مذہبی رواداری : ایک نیا سوشل کانٹریکٹ۔ کیا سمجھوتہ ممکن ہے؟ 


پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف مذہب کو بڑے منظم طریقے استعمال کیا گیا ہے۔ جس کی بہت سی وجوہات سیاسی بھی ہیں جن کی وجہ سے اس کا تدارک مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ آج سے کچھ ماہ قبل خیبر پختون خواہ کی عدالت میں ایک شخص کو توہین مذہب کے الزام کی پیروی کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ آج سے چند روز قبل صادق آباد میں توہین مذہب کے مقدمے میں عدالت سے بری ہونے کے باوجود ایک پولیس کانسٹیبل نے ملزم کو کلہاڑیوں سے کاٹ کر مار دیا۔

یہ مثالیں شدت پسندی کے اظہار کے طور پہ دی ہیں حالانکہ دوسری مثال میں مرنے والا مسلمان تھا۔ اور ماورائے عدالت قتل کی یہ ایک عام سی شکل ہے۔ مذہب کے نام پہ عدم تشدد ہمارے معاشرے میں پچھلے تیس برسوں میں بڑی شد و مد کے ساتھ پروان چڑھا ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے لیے مذہب کے اعتبار سے اکثریتی افراد کے جذبات کو مد نظر رکھ کر مذہبی عدم برداشت پہ مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات سیاسی قد کاٹھ میں اضافے کے لیے ایسی پر تشدد کارروائیوں کی حمایت تک کی جاتی ہے۔

اسی طرح ہمسایہ ملک بھارت میں مسلمانوں کو گائے کے ذبح کرنے کے جرم میں مار دینا ایک عام سا فیشن بن رہا ہے۔ بعض ریاستیں اب گائے کے ذبح کرنے پہ موت کی سزا بطور قانون نافذ کرنے کی تحریک بڑھا رہی ہیں۔ بی۔ جے پی کی حکومت میں ایسے واقعات میں خصوصی طور پہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو سیاسی اعتبار سے اس کا فائدہ بھی ہوا ہے۔ ہمارا میڈیا بھارت میں ایسے اقدام کو ہندو انتہا پسندانہ جنون کے مظہر کے طور پہ پیش کرتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ہونے والے ایسے واقعات کو اس شدت سے کوریج نہیں مل پاتی۔

عمل اور ردعمل مقدار میں برابر اور سمت میں مخالف ہوتے ہیں یہ بات شاید کسی غیر مسلم سائنسدان نے بیان کی تھی اس لیے اس پہ کبھی ہم نے غور و فکر کر کے اپنے مسائل کا حل نہیں ڈھونڈا۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مذہبی رواداری کی حد بیان کرتے ہوئے اسلام کے پیرو کاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ ”تم جھوٹے خداؤں کو بھی گالی مت دو“ وجہ بھی اس کی خود ہی بیان فرما دی کہ ”کہیں اس کے جواب میں وہ تمہارے سچے رب کو گالی نہ دے دیں“ یعنی کسی کے خدا کا جھوٹا ہونا بھی اس کی تحقیر کا باعث نہیں بن سکتا۔

نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا ”کم بخت ہے وہ شخص جو اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے“ صحابہ اکرام نے عرض کی یا رسول اللہ ایسا کون ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا؛ جو دوسرے کے ماں باپ کو گالی دے اور بدلے میں اپنے ماں باپ کو گالی کا باعث بنے ”قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت اور نبی مکرم ﷺ کے اس فرمان کو اگر مذہبی رواداری کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہم ایک انتہا پسندانہ رویے کو صدیوں سے پروان چڑھاتے نظر آئیں گے۔

توہین رسالت ﷺ، توہین مذہب، یا توہین شعار مذہب کے ارتکاب پر موت کی سزا ہماری دینی غیرت ہے۔ تو کیا یہ حق دوسرے مذاہب کو حاصل نہیں ہو سکتا؟ اگر مقدس ہستیوں کی توہین پہ اتنی بڑی سزا دی جا سکتی ہے تو کسی مذہب کے خدا کو ذبح کرنے پہ امن کی توقع کرنا کسی طور پہ منصفانہ عمل ہے؟ کیا کسی کے مذہبی جذبات کی قدر کیے بغیر اپنے جذبات کی قدر کا مطالبہ کسی طور بھی قابل فہم ہے؟

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا مشہور مقدمہ علم الدین شہید بھی اسی طرز کی سوچ سے جنم لیا کیونکہ وہ کتاب جس میں نبی کریم ﷺ کی زندگی پہ کیچڑ اچھالنے کی مذموم کوشش کی گئی تھی اور جس کے بدلے میں اس کتاب کا پبلشر راجپال قتل ہوا تھا۔ علم الدین شہید سے قبل عبدالعزیز اور خدا بخش نامی دو مسلمانوں نے بھی اسے قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ بچ گیا تھا۔ عبدالرحمان نامی ایک شخص نے غلط شناخت ہونے پر کسی اور شخص کو قتل کر دیا تھا۔

پہلے دونوں مسلمانوں کو سات سات سال جبکہ بعد والے کو چودہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ سب واقعات ایمان کی روح کو تازہ کرنے کے لیے سنائے جاتے ہیں لیکن کبھی کسی محفل کی زینت یہ گفتگو نہیں بنی کی اس کتاب کے چھاپنے کا محرک کیا تھا؟ وہ کتاب بھی قرآن پاک کے اسی اصول سے انحراف کرنے کی صورت میں دیکھنے کو ملی کیونکہ وہ کتاب بھی ایک ردعمل تھا۔ کسی مسلمان نے ہندووں کے اوتار رام کی بیوی سیتا کو بازاری اور بدکار عورت ثابت کرنے کے لیے ایک کتابچہ لکھا جس کا نام تھا ”سیتا کا چینالا“ ۔ اس وقت کے علما نے اسے معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا اور بعض نے اسے منہ کا چسکا سمجھا۔ لیکن یہ بھول گئے کہ ردعمل کس ہستی پہ آئے گا اور کتنے دل ٹوٹیں گے۔

کچھ برس قبل ایک امریکی عیسائی پادری ٹیری جونز نے ایک بند کمرے میں قرآن مجید کو جلا دیا۔ اس نے قرآن جلاتے ہوئے ویڈیو بھی ریکارڈ کی اور اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پہ وائرل کر دیا۔ وہ ویڈیو آج بھی یو ٹیوب پہ موجود ہے۔ اس نے اپنے اس عمل کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مسلم ممالک میں مظاہروں کے دوران امریکی پرچم کو نظر آتش کیا جاتا ہے جو کہ ایک غیور قوم کی عظمت کی علامت ہے اس کے ردعمل کے طور پہ میں ان کی مقدس کتاب جلا رہا ہے ہوں۔

قرآن جلانے کے اس عمل پر امت مسلمہ میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی اور کئی ممالک میں یو ٹیوب پہ پابندی تک لگا دی گئی اور امریکہ مخالف مظاہروں میں مزید شدت آ گئی۔ لیکن کسی نے ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق کہیں نہ کہیں ہم بھی اس قرآن جلانے کے واقعہ کے ذمہ دار ہیں۔

پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں اپنی ملی ذمہ داری سمجھتے ہوئے امریکی پرچم نظر آتش کرنا فرض عین سمجھتی ہیں۔ تو کیا ان میں سے کوئی قرآن جلانے کے واقعے کے عمل کو اپنے عمل کا رد عمل ماننے کو تیار ہے؟

دنیا میں مسلمانوں کی آبادی کے تقریباً تھوڑے بہت فرق کے ساتھ برابر آبادی ہندوں کی بھی ہے۔ ہندو مذہب میں گائے کو خدا کا درجہ حاصل ہے۔ ہم صدیوں ساتھ رہے اس مسئلے پر کوئی باہمی اتفاق رائے پیدا نہ کر سکے اس کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود حکمران تھے۔ اس لیے انہیں سرکاری سرپرستی میں کچھ بھی کرنے کا پرمٹ حاصل ہوتا تھا۔ لیکن پھر وقت نے کروٹ لی اور مسلمان اپنی عیاشی کی بدولت محکوم ہوئے مگر اطوار بدستور حکمرانہ رکھے۔ اللہ پاک نے جس مذہبی رواداری کا درس دیا کیا اس پہ عمل درآمد کا سوچنا بھی آج کے معاشرے میں ممکن ہے؟ کیا یہ انتہا پسندی نہیں؟

عید الضحی کے موقعہ پہ صرف گائے ہی کی قربانی کا حکم تو کسی طور ہمارے مذہب نے نہیں دیا۔ کئی حلال جانور ایسے ہیں جنہیں ذبح کر کے گوشت کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم اجتماعی طور پہ کم و بیش 80 کروڑ کے لگ بھگ ہندووں کے مذہبی جذبات کی قدر کرتے ہوئے گائے کی قربانی نہ کرنے کا اعلان کر دیں؟ ایسا کرنے سے مسلمانوں کے مثبت امیج کو ابھرنے میں مدد ملے گی۔ امام خانہ کعبہ کو جرات کو ثبوت دیتے ہوئے خطبہ حج میں اسے بین الاقوامی مذہبی رواداری کے تناظر میں گائے کی قربانی سے منع کر دیں۔

اگر گائے کی کی ذبح پہ کسی ہندو کے ہاتھوں کوئی ہندوستانی مسلمان مارا جائے تو یہ عمل جنونی انتہا پسندانہ ہو گا۔ اسی وقت کسی مسلمان کا کسی توہین کر دینے والے کو قتل کر دینا کیسے احسن ہو سکتا ہے؟ کیوں کہ مذہب چاہے کسی کا بھی ہو وہ ایک جیسی ہی کمٹمنٹ مانگتا ہے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں عمل ہی درست ہوں گے۔ ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے جس میں رواداری کی بنیاد پہ معاشرے کو از سرے نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

مذہب کوئی بھی انتہا پسندی کا درس نہیں دیتا مگر اس کی تشریح جو کہ خالصتاً انسانی عقل کا شاہکار ہوتی وہ اس عنصر سے خالی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے محض عقلی تشریح کی بنیاد پر معاشرے کو مذہب کا غلام بنا دینا معاشرتی موت سے ہرگز کم نہیں ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے زیادہ مذہب کی جانچ کسی کو نہیں ہے اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺمذاہب کے مابین تصادم کی بجائے لکم دین والدین کہہ کر مذہب ہر ایک کا نجی معاملہ قرار دیں تو ہمیں بھی اسی اسوہ حسنہ پہ چلتے ہوئے مذہبی رواداری کو اپنا شعار بنائیں اور ایک دوسرے سے سمجھوتا کرنا سیکھ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments