شیطان بھی شرما جائے


وطن عزیز کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ جو اب نہ تو اسلامی رہا اور نہ ہی جمہوریہ۔

جمہوری ملک میں جمہور کی نمائندگی ہونا ضروری ہے، مگر یہاں جمہور کی نہیں بلکہ اشرافیہ کی، یا یوں کہنا چاہیے کہ چند خاندانوں کی اجارہ داری اور حکمرانی ہے۔ جو نسل در نسل سیاست کے میدان کو اپنی موروثی جاگیر سمجھتے ہیں۔ رہی بات اسلامی کی تو نہ یہاں کا قانون شریعت اسلامی کے عین مطابق ہے اور نہ ہی معاشرہ۔ اب معاشرہ تو اس نہج پر آ گیا ہے کہ یہود و ہنود کیا شیطان خود بھی شرما جائے۔ ایسے ایسے کارہائے نمایاں بلاخوف و خطر انجام پذیر ہو رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔

عدل و انصاف اسلامی معاشرے میں اکائی کی حیثیت رکھتا ہے، یہاں نہ عدل ہے اور نہ ہی انصاف۔ بچیوں اور خواتین سے جنسی زیادتی، بچوں سے بد فعلیاں، راہ چلتی ماں بہنوں کی ہتک عزت، ان پر جملے کسنا، طرح طرح کی باتیں کرنا، عزتوں کو نیلام کرنا، نازیبا ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرنا، اور پھر ان سے اپنی جنسی ہوس پوری کرنا، یہ اسلامی معاشرہ کے اصول تو کبھی بھی نہیں رہے؟

جب قانون کی عملداری ختم ہو جائے، کوئی خوف نہ ہو، پتہ ہو کہ پکڑے گئے تو رشوت دے کر چھوٹ جائیں گے۔ وکیل اور ججز کیا پورا نظام قانون خرید لیں گے تو ایسا معاشرہ جنگل سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ اس کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معانی نہیں رکھتا۔ ایسے معاشرے کو، ایسی ریاست کو دفن ہونے میں دیر نہیں لگتی، جس میں کوئی پرسان حال نہ ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہی ہوتا رہا ہے اور تا ابد یہی ہوتا رہے گا۔

معصوم زینب کو جب ہوس کی بھینٹ چڑھایا گیا تو تو اس وقت میں نے اپنے کالموں کے ذریعے مطالبہ کیا تھا کہ اس ملزم کو نشان عبرت بنایا جائے، بیچ چوراہے پر تختہ مشق بنا دیا جائے مگر بھلا ہو ہماری معزز عدالتوں اور ان کے منصفوں کا جنہوں نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا اور رہی سہی کسر ہماری انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں نے پوری کردی۔ جس کا خمیازہ آج تک ہماری معصوم کلیاں بھگت رہی ہیں۔

سزائے موت، اپیل پر عمر قید اور پھر صدر مملکت کی صوابدید پر بری یا سزا کم کردی جاتی ہے۔ تو کسی کو کیا خوف ہو۔ ہمارے یہاں نسیان (بھولنے ) کا مرض تو ویسے ہی لاحق ہے۔ کسی بھی واقعے کو دو چار ہفتوں تک ہی یاد کیا جاتا ہے پھر بھول جاتے ہیں۔ سرفراز قتل کیس ہو یا، شہزاد مسیح، منیب مغیث بھائیوں کو جھوٹے الزام میں شہید کرنا، یا مقصود اور نقیب اللہ محسود کا جعلی مقابلہ ہو، سانحہ ساہیوال ہو یا سانحہ موٹروے، کیا کسی مجرم کو ممکنہ سزا ہوئی ہے؟ ام رباب کا کیس کہاں تک پہنچا، کیا خدیجہ کو انصاف مل سکا؟ جواب یقیناً ”ناں“ میں آئے گا تو قانون کا خوف اور قانون کی عمل داری کہاں ہے؟

کفر کا نظام تو قائم رہ سکتا ہے مگر وہ نظام کبھی قائم نہیں رہ سکتا جس میں ظلم، نا انصافی، عدل و انصاف کا فقدان، امیر اور غریب کے لئے الگ قانون ہو۔ سب وقت کی بات ہے، وقت بدلتا ضرور ہے، مگر جب وقت بدلتا ہے تو تخت اور تختہ سب الٹ جاتے ہیں۔

ایک بہت ہی قریب جاننے والے پانچوں وقت کے نمازی، صدقہ و خیرات کے شیدائی، تبلیغی ہیں۔ ہر وقت زبان پر ذکر و اذکار رہتا ہے۔ بات کریں تو قرآن و سنت موضوع رہتا ہے۔ مگر جب حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کا ارشاد پڑھتا ہوں کہ وہ لین دین میں کیسا ہے؟ تو منٹوؔ یاد آ جاتا ہے۔

منٹو کہتا ہے : ”جس طرح ایک طوائف اپنی شناخت چھپانے کے لئے برقعہ پہن لیتی ہے اسی طرح نوسرباز دھوکے باز، فراڈیے داڑھی رکھ لیتے ہیں۔“

ہائے قسمت۔ میرا وطن صدقہ و خیرات کرنے میں سرفہرست مگر ایمانداری میں 146 واں نمبر۔ میں تو کہتا ہوں کہ ایمانداری میں ہمیں گولڈ میڈل ملنا چاہیے مگر کوئی دیتا ہی نہیں وہ بات الگ ہے۔

شیطان نے اللہ رب العزت سے قسم کھائی کہ میں تیرے بندوں کو سیدھی راہ سے بھٹکاؤں گا۔

جب وہ پاکستانی قوم کو دیکھ کر کہتا ہوگا کہ یہ لوگ تو خود بخود میری پیروی تو کیا مجھ سے بھی دو قدم آگے چل رہے ہیں، تو یقیناً اس کا سینہ فخر سے چوڑا ہوجاتا ہوگا۔

آج کل اس کے چیلے سیاہ ست دانوں، افسر شاہی، قانون کے رکھوالے اور عثمان مرزا، مفتی عزیز، مفتی قوی جیسے کرداروں کے روپ میں موجود ہیں۔ جب تک معاشرے کو انصاف کے ترازو میں نہیں تولا جائے گا، حق کو حق اور باطل کو باطل نہیں سمجھا جائے گا، عدل عوام کی دہلیز تک نہیں پہنچے گا، کلمہ حق کہنے پر فخر نہیں کیا جائے گا، جہاد کی فرضیت اور اہمیت کو نہیں سمجھا جائے گا، اس وقت تک نہ ہی ہماری بہن بیٹیاں محفوظ ہوں گی، نہ ہی ریاست اور اس کی رعایا۔

معاشرہ فرد سے بنتا ہے، فرد کو سدھرنا ہوگا۔ خدا بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک خود اسے خیال اپنی حالت بدلنے کا نہ ہو۔ بے ایمانی، بے حیائی، بے ضمیری، رشوت ستانی، حرام خوری، قبضہ گیری، یتیموں بیواؤں کا مال کھانا، زکوٰۃ فطرات کے پیسوں سے عیاشی کرنے کے دلدل سے جب تک خود کو نہیں نکالیں گے یہ معاشرہ کبھی اسلامی بن سکتا ہے اور نہ ہی جمہوری۔ لاکھ دعوے کر لیں، لاکھ وعدے کر لیں، شرمندہ تعبیر ہونے کے لئے خود سے جہاد ناگزیر ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments