جمہوری آوازیں اور میڈیا کا کردار


اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ذرائع ابلاغ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جو آگاہی اور معلومات عوام کو میسر آئیں شاید ہی کوئی دوسرے ذرائع سے حاصل کی گئی ہو۔ میڈیا نے ہمیں بتایا کہ سوموٹو کیا ہے، جی ڈی پی کیا ہے، ملک کی خارجہ پالیسی، سینٹ الیکشن، الیکٹوریل کالج، عوامی نمائندوں کی تعداد، جعلی ڈگریوں اور پیروں کی نشاندہی، گدھے اور کتوں کی گوشت پر چھاپے، کرپشن سکینڈلز، سٹنگ آپریشن، گھریلو ملازمین پر تشدد، راہ چلتی لڑکیوں سے پرس چھیننے کے واقعات حتی کہ میڈیا نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ کس عوامی نمائندوں کو کتنی انگریزی اور کون سے نمائندوں کو دعائے قنوت اور چاروں قل آتی ہیں۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کی اور آپ ایک کلک پر اپنی پسندیدہ مشغلے اور موضوع پر سینکڑوں ویڈیو دیکھ سکتے ہیں۔

میڈیا پر پابندیوں اور قدغن لگانے کی بھی ایک طویل تاریخ ہیں مسولینی سے لے کر ہٹلر اور سٹالن سے لے کر آج کل کی جدید چائنا۔ اگر بات کی جائے پاکستان کی تناظر میں تو ایوب خان کس کو یاد نہیں اور خاص طور مادر ملت فاطمہ جناح کی کردار کشی اور اس کی خلاف چلانے والا پروپیگنڈا۔ پاکستان میں بہت سے صحافیوں، اینکر پرسن اور لکھاریوں جیسے وارث میر، حبیب جالب، عرفان صدیقی میر شکیل رحمان، سیرل المیڈا (جیل نہیں گیا مگر نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھا) نے جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کی اور بہت صحافیوں نے نوکریوں سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے۔

ضیاءالحق کے دور اقتدار میں حبیب جالب کا پاسپورٹ بھی حکومت وقت نے ضبط کیا تھا۔ آج کل صحافیوں کو ہراساں، ڈرانے اور دھمکانے کے طریقوں میں جدت آئی ہیں۔ مختلف تفتیشی ادارے صحافیوں کی ٹویٹس اور کالمز پر گہرے نظر رکھے ہوئے ہیں اور جو بھی بیانیہ حکومت وقت یا ملٹری کو پسند نہ آئے تو اس کو سائبر کرائم کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہیں۔ اس لیے پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان نچلے درجے میں ہے۔

ریٹنگ، تنخواہیں، اشتہارات اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ہدایت اپنی جگہ لیکن کچھ آوازیں ضمیر کی ہوتی ہیں اور وہی لوگ امر ہو جاتے جو کبھی ضمیر کی آواز سنتے ہیں۔

لیکن باوجود اس کے میڈیا ہاؤسز میں بھی خرافات پائے جاتے ہیں۔ میڈیا کیوں ریاست کا چھوتا ستون نہیں بن سکتا کیونکہ میڈیا کو حریم شاہ کی شادی، عامر خان کی طلاق، نادیہ خان کی ائرپورٹ وڈیو زیادہ اہم ہیں کیا میڈیا کو عثمان کاکڑ کا عظیم الشان جنازہ نہیں دکھانا چاہیے تھا؟ کیا حریم شاہ کی شادی اہم خبر ہے یا ایک منتخب نمائندے علی وزیر کی گرفتاری؟ جنہوں نے طالبان کے خلاف اپنے خاندان کے سترہ جنازے اٹھائے ہیں۔ آپ ماضی قریب کی وڈیو تقاریر نکال کے دیکھ لے عثمان کاکڑ ایک جمہوری جدوجہد کا نام تھا آپ زمانہ طالب علمی سے سیاست کر رہے تھے اور اپنی قابلیت کے بل بوتے سینٹر منتخب ہوئے تھے۔ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ایسی حرکتوں سے کیا چھوٹے صوبوں کے عوام میں شدت پسندی، علیحدگی اور تعصب کی جراثیم جنم نہیں لے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments