انار کلی جو کینیڈا کی مٹی کو بھا گئی


سنائے گی یہ داستاں شمع میرے مزار کی
خزاں میں بھی کھلی رہی یہ کلی انار کی
اسے مزار مت کہو، یہ۔
انار کلی جو کینیڈا کی مٹی کو بھا گئی اور آج میں ڈھونڈتا ڈھانڈتا دھکے کھاتا بالآخر تیز ہوتی بو ندا باندی میں اپنی اس منہ بولی چھوٹی بہن کی قبر پہ کھڑا فاتحہ پڑھتے بارش کے ان ہی قطروں کی طرح آنسوؤں کی جھڑی بہا رہا تھا۔ میرے کانوں میں اس کی آواز کی بازگشت گونجی، ”لئیق بھائی ان حالات میں بھی میں انار کی پتیاں نکالتی کلی کی طرح سرخ و حسین تھی“

گزشتہ چودہ اگست کے روز دل کے اچانک خرابے میں تین دفعہ بند ہوتے دل کو اس کے ساتھ پیوند شدہ آئی سی ڈی کے دھکا سٹارٹ کر دینے کے فضل خداوندی کے بعد یہ داستان بطور تحدیث نعمت ”ہم سب“ میں شائع ہوتی فیس بک تک پہنچی تو ایک کمنٹ نے دل ہلا دیا۔

لکھا تھا، ”آپ خوش قسمت ہیں۔ آپ کے بیوی بچے بھی خوش قسمت ہیں۔ ہمارے والا تو گبھرو جوان رات ایسے سویا کہ صبح اٹھا ہی نہیں“ ۔ کمنٹ کرنے والی یہ خاتون میرے فیس بک احباب میں شاید سال بھر قبل شامل ہوئی تھیں۔ یاد آیا کہ فیس بک پہ بہت فعال، بہت لائق، ادب دوست اور دلیل سے شستہ اردو اور انگریزی میں بات کرنے لکھنے والی اس خاتون کی بعض تحریریں اور اشعار انتہائی درد اور تنہائی کے احساس دلاتے اندرونی دکھ بھی لئے ہوتے۔

پروفائل چیک کیا تو سوائے کئی تعلیمی اسناد اور ایک مؤقر ادارہ میں تدریس اور ٹورنٹو میں رہائش کے ذکر کے نہ کوئی فوٹو اپنا یا پرایا نہ کسی بھی عزیز کا ذکر۔ کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ اسی اچانک جدائی اور آ لام حیات کی طرف اشارہ کرتے کچھ فقرات آئے، ناشناس کے گائے گیت ”آج کی رات غم دوست میں شدت ہے بہت“ کے ذکر پہ ”صرف آج کی رات؟“ کا مختصر مگر درد انڈیلتا کمنٹ آیا۔ تو غم کی شدت کا اندازہ ہو چکا تھا۔

اس کے بعد جو لکیریں میرے میسنجر کے صفحے پہ ابھریں وہ من و عن پیش ہیں۔ نہ صرف اس کا نام انارکلی اور سلیم لکھا ہے، باقی سب نام اور مقام بھی تبدیل شدہ ہوں گے ۔

چھبیس دسمبر کو جب کسی سلسلے میں میسنجر پر گھریلو سکون و خوشی کے ذکر پر میں نے بتایا کہ الحمدللٰہ خدا نے مجھے حقیقی معنوں میں ہر دکھ سکھ میں ساتھی بیوی اور فرمانبردار محنتی لائق اپنے گھروں میں خوش اولاد کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے، تو جواب تھا۔

”بڑے نصیب والیاں ہوتی ہیں جن کے شوہر ان کی وفاؤں اور قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہیں“
چند منٹ بعد ہی یہ تحریر ابھر آئی

”اپنے نصیب میں تو وہ بھی نہ تھا۔ زندہ سے وفا تو اکثر کرتے ہیں، ہم نے تو مرے ہوؤں سے وفا اور حرمت نبھا دی۔

جب دیور میری زمینوں کی کمائی غبن کر رہے تھے تو اپنی انگوٹھیاں بیچ بیچ گزارا کیا مگر بچوں پہ آنچ نہ آنے دی۔ بس ہم ایسی ہی ہیں۔ جب بھی وقت پڑا۔ شوہر اور بچوں کے سامنے ڈھال بن جانا۔ مجھے انگوٹھیوں کا بڑا شوق تھا، اور ہے بھی، تو شادی کی ہر سالگرہ پر وہ مجھے سونے کی انگوٹھی ہی گفٹ کرتے۔ آٹھ سال شادی رہی۔ دس بارہ انگوٹھیاں تھیں جو ہر ضرورت پر بیچ کر بھرم رکھا۔ دیور تو غیر تھے، سگے بھائی بھی رج کے دنیا دار اور بے غیرت۔ کسی نے پلٹ کر نہ پوچھا۔ میں نے پلٹ کر کسی کی طرف نہ دیکھا۔ سب اسی دن مر گئے میرے لئے جس دن سلیم گئے۔ تو دیکھا جائے تو اچھا ساتھی باقی سارے رشتوں سے بے نیاز کر دیتا ہے ”

میں نے لکھا ”مجھے آپ سے کوائف پوچھنے اور بعد کی پوسٹس سے اندازہ چکا تھا کہ ساتھی جانے اور بچھڑنے کا غم ہے۔ کئی بار سوچا کچھ پوچھوں۔ مگر جراءت نہیں ہوئی۔ بظاہر آپ میری بڑی بیٹی سے کچھ قریب کی عمر کی لگیں۔ مگر جو کچھ آج آپ نے بتایا تو مجھے لگ رہا ہے کہ شاید دل کا درد اور غم بانٹنے سننے والے دوست ساتھی بچے یا رشتہ دار بھی کم ہیں یا ہیں ہی نہیں۔ جاب کی کیا صورت ہے۔ بہر حال اگر دل کرے تو مجھے اپنا ایک بزرگ سمجھتے جب چاہیں آواز دے لیں۔ آج سے سمجھیں اپنے بچوں کے ساتھ دعاؤں میں آپ کو بھی شامل کر لیا“ فون نمبر بھی لکھ دیا

اس کے بعد جو دل دوز داستان اسی روز وقفہ وقفہ سے ابھری، وہ کچھ یوں ہے، اسی کے الفاظ میں۔

”میں اکیلی ہوں۔ بالکل اکیلی۔ تن تنہا۔ ایک سال کی تھی تو ماں مر گئی۔ تین سال کی عمر میں ماں کی جگہ دوسری ماں نے لے لی۔ کہتے ہیں ماں دوسری تو باپ تیسرا۔ ابا جی پہلے ہی بہت جلاد طبیعت کے تھے۔ سابقہ فوجی، پورے خاندان میں ہٹلر کے نام سے مشہور تھے۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے جنوبی پنجاب کے شہر میں آ بسے۔ ننھیال بیس برس پہلے کے یہیں آباد تھے۔ انیس سو ستاون میں امی کی وفات کے بعد دوسرے قریبی شہر کے قریب منتقل ہو گئے۔

مقصد یہی تھا کہ دوسری شادی میں بچوں کے نانا یا ماموں کوئی اڑچن نہ ڈالیں۔ خیر، میں ماں کی جوٹھن، جوتیاں اور مکے کھاتی بڑی ہوئی۔ مجھ سے اوپر بھائی ہی تھے پھر بڑی بہنیں جن کی بہت چھوٹی عمر میں شادیاں ہو چکی تھیں۔ بھائی بڑے شہروں میں پڑھ رہے تھے۔ میں بڑی ذہین اور بلا کی حسین تھی۔ جبکہ امی مجھے روٹی بھی ایک سے زیادہ نہ دیتی اور میں اتنی صابر کہ چپ۔ دو سال کی گولڈ میڈلسٹ اور سکالر شپ پانے والی اکثر مار کھا کے سکول جاتی۔

موسم میں صرف دو سوٹ ملتے۔ امتحانات کے دنوں میں وہ مجھے بھوکا ہی رکھتی تا کہ فیل ہو جاؤں اور مجھے سکول سے اٹھا لیا جائے۔ ویسے وہ بڑی شرع پردے اور دین کی پابند نمازی، محلے کے غریبوں یتیموں کا خیال رکھنے والی عورت تھی۔ مجھے نفرت ہے ان منافقت بھرے دین داروں سے۔ خدا کرے ان کی عبادت ان کے گلے کا طوق بنا دی جائے۔“

” باقی پھر۔ ابھی آنکھوں میں پانی بہت ہے یا شاید آنسو“

عرض کیا ”بلحاظ عمر مجھے بڑا بھائی یا بزرگ سمجھ لیں۔ خدا استقامت دے۔ باقی حصہ بطور داستان نہیں بطور آپ کے مشکلوں سے لڑنے والی بہادر لڑکی سننے کا منتظر ہوں گا“

” ساتویں کلاس میں تھی تو معلوم ہوا کہ ماموں زاد سے منسوب ہوں۔ بس ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا۔ یہ میری ماں کی خواہش تھی۔ ماموں نبھانا چاہتے تھے۔ وجیہ، ہینڈسم کزن بھی میرا دیوانہ تھا۔ مگر سخت پردہ اور بندشیں، بس نام لے کے خوش۔ وہ آرمی میں چلا گیا۔ امی کو یہ بات ہضم نہ ہو رہی تھی کہ اس رشتے کی وجہ سے سابقہ سسرال میں آنا جانا شروع ہو۔ بہر حال چند چالیں چل یہ رشتہ ختم۔ میں گھنٹوں اس انگوٹھی کو دیکھتی روتی، جو منگنی پر اسے پہنانے کے لئے بنی تھی۔

اس پر بھی امی مجھے دو ہتڑ مارتی کہ بے حیا رو رہی ہے۔ کیا میں اسے یاد بھی نہ کر سکتی تھی۔ میں نے دو بدو اس کو کبھی بھی نہ دیکھا، بس جالیوں سے ہی تاکا۔ پھر بھی مجھ بد نصیب کی نظر لگ گئی۔ اس نے بڑے پاپڑ بیلے۔ ان دنوں میری سخت نگرانی ہونے لگ گئی۔ اب سوچتی ہوں کاش بھاگ ہی جاتی اپنی ماموں ممانی کے پاس۔ مگر اس عمر میں چڑیا جیسی تو ہوتی ہیں لڑکیاں۔ جب تھوڑی گرد پڑی تو ابا کو ادراک ہوا کہ یہ کیا ہو گیا۔ اب امی ہمدرد بن سامنے آئیں اور اپنے ایک دور پار کے مجھ سے اکیس بائیس برس بڑے عزیز کا رشتہ پیش کیا۔

رات کو اس کی بہن آئی، نو بجے انگوٹھی پہنا صبح واپس۔ میں بے رنگ و نور آنکھوں سے کبھی ابا جی کو دیکھتی کبھی بھائی کو۔ وہ آنکھیں چرا گیا۔ یہ کیسے فرض کی سبکدوشی تھی۔ اس سے اچھا تھا مجھے زہر دے دیتے۔ مگر بھائی نے ابا جی کے مقابل آ کے جائیداد سے ہاتھ تھوڑا دھونے تھے۔ تین ماہ بعد میری اس ناپاک، کنجوس، منحوس، بدبخت شخص سے شادی ہوئی۔ پچیس مربع زمین کا مالک ایک ایک آنے کا حساب رکھتا۔ وہ ساری زمین بعد میں اس کے بیٹوں نے لاہور کی طوائفیں پر لٹا دی۔

اس کا ناپاک وجود تو شاید قبر میں کیڑے بھی نہ کھائیں۔ اس کو یہی شک رہتا کہ کم عمر حسین بیٹی اسے کیوں دے دی۔ عجیب کریدنے والے سوال کرتا۔ گلی میں چھپ کے میری نگرانی کرتا۔ گھر سے جانے سے پہلے کافی سارے کام دے جاتا اور واپس آ کے چیک بھی کرتا۔ سجنا سنورنا۔ میک آپ اچھے کپڑے سختی سے منع۔ ایسا ہی تھا کہ وہ زندگی کے پہاڑ سے اتر رہا تھا اور میں سولہ سترہ برس کی ایک لڑکی نے آغاز کیا تھا“

” بہرحال چھ سات ماہ تک اس نے مجھے میکے نہ جانے دیا اور میکے میں تھا کون جس سے میں ملنے جاتی۔ خیر وہ مجھے بخار میں تپتی باپ کے پاس چھوڑ گیا۔ اس غرض سے کہ باپ علاج کرائے۔ تین چار ماہ کے مسلسل علاج کے بعد کچھ بہتری آنے لگی تو اس کے روابط بھی زندہ ہوئے۔ پتہ نہیں بھائی، اس جان ناتواں میں کہاں سے اتنی ہمت آ گئی کہ میں نے جانے سے صاف انکار کر دیا اور ساری کہانی سنائی۔ ابا جی اس وقت تو اثبات میں سر ہلاتے اور اسے گالیاں دیتے رہے، مگر اس کو آنے کا کہہ کے مجھے تیاری کا حکم بھی دے دیا۔

یہ کون لوگ تھے، ظالم، بے درد، بے رحم۔ رات کو میں نے ابا جی سے صاف کہہ دیا کہ اگر آپ نے مجھے زبردستی بھیجا تو میں بھاگ کے لاہور چلی جاؤں گی۔ وہاں کوٹھے پہ بیٹھ جاؤں گی اور اپنے ہر گاہک کو بتاؤں گی کہ فلاں بڑے زمیندار کی بیٹی اور فلاں فلاں مشہور افراد کی بہن ہوں۔ اس پر ابا جی رکے مگر دو چار دن بعد وہ دو بزرگوں کو لے آ دھمکا۔ ابا جی نے سارا ملبہ مجھ پر ڈالا اور میں یہ جانتی تھی کہ فطرت کبھی نہیں بدلتی۔

میں نے صاف جواب دے دیا۔ جاتے ہوئے کہنے لگا کہ طلاق تجھے میں بھی نہیں دوں گا تا کہ تو اپنے یار سے شادی کر سکے۔ میں نے کہا دس سال نہ دے بیس سال نہ دے۔ میری تو سترہ برس عمر ہے، اپنی فکر کر۔ دس سال بھی جئے گا یا نہیں۔ خیر چار ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ طلاق بھیج دی، کہ جہاں دوسری شادی کر رہا تھا، ان کا مطالبہ تھا۔

میری کلاس فیلوز اس وقت سیکنڈ ائر میں پہنچی تھیں۔ تو بھائی، میں نے ادھر ادھر سے کتابیں اکٹھی کر کے ان کے ساتھ ہی انٹر میڈی ایٹ کا امتحان دیا اور فرسٹ ڈویژن میں پاس بھی کر لیا۔ ”

(۔ ۔ جاری ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments