ہائے سفیدپوش نوید عالم ۔۔۔


دو ہزار تیرہ میں پاکستان فٹبال فیڈریشن کے ایونٹ کے لئے فٹ بال ہاؤس جانے کا اتفاق ہوا تو بڑی شاندار بلڈنگ دیکھ کر عش عش کر اٹھا۔ ایونٹ ہونے کے بعد اس وقت کے پی آر او صاحب فردا فردا ہر صحافی کے پاس گئے اور انہیں درخواست کی کہ چائے پانی پی کر جائیے گا، تو میرے ساتھی رپورٹر نے کہا کہ دانیال رک جا چائے پی کر جانے یہ صحافیوں کی بڑی اچھی تواضع کرتے ہیں اور بلاشبہ چائے نما برنچ کی بات ہی کیا تھی۔ اب نہ تو پاکستان فٹبال ٹیم کے کپتان سے لے کر کھلاڑیوں اور ان کی پرفارمنس کے بارے میں مجھ سمیت عام آدمی کو اندازہ اس وقت تھا نہ ہی اب ہے۔ پاکستان میں وہ ادارے جو کام دھیلے کا نہیں کرتے ان کے ٹھاٹ باٹ شاہانہ ہوتے ہیں، بھائی عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے تو آخر کہیں نہ کہیں خرچ تو کرنا ہی ہوتا ہے نہ، کھلاڑی بے شک رل جائیں۔

میں فیس بک پر اپنے کولیگ ساجد ناموس کی سینئر سپورٹس جرنلسٹ ثناء اللہ خان کی جانب سے بیان کردہ نوید عالم کے حالات زندگی کے حوالے سے پوسٹ پڑھ رہا تھا۔ اس سے بڑی کیا بدقسمتی ہو سکتی ہے کہ کھلاڑی وزیراعظم کی حکومت میں ہاکی فیڈریشن کا صدر سرکاری خرچے پر بیجنگ سے علاج کرواتا ہے مگر ایک اولمپیئن ہیرو نوید عالم جس نے پاکستان کو ہاکی میں عالمی چیمپئن بنایا اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے چل بستا ہے۔ ثناء اللہ خان کے مطابق نوید عالم وضع دار شخصیت کے حامل انسان تھے۔ ان کے مطابق جب چلتے پھرتے نوید عالم کو اچانک ہی جب کینسر جیسے موذی مرض کا علم ہوا تو انہوں نے کسی کا احسان لینا نہ چاہا مگر ان کی بیٹی نے جب علاج کے لئے سرکاری دفاتر کے چکر کاٹے اور کوئی شنوائی نہ ہوئی تو شاید اسی غم سے ہی اس بے حس قوم اور حکومت کے لئے اعزازات سمیٹنے والا چل بسا۔

سپورٹس جرنلسٹ کرار ہمایوں بتاتے ہیں کہ والد کی بیماری کا علم ہونے کے بعد ان کی بیٹی نے ہاکی فیڈریشن کا در کھٹکھٹایا اور علاج معالجے کی سہولیات کا مطالبہ کیا، مگر ہاکی کا بیڑا غرق کرنے میں مرکزی کردار ادا کرنے والی ہاکی فیڈریشن اور اس کے افسران کے پاس بات سننے کا بھی وقت نہیں تھا۔ یوں ایک ہیرو کی بیٹی لاچارگی کے عالم میں ناکام لوٹ آئی جس نے وضع دار نوید عالم کو صدمہ پہنچایا۔ جب یہ خبر میڈیا پر آئی تو سندھ حکومت نے اخراجات اٹھانے کا اعلان کیا، جس کے بعد پنجاب کی بے حس حکومت کو بھی ہوش آیا۔ مگر اعلانات اور فنڈز کی فراہمی میں بیوروکریسی کی مہربانی سے ہونے والی تاخیر اور سرکاری دفاتر کے دھکوں جیسا طویل انتظار کوئی سفید پوش کیسے برداشت کر سکتا ہے۔

بلڈ کینسر اور ہاکی فیڈریشن کی بے حسی سے نوید عالم اتنے ٹوٹ چکے تھے کہ شوکت خانم ہسپتال میں ہونے والے کیمو تھراپی کے پہلے سیشن میں ہی داغ مفارقت دے گئے۔ کرار ہمایوں کے مطابق نوید عالم سیدھے سادے اور دو ٹوک انسان تھے، ان کا سچ موجودہ فیڈریشن کو چبھتا تھا، نوید عالم کی وطن سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ڈاکٹروں کی جانب سے ان کو باہر جاکر علاج کروانے کا مشورہ دیا گیا مگر انہوں نے منع کر دیا۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں کینسر کے علاج معالجہ کے لئے وہ سہولیات نہیں ہیں جو امریکہ برطانیہ جیسے ممالک ہیں وہاں کیمو تھراپی یا ریڈیالوجی کو آخری علاج کے طور پر لیا جاتا مگر یہاں علاج کا آغاز ہی کیموتھراپی سے کیا جاتا یہ دیکھے بغیر کہ آیا مریض اس قابل بھی ہے کہ کیمو کو سہار پائے گا کہ نہیں۔ انیس سو چورانوے میں پاکستانی ٹیم کو ورلڈ کپ دلوانے والے نوید عالم ہاکی کے حالات پر کڑھتے رہے تھے۔

ثناء اللہ خان اور کرار ہمایوں دونوں کے بقول نوید عالم ہاکی کو دوبارہ اس عروج پر دیکھنا چاہتے تھے جو ان کے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے مرتے دم تک نہ صرف تجاویز دیں بلکہ ہاکی فیڈریشن کو جگاتے رہنے کا کردار بھی ادا کیا۔ مگر المیہ یہی ہے کہ یہاں پر سچ بولنے والے کو ہی برا بھلا کہا جاتا اور اسی سچ بولنے کے جرم کی پاداش میں اس کا جینا دو بھر کر دیا جاتا۔ بحیثیت قوم بھی یہ ہمارے معاشرتی زوال کی نشانی ہے کہ ہمیں ہمارے ہیروز کی قدر ان کے مرنے کے بعد ہوتی ہے، جس وقت وہ اپنی وضع قطع اور سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے برے سے برے حالات کو بھی خندہ پیشانی سے جھیل رہے ہوتے ہیں اگر تب ہی ان کے لئے کچھ کر لیا جائے تو بانجھ ہوتے ہوئے کھیلوں اور دیگر شعبوں میں پھر سے لیجنڈز جنم لینا شروع کردیں گے۔ سفید پوشی کا بھرم رکھتے نوید عالم تو سفید کفن میں شیخوپورہ میں آسودہ خاک ہو گیا، مگر ابھی بھی وقت ہے کہ کسی اور لیجنڈ کے مرنے کا انتظار کرنے کے بجائے ہمارے لیجنڈز کے لئے ایک جامع پالیسی مرتب کی جائے تاکہ کوئی اور سفید پوش جینے کی عمر میں موت کے منہ میں نہ چلا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments