرم کو یہ کہتے ہوئے تسلیم بھی کرتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ سارے کے سارے جج چمک اور دھمک سے مرعوب ہو کر فیصلے کرتے ہوں۔

ایسا نہیں ہے کہ سارے کے سارے جرنیل سیاست میں مداخلت یا ملک میں مارشل لا لگانے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں یا سارا وقت سیاسی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ سارے کے سارے وکیل دو نمبر دھندوں کے رسیا ہیں اور ہر کیس کو محض مال بنانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں یا مقدمہ جیتنے کے لیے ہر غیر قانونی و غیر اخلاقی حربہ استعمال کرتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ سارے کے سارے بیوروکریٹ اور سرکاری ملازم تنخواہ کو اپنا حق یا وظیفہ سمجھتے ہیں اورکام کرتے یا فائل کو آگے بڑھانے کے لیے رشوت وصول کرتے ہیں یا سارے کے سارے ہی خود کو عوام کا آقا سمجھتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ سارے کے سارے صحافی بلیک میلر ہیں، کسی ایک کے یا دوسرے طاقت ور کے یا سیاسی جماعتوں کی مالدار قیادت کے پے رول پر ہیں۔ یا میڈیا سیٹھ کے ذاتی ملازم کی طرح جو حکم ملے بجا لاتے ہیں یا اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو میڈیا سیٹھ کے پاس گروی رکھتے ہیں۔

وغیرہ وغیرہ…

آپ چاہیں تو اس فہرست میں جتنا چاہے اضافہ کر لیں۔ اب اس تھوڑے کہے کو بہت سمجھ کر آگے بڑھتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ لوگ کون ہیں اور کہاں ہیں، جو اوپر بتائے گئے ‘سارے کے سارے‘ میں شامل نہیں۔ اب اگر وہ دکھائی نہیں دیتے یا ان کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے تووہ آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوئے ناں! یا پھر معدومیت کا شکار یہ لوگ تیزی سے اپنا وجود کھو رہے ہیں یا وجود کھو دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

یہ پاگل لوگ کون ہیں جو ‘ سارے کے سارے‘ میں شامل ہونا پسند نہیں کرتے۔ جذبات، احساس اور ضروریات رکھتے ہیں، مگر انہیں دبوچ کر، ان کا دم گھٹتا ہے مگر یہ سانسوں کی بھی راشننگ کر لیتے ہیں۔

یہ جو ‘سارے کے سارے‘ میں شامل نہیں وہ لوٹ مار کی بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوتے کہ وہ اپنی آسودگی معاشرے کی اجتماعی ترقی سے منسلک رکھتے ہیں نہ کہ ایسی ذاتی ترقی میں، جس کی قیمت کوئی دوسرا ادا کر رہا ہوتا ہے۔

اب ایسے پاگل لوگوں کا کیا جائے، جو تیزی سے معدومیت کا شکار ہو رہے ہیں مگر معدوم نہ ہونے پر مصر بھی ہیں اور لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پرانے بیج کی طرح زمین کے پاتال میں سے ہی سہی کسی نہ کسی طور ذرا سی نمی اور سانس ملنے پر اُ گ آتے ہیں، جیسے پرانی عمارت کی پرانی اینٹوں سے پیپل اُگ آتے ہیں۔ معاشرہ اگر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے تو وجہ یہ پاگل لوگ ہی ہیں۔

ضرورت ہے تو ان کی تعداد بڑھانے کی ہے۔ ایسی نرسریاں بنانے کی، جہاں ان کی پنیری لگائی جا سکے اور احتیاط اور حفاظت سے انہیں پروان چڑھنے کے مواقع میسر آسکیں۔ یہ نرسریاں اور کچھ نہیں محض ایسے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں، جہاں تعلیم کے ساتھ تربیت ملے۔ علم کے حصول کی سیڑھی چڑھنا سکھایا جا سکے، سوال اٹھانے اور ان کا جواب ڈھونڈنے کی جستجو اور حوصلہ ملے۔

 آپ اگر چاہیں تو ان کے مجسمے بنا کر کسی چوک میں یادگار کے طور پر رکھ دیں، جیسے عبدالستارایدھی صاحب کا مجسمہ کوئٹہ کے ایک چوک میں نصب کیا گیا ہے۔ یا پھر اب تک کی طرح دل ہی دل میں ان کی عزت افزائی جاری رکھیں۔ لیکن یہ ‘سارے کے سارے‘ کسی پہچان یا عزت افزائی کے بغیر بھی ایسے ہی سر پھرے اور پاگل رہیں گے، یہی تھوڑے سے، جو ‘سارے کے سارے‘ میں شامل ہونے سے گریزاں ہیں، اس کنویں کا پانی نہیں پئیں گے، جو انہیں ‘سارے کے سارے‘ میں شامل کر دے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments