جنسی جرائم میں آپ کسے قصوروار سمجھتے ہیں؟


کچھ جرائم اتنے گھناؤنے اور تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ وہ صرف متاثرہ فرد یا فریقین کو ہی خوفزدہ یا زخمی نہیں کرتے بلکہ معاشرے کے ایک بڑے حصے کی ذہنی صحت یا سکون پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لاہور میں 100 بچوں کے قتل کا واقعہ ایسا تھا کہ اس زمانے میں نیوز چینل نہیں تھے مگر اس جرم اور تشدد کی نوعیت نے اخبار پڑھنے والوں کو بھی اذیت میں ڈال دیا تھا۔ بحیثیت ایک خاتون، ایک ماں اور خاص طور پر اسلام آباد میں اکثر ہوٹل میں ٹھہر چکے خاندان کی فرد کے طور پر میرے لیے، اور کئی لڑکیوں کے لئے حالیہ لڑکا لڑکی جنسی تشدد کیس رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ جن دنوں یہ ویڈیو وائرل ہوئی، ان دنوں میں نے کئی لڑکیوں، خصوصاً نوکری پیشہ مضبوط لڑکیوں کو بھی تقریباً ہل جاتے دیکھا۔

بہت سی لڑکیوں نے اپنے خوف کا اظہار کیا، کچھ نے تو یہاں تک لکھا کہ اب ان کی اولین ترجیح پاکستان چھوڑ کر باہر ملک منتقلی ہے کیونکہ وہاں کم از کم جان و مال کی حفاظت حکومت کے ذمہ ہوتی ہے اور کسی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں بھی مجرم قرار واقعی سزا کے دہانے تک تو پہنچ جاتے ہیں۔ یہ واقعہ معاشرے کو خوف میں مبتلا کرنے والے، بااثر افراد کی ایک طرح سے validation بھی تھی کہ بااثر افراد اتنے عرصے تک اپنے خوف کو قائم رکھے بلیک میلنگ کرتے رہے اور پولیس، انتظامیہ کسی کو خبر نہ ہوئی اور ابھی تو عدالت میں آنکھوں دیکھے جرم کو بھی ثابت کرنا ہو گا جس میں سوالوں کی توپوں کا رخ نوجوان لڑکا، لڑکی اور ان کی تنہائی پر ہو گا نہ کہ انکی امان، عزت اور تنہائی میں خلل ڈالتے ان وحشیوں کی جو moral police  بن کر کمرۂ عدالت میں کئی افراد کے دل کی آواز بن جائیں گے کہ لڑکا اور لڑکی وہاں کر ہی کیا رہے تھے؟ وہ تو نامحرم تھے۔ پہلے بتایا گیا کہ مجرم شراب کے نشے میں تھا۔ کل ایک شریک ملزم کے بارے میں بتایا گیا کہ جی وہ تو حافظ قرآن ہے۔ آگے سے فرمان ہوا کہ ہاں ہاں، اس نے تو سورۃ یسین سنائی ہے۔

ایسی باتیں ان سب لوگوں کیلئے بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں جو خود اپنے عقائد کی عزت کرتے ہیں۔ انہیں ذہنی اذیت ہوتی ہے کہ حافظ قرآن تھا تو 3 گھنٹے کسی کا ستر تار تار ہوا، ان کا مذاق بنتا، انہیں گڑگڑاتا دیکھتا رہا؟ حافظ قرآن ہے تو کیا گناہوں سے مبرا ہو گیا؟ ہم تو وہ بد قسمت ہیں کہ ہمارے ان ہی مدارس میں جہاں بچوں کے سینوں میں قرآن محفوظ کیا جاتا ہے وہاں تنہائی اور رات کے اندھیرے میں بچوں کی روحیں چھلنی کی جاتی ہیں۔

سوال ان سے کیوں نہیں ہوتا جو مدرسے کی چھت پر بچے کی برہنہ لاش سجا دیتے ہیں؟ کیا وہ بھی عدالت میں تلاوت کر کے جداگانہ حیثیت پاتے ہیں؟ مجرم، شریک مجرم یا اکسانے والا چاہے امام، مولوی، سند یافتہ علامہ ہی کیوں نہ ہوں، وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہونے چاہییں۔

احتجاج یا غم و غصہ صرف اس لیے نہیں کہ مذہب، اخلاقیات یا مشرقی ثقافت کے نام پر آپ کسی کی ذاتی جگہ، تنہائی یا خلوت میں مخل ہوتے ہیں اور سماج خلل ڈالنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ moral policing یا جںری اخلاقی رضاکار کسی کا گریبان پکڑیں، مار پیٹ کریں یا خود جنسی تشدد کریں، ان پر سزا پہلے لاگو ہونی چاہیئے۔

 اس کے ساتھ ہی ادراہ “ہم سب” سے بھی درخواست کہ انتہائی حساس واقعات جس میں متاثرہ فریقین کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگانا مشکل ہو، ایسے میں الفاظ کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا جائے۔ جو جملہ میں نے نیچے دیے گئے شاٹ میں سرخ رنگ سے خط کشیدہ کیا ہے اسے کوئی تعلیم یافتہ، حساس انسان کیسے پڑھے گا جب اسے یہ اندازہ ہو کہ اس طرح کے الفاظ سےکسی اور کے زخموں پر نمک بھلے نہ چھڑکا جائے مگر لکھنے والے کو بے حس سمجھنا آسان لگے گا۔ ننگے اور برہنہ کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے مگر الفاظ کا چناؤ کسی کو بےعزت ہونے یا تمسخر کانشانہ بننے کا احساس زیادہ بھی دلوا سکتا ہے اور کم بھی۔ کھیلتے رہے کے بجائے “استحصال” یا “غلط نیت سے چھوتے رہے” جیسے الفاظ سے یہ واضح ہو سکتا ہے کہ لکھنے والے کی ہمدردی واضح طور پر متاثرین کے ساتھ ہے اور تشدد اور جبر کو کلک بیٹ کی چادر کے ذریعے نارملائز (عام) نہیں کیا جا سکتا۔

جنسی تشدد چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو، کسی کے ساتھ زنا بالجبر ہو یا حرم میں کھڑی لڑکی کو کوئی بیہودہ طریقے سے ہاتھ لگاتا، نوچتا، رگڑتا گزر جائے، متاثرہ فریق کیلئے وہ ایک ذہنی اذیت ہے جسے ایک لمبے عرصے بعد بھی اسے شدت کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے جب ایسا تکلیف دہ واقعہ رونما ہوا ہو۔ بحیثیت معاشرہ ہمارا فرض ہے کہ ایک دوسرے کی تربیت ان خطوط پر بھی کریں کہ جرم کا، متاثرین کا اور مجرم کا ذکر کن الفاظ میں کرنا ہے، کس کی شناخت کو چھپا سکتے ہیں، کتنے پر اثر الفاظ میں بڑوں اور چھوٹوں کو سمجھا سکتے ہیں اور کون سی عوامل لوگوں میں تشدد کو رائج کرتے جا رہے ہیں۔ ان پر کڑی نظر رکھنا ہے۔

کسی بھی صورت میں واقعہ اور ملزم/مجرم کی وکالت نہیں کرنی اور کسی بھی سماجی روایت کے مطابق متاثرین کو لیبل لگا کر ذمہ دار نہیں ٹھہرانا۔ جرم کا ذمہ دار صرف اور صرف مجرم ہوتا ہے۔ جس طرح ملک میں بلیک میلنگ، سائبر کرائم اور جعلی آئی ڈیز پر قوانین کو مزید تیز تر اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح لوگوں کو خود بھی آپس میں بیٹھ کر یہ طے کرنا ہوگا کہ جرم، مجرم اور متاثرین میں سے کس کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments