قبل ازوقت انتخاب


جن دنوں قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلاس ہورہے ہوں تو ہفتہ وہ واحد دن ہوتا ہے جب میں لکھنے کی مشقت سے آزاد ہوتا ہوں۔ وگرنہ یہ کالم دفتر بھجوادینے کے بعد ہفتے کے بقیہ پانچ دن ’’دی نیشن‘‘ کے لئے پریس گیلری بھی لکھنا ہوتی ہے۔ اپنی فراغت والے دن کو لہٰذا میں بہت سنجیدگی سے لیتا ہوں۔ حتیٰ الوسع کوشش ہوتی ہے کہ دُنیا کے بکھیڑوں سے ذہن کو آزاد کئے یہ دن پھولوں،درختوں اور جانوروں سے گفتگو میں گزارہ کیا جائے۔ ذہن میں جمع ہوئی یبوست میں کمی آئے۔ نئے خیالات کی آمد کے راستے صاف کئے جائیں۔

دورِ حاضر کے انسان کو مگرموبائل فون بھی لاحق ہوچکا ہے۔ دن میں کئی بار جی مچلتا ہے اس میں لگائے ٹویٹر اکائونٹ کو دیکھ لیا جائے۔ مبادا کوئی اہم ’’خبر‘‘ مس نہ ہوجائے۔ اس خواہش سے نجات پانے کے لئے اگرچہ ناصرؔکاظمی کے ’’کون دیکھے گا؟‘‘ والے شعر کو منتر کی طرح استعمال کرنے کی بھی کوشش کرتا ہوں۔ کامیابی مگر ابھی تک نصیب نہیں ہوئی۔

بہرحال گزرے ہفتے کی دوپہر اپنا ٹویٹر اکائونٹ دیکھا تو مجھ سے منسوب ایک ’’بریکنگ نیوز‘‘ کا چرچا ہورہا تھا۔ تاثر یہ پھیلایا جارہا تھا کہ ’’نصرت جاویدنے ‘‘دعویٰ کیا ہے کہ عمران حکومت نے مارچ 2022میں نئے انتخاب کا ارادہ باندھ لیا ہے۔ ان کے انعقاد سے قبل مگر نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت عدالت سے سزا دلوانا بھی لازمی سمجھا جارہا ہے۔ عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے بعد موصوف کسی عوامی عہدے کے لئے انتخاب میں حصہ لینے کے نااہل بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ میرے چند مہربان اس ’’خبر‘‘ کی ’’مقبولیت‘‘ سے پریشان ہوگئے۔ ذاتی پیغامات کے ذریعے وضاحت طلب کی۔ دن کے کئی گھنٹے وضاحتیں دینے میں صرف ہوگئے۔

یہ بات برحق کہ گزشتہ ہفتے چھپے ایک کالم میں مارچ 2022 کا ذکر ہوا تھا۔ اس ضمن میں یہ حقیقت بھی دہرائی گئی کہ عمران حکومت کے ’’احتسابی کارندے‘‘ شہباز صاحب کو عدالت سے مبینہ منی لانڈرنگ کی وجہ سے آئندہ دو مہینوں کے دوران سزا دلوانے کو بھی یکسو وبے چین ہیں۔ پورے کالم میں ہرگز کہیں یہ نہیں لکھا تھا کہ مذکورہ منصوبہ کامیاب ہوگا یا ناکام۔ احتیاطاََ اسی کالم میں بلکہ یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ گوشہ نشین ہوئے رپورٹر کو عمران حکومت کے فیصلہ ساز حلقوں تک رسائی میسر نہیں۔ ’’زبانی طیور کی‘‘ جو سناہے بیان کررہاہوں۔

روایتی اخبار کے لئے کالم لکھنے کے چند تقاضے ہیں جنہیں عقل سے قطعاََ محروم ہوجانے کے بعد ہی نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ مجھے گماں ہے کہ بہت کچھ لٹادینے کے باوجود ابھی اپنی عقل کافی بچارکھی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے میں سڑکوں پر دری بچھائے جوتشیوں کی طرح حکومتوں کے جانے یا قبل از وقت انتخاب کے مہینے طے نہیں کرسکتا۔ سیاسی عمل شاذہی ساکن ہوتا ہے۔ اچانک نمودار ہوئے حیران کن واقعات اس میں ہلچل مچادیتے ہیں۔

دُنیا بھر کی افواج ہمہ وقت جنگی منصوبے تیار کرتی رہتی ہیں۔ انہیں بحالت جنگ مؤثر بنانے کے لئے جنگی مشقیں بھی ہوتی ہیں۔ انگریزی کا مگر ایک محاورہ متنبہ کرتا ہے کہ کسی بھی جنگ کی پہلی گولی چلنے کے بعد جرنیلوں کے بنائے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ حقیقی جنگ ایسے حیران کن پہلواُن کے سامنے لاتی ہے جن کی بابت انہوں نے سوچا تک نہیں ہوتا۔

ملکی سیاست کا شاہد اور طالب علم ہوتے ہوئے میں ذاتی طورپر محسوس کرتا ہوں کہ عمران حکومت کو قبل از وقت انتخاب سے گریز کو ترجیح دینا چاہیے۔ اس کالم میں مذکورہ رائے کا اظہار برملا نہیں بین السطور کیا تھا۔ اس ضمن میں حوالہ ذوالفقار علی بھٹو کا دیا جو آئینی اعتبار سے 1978تک وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہ سکتے تھے۔ 1977کا آغاز ہوتے ہی انہیں گماں ہوا کہ وہ اگر اس برس کے مارچ میں عام انتخاب کروادیں تو ان کی جماعت دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لوٹ آئے گی۔ قبل از وقت انتخاب کا اعلان ہوتے ہی مگر گیم اُلٹ گئی۔ انجام اس کا جولائی 1977میں لگایا مارشل لاء تھا جس نے سیاسی عمل کو پاکستان میں کئی برسوں تک تخریب کارانہ جرم بنائے رکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے برعکس ترکی کے سلطان اردوان نے اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کے لئے کئی بار قبل از وقت انتخاب کروائے ہیں۔ ریفرنڈم کے ذریعے اپنے ہاں کے آئین کو صدارتی بناکر وہ ’’سلطان‘‘ بھی ہوگیا۔

عمران خان صاحب کی شخصیت اردوان سے ملتی جلتی ہے۔ 2018میں انہیں طویل جدوجہد کے بعد جو اقتدار نصیب ہوا ہے اس کی بنیادیں انہیں عموماََ ناخوش رکھتی ہیں۔ اس تناظر میں جب اسلام آباد میں قبل از وقت انتخاب کی افواہیں گردش میں آئیں تو صحافی کے لئے انہیں سنجیدگی سے لینا ضروری ہے ۔ کوئی پسند کرے یا نہیں ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے نمودار ہونے کے چند ماہ بعد ہی ہوئے انتقال پر ملال نے عمران حکومت کو بے پناہ اعتماد بخشا ہے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں حکومت کو گھر بھیجنے کے بجائے اب ایک دوسرے کو شرمندہ کررہی ہیں۔ نوازشریف صاحب ایک بار پھر خاموش ہوگئے ہیں۔ شہباز صاحب کی ’’آنیاں جانیاں‘‘ہیں۔ یہ مگر بارآور ہوتی نظر نہیں آرہیں۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے صدر،قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے بااختیار وزیر اعلیٰ رہے شہباز شریف صاحب تو اگلے روز عدالت سے بلکہ یہ شکایت لگانے کو مجبور ہوئے کہ ایف آئی اے والے انہیں تفتیش کے دوران ہراساں کرتے رہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ ’’پنجاب پلس‘‘ کی ’’تفتیش‘‘میرے اور آپ جیسے پاکستانی کے لئے کتنی ’’مہذب اورخوش گوار‘‘ ہوتی ہے۔ اپنے حامیوں کے روبرو کسی سیاست دان کو ہرگز بے بس ولاچار نظر نہیں آنا چاہیے۔ فیض احمد فیض نے ’’دھج‘‘ سے مقتل میں جانے کی بات کررکھی ہے جو ’’شان‘‘ سلامت رکھتی ہے۔ شہباز صاحب کی شاعری سے رغبت مگر جالبؔ کے چند مصرعوں تک ہی محدود رہی ۔

بہرحال اطلاع آپ کو محض یہ دینا ہے کہ عمران حکومت کی جانب سے قبل از وقت انتخاب کے ممکنہ ارادوں کا ’’سراغ‘‘ نصرت جاوید نامی کالم نگار نے نہیں لگایا۔ ماضی کے رپورٹر کی چند بااعتماد اور بااثر لوگوں سے گفتگو ہوئی تھی۔ وہ پیشہ وارانہ وجوہات کی بنا پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ شوکت فیاض ترین صاحب نے حال ہی میں جو بجٹ پیش کیا اس کے اعدادوشمار کا جائزہ لیتے ہوئے عالمی معیشت کے نگہبانوں کے چند کرتا دھرتا افراد کو یہ شبہ ہوا کہ یہ بجٹ قبل از وقت انتخاب کا عندیہ دے رہا ہے۔ اس شبے کو اس کالم میں بیان کردیا گیا۔ اس کے بعد مزید کئی اشارے ملے تھے۔ ان کی تلخیص بھی کالم نگار نے بیان کردی۔ سوشل میڈیا کے تقاضوں نے مگر اسے ’’بریکنگ نیوز‘‘ بنادیا۔ رونق لگ گئی۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments