ضیائی ظلمت کے بعد کتنے چراغ روشن ہوئے؟


ضیا الحق جس دن حادثے کا شکار ہوا ہم بچپن سے نوجوانی کی حدود میں قدم رکھ رہے تھے۔ 17 اگست 1988 کو کراچی میں تھے اور ایک کمرے میں بیٹھے باتوں میں مصروف۔ ٹی وی پر الا ماشاللہ ہی بریکنگ نیوز چلتی تھی۔ سی ون تھرٹی کے گرنے کی خبر چلی تو ہماری ایک عزیزہ بھاگتی ہوئی آئیں اور یہ خبر سنائی کہ ضیا الحق حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔

یہ خبر بہت سی وجوہات کی بنا پر خوشی کا باعث بنی۔ گو ضیا الحق ولد محمد اکبر کی موت بذات خود کسی خوشی کا باعث نہ تھی لیکن ایک عفریت سے چھٹکارے کی خوشی بہت تھی جو گیارہ سال سے اپنے منحوس پنجے گاڑے ملک پر مسلط تھا۔ جس کے بارے میں اس وقت یہ لگتا تھا لازم و ملزوم ضیا ہمیشہ سے ہے اور شاید ہمیشہ کے لئے ہے۔ جس کے نامہ اعمال میں جمہوریت پر شب خون، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، سیاسی مخالفین کی کمر پر کوڑے اور سب سے بڑھ کر اس ملک کے جسم کے ہر حصے پر مذہب کے نام پر تازیانے تھے۔ جھوٹ تھا جو نوے دن والے بیان سے سے شروع ہوا اور قبر تک ساتھ گیا۔ منافقت تھی جو جبڑے پہ سجی رہتی اور شاید وہی منافق سی مسکراہٹ والا جبڑا آج بھی فیصل مسجد اسلام آباد میں آج بھی کہہ رہا ہے کہ دیکھو اگر دیدہ عبرت نگاہ ہو۔

وقت گزرتا رہا اور گزر رہا ہے۔ وطن عزیز میں ضیا کے بعد بھی کم ازکم ایک دفعہ باقاعدہ آمریت کا دور رہا۔ بم دھماکے بھی ہوتے رہے، امریکہ کی جنگ بھی لڑی گئی، مختلف سیاسی نظریات رکھنے والوں کی کھالیں بھی کھینچی گئیں، مذہب کے نام پر خون بھی بہے اور مسلسل بہائے جا رہے ہیں۔ مولوی اور مدرسہ بوجوہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ غرض ضیا، گہری ظلمت بن کر مسلط رہا۔ بندے خدا بنتے رہے لیکن ہمارا با اثر دانشور طبقہ ضیا پر الزام دھر کے خاموش ہوجاتا رہا اور ساتھ یہ بھی سمجھتا ہے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔

اس با اثر دانشور طبقے میں جمہوریت پسند سیاستدان، دانشور، استاد، صحافی، ادیب اور شاعر شامل رہے ہیں کہ یہی طبقات عموماً قوم کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ اب باقی عوام کی رسائی سوشل میڈیا تک ہے سو وہ سترہ اگست اور پانچ جولائی کو دوچار پوسٹیں لگا کر سمجھتی ہے کہ فرض ادا ہو گیا۔ پھر دو چار کوسنے دے کر اگلے سال کے انتظار میں بیٹھ جاتی ہے۔

اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ راقم کے نزدیک ضیا الحق کے قومی گناہ کم ہو جاتے ہیں۔ تاریخ نے بہرحال ذلت اور رسوائی سے اس ”ظلمت“ کو ہمیشہ یاد رکھنا ہے اور رکھ رہی ہے۔ لیکن سوال اس سے آگے کے ہیں کہ آموں کا شکریہ ادا کرتے تیس سال سے زائد ہوتے ہیں، آنے والوں نے پھیلائی گئی جہالت کو کم کرنے کے لئے کیا کیا؟ وہ زہر جو اس ملک کی رگ و پے میں انڈیلا گیا تھا اس کا تریاق ڈھونڈنے کی کس کس نے کوشش کی؟ آنے والوں نے دور سیاہ میں سیاسی اور مذہبی جبر کا شکار ہونے والوں سے کوئی معافی مانگی؟

کیا سیاسی مخالفین کی پیٹھ پر برسنے والے کوڑے، کوڑے دان میں پھینک دیے گئے؟ کیا مذہب اور فرقوں کے نام پر پھیلی نفرت پاٹنے کی کوشش ہوئی؟ دنیا کے انمول، انوکھے اور واحد پاسپورٹ، جس کی وقعت اب صومالیہ، افغانستان، عراق اور شام کے نزدیک ہے اس پر سے مذہب کی شناخت ختم ہوئی؟ سر ظفراللہ خان، جوگندر ناتھ منڈل، ڈاکٹر عبدالسلام، جنرل اختر ملک، سیسل چوہدری، رانا بھگوان داس، ڈاکٹر رتھ فاو جیسے عظیم پاکستانیوں کو بطور پاکستانی وہ عزت اور وہ مقام دیا جس کے وہ حقدار تھے؟ ہرگز نہیں، بلکہ ہماری درسی کتب سے لے کر نام نہاد تاریخ کی کتابوں تک وہ دور اور اوراق مسلسل خاموش ہیں۔

کینیڈا میں چند برس قبل ابتدا میں کینیڈا پہنچنے والے سکھوں پر ظلم کی داستان سامنے آئی تو اس وقت کے وزیراعظم نے سکھوں سے معافی مانگی اور اس کی یادگار تعمیر کی۔ ابھی چند دن پہلے کینیڈا کے قدیمی باشندوں (Indigenous) کی ظلم کی داستانیں سامنے آنے پر کینیڈا کا وزیراعظم ان سے معافی مانگتا اور پرچم سرنگوں کر دیتا ہے۔ جرمنی آج بھی ہٹلر کی طرف سے یہودیوں پر کیے گئے مظالم پر معذرت خواہ ہے، ولی برانٹ جیسے مدبر ہٹلر کے دور میں ہی اس سوچ کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے، نازی قید میں لکھی گئی یہودی لڑکی این فرینک کی ڈائری اب جرمن سکول کے نصاب کا حصہ بن چکی ہے۔ امریکہ مارٹن لوتھر کنگ کا I had a dream بارک اوبامہ کی صورت میں بڑی حد تک تعبیر پا چکا ہے، اس کی قوم کو کم از کم سرکاری سطح پر برابر کا شہری تسلیم کرچکا ہے اور امریکہ کا دانشور افریقن باشندوں پر ظلم کو اپنی تاریخ کا سیاہ باب سمجھتا ہے۔

انفرادی سطح پر نفرت خاندانوں، قبائل، قوموں، مذاہب میں شامل رہی ہے اور شاید ہمیشہ رہے گی لیکن ملکی سطح پر قانون کی نظر میں مختلف قبیلے، سیاسی سوچ، رنگ، نسل، مذہب رکھنے والے برابر ہونے ضروری ہوتے ہیں۔ ہر فرد ریاست کا شہری ہوتا ہے، ہر جرم کرنے والا ملکی قانون کی نظر میں مجرم۔ ہر شہری کے بنیادی حقوق کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے اور اسے ہر سطح پر برابر کی سہولت دیتی ہے۔ ضیا کی موت کے 33 سال بعد آنے والوں نے لکیر پیٹنے کے سوا کیا کیا؟ ظلمت کی اس دبیز تہہ کو دور کرنے کے لئے کتنے چراغ جلائے؟ پس اندھیرے کا راج تھا اور ہے، صرصر، صبا کے نام پر گلیوں بازاروں میں دندناتی پھر رہی ہے۔ اور اس کے لئے ضیا الحق کے بعد آنے والے بھی قصور وار ہیں جو اس کے کارناموں کو اپنا کر اس کے محافظ بن چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments