ہم ایک جذباتی قوم ہیں


نکاح کی تقریب میں نکاح ہونے سے کچھ دیر قبل اسٹیج پر کھڑے قاضی صاحب نے بلند آواز میں کہا کہ اگر کسی کو نکاح پر اعتراض ہے تو ابھی بتا دے۔ آخری قطار میں سے ایک خوبصورت نوجوان لڑکی گود میں بچہ لیے اسٹیج کے نزدیک آ گئی۔ اس کو دیکھتے ہی دلہن نے دلہا کو تھپڑ مارنے شروع کر دیے۔ دلہن کا باپ بندوق لینے اندر کمروں کی طرف دوڑا۔ دلہن کی ماں اسٹیج پر ہی بے ہوش ہو گئی۔ سالیاں دولہا کو کوسنے لگیں اور سالے آستینیں چڑھانے لگے۔

اس دوران قاضی نے لڑکی سے پوچھا آپ کا کیا مسئلہ ہے؟ لڑکی بولی پیچھے ٹھیک سے آواز نہیں آ رہی تھی اس لیے آگے آ گئی ہوں تاکہ آپ کی بات سن سکوں۔ بظاہر یہ ایک دلچسپ اور مضحکہ خیز واقعہ ہے اور جو بھی اس کو پڑھتا ہے مسکرا دیتا ہے۔ مگر اس پر مسکرانے سے زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری پوری قوم ہی ہر وقت ہیجانی اور جذباتی کیفیت میں رہتی ہے۔

پوری قوم انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی حیثیت تک ہر معاملے پر ایک خاص جذباتی قسم کے رویے کا مظاہرہ کرتی ہے۔ کوئی خوشی کا موقع ہو یا پھر دکھ کی گھڑی ہو ہر دو صورتوں میں جذباتی رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ جذباتی کیفیت فائدہ مند بھی ہوتی ہے مگر ہر وقت ایک ہی طرح کے جذبات کا اظہار فائدہ کی بجائے نقصان کا موجب بھی بنتا ہے۔ بھٹو دور میں تحریک نظام مصطفی چلی اور خوب چلی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گویا اسلام اور کفر کے درمیان جنگ چھڑ گئی لوگ مارے گئے زخمی ہوئے گرفتار ہوئے مگر تحریک کمزور نہیں ہوئی اور شدت پکڑتی گئی۔ حالات آئے روز بگڑتے گئے بالآخر مارشل لا لگ گیا۔ تحریک کی قیادت کرنے والوں میں سے اکثریت مجلس شوریٰ کی رکن بن گئی۔ تحریک ختم ہو گئی کسی نے سوال نہیں کیا کہ نظام مصطفیٰ کے نفاذ کا کیا ہوا۔

روس نے افغانستان میں مداخلت کرتے ہوئے اپنی فوجیں داخل کردیں۔ سرکاری سطح پر گویا خدانخواستہ اسلام کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ لادین کمیونسٹ روس کے خلاف ایک منظم طریقے سے مہم چلائی گئی۔ سادہ لوح قوم ایک بار پھر اسلام کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ امریکی ڈالرز کے اضافے کے ساتھ ساتھ ہماری قربانیاں بھی بڑھتی گئیں۔ ہمارے نوجوان اس جنگ میں افغان باقی کہسار باقی کے نعرے لگاتے ہوئے کود پڑے۔ لاکھوں گھر اجڑ گئے ایک ہولناک جنگ میں ہم اپنی جذباتی کیفیت کے سبب پھنس گئے اور اس سرخ ریچھ کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکتے رہے جس کو اس وقت ایک پختہ سڑک کے ذریعے پہنچنے کی آفر کر رہے ہیں۔ اگر سی پیک بنا کر ہی روس کو رسائی دینا تھی تو ایک مذہبی جذباتی جنگ کیوں لڑی گئی۔

اگر آپ میں سے کسی کو یاد ہوتو جس وقت ہندوستان میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا تو پوری قوم ایک دم جذباتی کیفیت میں باہر نکلی اور ہر اس مندر کو گرا دیا جو ان کو نظر آیا۔ مندر گراتے ہوئے جذباتی ہجوم نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ اس مندر کی عمارت میں کوئی سکول قائم ہے یا پھر کسی کا گھر بنا ہوا ہے۔ مقصد نفرت اور غصے کا اظہار کرنا تھا وہ کر دیا اور یہ نہیں دیکھا کہ یہ عمل ہمارے اپنوں کے لیے تکلیف کا باعث بن رہا ہے۔ بس ایک دھن سوار تھی کہ ایک بابری مسجد کی جگہ ہر مندر کو زمین بوس کر دیا جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہم نے جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے ہی ملک میں اپنی ہی املاک کو تاراج کر کے گویا دشمن سے بدلہ لے لیا۔

فرانس کے گستاخانہ خاکے ہوں یا پھر فلسطین کے مسلمانوں کا مسئلہ ہو یا پھر بوسنیا ہو ہر ایشو پر سوائے جذباتی ہونے کے ہم نے کچھ نہیں کیا۔ اپنی املاک کو نقصان پہنچایا، اپنی شاہراؤں کو بند کیا۔ ہڑتالیں کر کے ملکی معیشت کا نقصان کیا اور عام آدمی کی زندگی کو اجیرن کر کے رکھ دیا مگر اپنی اصلاح نہیں کی۔ یہ نہیں سوچا کہ ہم کسی اور کا نہیں صرف اور صرف اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ ایک کرکٹ میچ ہارنے پر کھلاڑیوں کی تصاویر پر جوتوں کے ہار لٹکائے میچ فکسنگ کا الزام لگانے والے اگلا میچ جیتنے پر اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ ان کو اپنا سابقہ رویہ یاد تک نہیں رہتا۔ ہم اتنے جذباتی ہیں کہ موٹر سائیکل چور کے پکڑے جانے پر اس مار مار کر ادھ موا کر دیتے ہیں بعض اوقات جان سے مار دیتے ہیں مگر ملکی خزانہ لوٹنے والوں کے دفاع کے لیے ذاتی تعلقات تک قربان کر دیتے ہیں اور رشتہ داریاں اور دوستیاں چھوڑ دیتے ہیں

اگر پوچھا جائے کہ پاکستانی قوم کا سب سے بڑا ایشو کیا ہے تو میرا جواب ہوگا کہ اس قوم کا بنیادی مسئلہ جذباتی رویہ ہے۔ اعتدال کی کمی ہے۔ اگر یہ قوم اعتدال کا راستہ اپنا لے تو اس سے شاندار قوم کوئی نہیں ہے۔ جذبات کے زیر اثر انتہاوں کو چھوتی ہوئی قوم جب بھی کرے گی اپنا نقصان ہی کرے گی۔ ایسا پہلی بار دیکھنے کو ملا ہے کہ واقعہ دنیا کے کسی اور ملک میں ہو اور نقصان ہم اپنا کرنا شروع کردیں اپنی معیشت کو نقصان پہنچانا شروع کردیں۔

اس طرح کا جذباتی رویہ نا تو ملک کے فائدہ میں ہے اور نا ہی قوم کے کسی کام آتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر جذباتی ہونے والوں کے اپنے ملک میں مسلک کے نام پر کسی کی جان لے لینا معمولی سی بات ہے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ فلسطین کی تقسیم کے خلاف جذباتی ہونے والی قوم کا جب اپنا ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تو ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ یورپ اور امریکہ کو رات دن برا بھلا کہنے والوں کو جب ان ممالک میں جانے کا موقع ملتا ہے تو یہ وہاں کے قانون پر عمل کرنے والے بہترین شہری ثابت ہوتے ہیں۔ کمیونسٹ روس کے خلاف جہاد کرنے والی قوم کمیونسٹ چین کی دوستی پر فخر کرتی ہے اور پاک چین دوستی کے حوالے سے بہت جذباتی بھی ہے۔ گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام پر جذباتی ہونے والوں کی ایغور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر خاموشی لمحہ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments