’بے نظیر بھٹو کو عارف نظامی کی خبر پر یقین نہ آیا مگر ان کی حکومت چلی گئی‘


عارف نظامی انگریزی روزنامے ’پاکستان ٹوڈے‘ کے بانی و مدیر تھے۔
ویب ڈیسک — پاکستان کے ممتاز صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی بدھ کو لاہور کے ایک مقامی اسپتال میں انتقال کر گئے ہیں۔عارف نظامی گزشتہ دو ہفتوں سے علیل تھے اور اسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ ان کے انتقال پر پاکستان کے سیاسی و سماجی اور صحافتی حلقوں نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

عارف نظامی کا شمار پاکستان کے ممتاز صحافیوں میں ہوتا تھا۔ وہ انگریزی روزنامے ‘پاکستان ٹوڈے’ کے بانی و ایڈیٹر تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں اخبارات کے مدیروں کی تنظیم ’کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز‘ (سی پی این ای) کے صدر بھی تھے۔ وہ اس عہدے کے لیے متعدد بار منتخب ہوئے۔

وہ 2013 میں نگران وزیر اطلاعات کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

عارف نظامی ’نوائے وقت‘ میڈیا گروپ کے بانی حمید نظامی کے بیٹے تھے۔ پاکستان ٹوڈے کے آغاز سے قبل وہ اسی گروپ کے انگریزی روزنامے ’دی نیشن‘ کے بھی مدیر رہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ سینئر صحافی، مدیر اور سیاسی تجزیہ کار عارف نظامی کے انتقال کا سن کر وہ رنجیدہ ہیں۔ ان کی دعائیں اور ہمدردیاں مرحوم کے اہلِ خانہ کے ساتھ ہیں۔

عارف نظامی اگرچہ روزنامہ اخبارات کے مدیر رہے لیکن انہوں ںے صحافتی کریئر کا آغاز بطور رپورٹر کیا تھا۔

خبر کی جستجو میں رہنے والا مدیر

سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عارف نظامی ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے۔ انہوں ںے صحافت میں ہمیشہ اپنے والد حمید نظامی کو آئیڈیل بنایا۔

مجیب الرحمن شامی نے بتایا کہ وہ اورعارف نظامی ایک ہی وقت میں صحافت کے شعبے میں آئے۔ عارف نظامی نے ایک رپورٹر کے طور پر صحافت کا آغاز کیا۔ اگرچہ صحافت انہیں وراثت میں ملی تھی لیکن انہوں نے اپنی محنت سے اپنا استحقاق ثابت کیا۔

ان کے مطابق عارف نظامی نے بطور رپورٹر مدیر، ٹی وی تجزیہ کار اور کالم نگار کے طور پر اپنا الگ اسلوب بنایا۔

انہون ںے کہا کہ عارف نظامی صرف باخبر نہیں بلکہ باکردار اور باوقار اخبار نویس تھے۔ ان کی سنجیدگی اور متانت کی وجہ سے ہر طبقے میں ان کے لیے احترام پایا جاتا تھا۔

مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ عارف نظامی انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ انہویں نے ’نوائے وقت‘ وقت کے گروپ کے انگریزی روزنامے ’دی نیشن‘ نیشن کا اجرا کیا۔ بطور ایڈیٹر انہوں نے دی نیشن کا الگ تشخص قائم کیا۔

سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ اگرچہ عارف نظامی ایک ممتاز مدیر تھے لیکن بنیادی طور پر وہ ایک رپوٹر کی طرح خبر کی جستجو میں رہتے تھے۔

’بے نظیر بھٹو کو یقین نہ آیا مگر عارف نظامی کی خبر سج نکلی‘

انہوں ںے بتایا کہ 1996میں جب اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے وزیرِ اعظم بے نظیر کی حکومت تحلیل کی تو عارف نظامی نے سب سے پہلے وہ خبر بریک کی تھی۔ یہ فیصلہ جس دن ہونا تھا اس دن کے اخبار میں عارف نظامی یہ خبر دے چکے تھے۔

مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ اپنی حکومت کی برطرفی کی خبر دیکھ کر بے نظیربھٹو کو بھی یقین نہیں آیا تھا کہ ان کی حکومت ختم ہونے والی ہے لیکن بعد میں انہیں وزارتِ عظمی سے ہاتھ دھونا پڑے۔

انہوں ںے کہا کہ عارف نظامی مدیر تو تھے ہی لیکن انگریزی محاورے کے مطابق عارف نظامی وہ ایسے رپورٹر بھی تھے جو خبر کو سونگھنے کی حس یعنی ’نوز فار نیوز‘ رکھتے تھے۔ انہوں ںے جب عمران خان اور ریحام خان کی شادی اور بعد میں طلاق کی خبر بریک کی تو اس کی بھی شروع میں تردید کی گئی لیکن عارف نظامی کچی بات نہیں کرتے تھے۔

انہوں ںے مزید کہا کہ عارف نظامی کو صحافت میں ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور سنجیدگی و متانت کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔

’آزادیٔ صحافت پر قدغنوں کے خلاف مؤثر آواز‘

پاکستانی اخبارات کے مدیروں کی تنظیم سی پی این ای کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر جبار خٹک کا کہنا ہے کہ پاکستان کے میڈیا ایڈیٹرز میں عارف نظامی کا مقام بہت نمایاں تھا۔ انہوں نے آزادی صحافت، انسانی حقوق اور جمہوری قدروں کے خلاف ہونے والے اقدامات پر ہمیشہ آواز اٹھائی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جبار خٹک کا کہنا تھا کہ عارف نظامی نے اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا جس کی وجہ سے انہیں نقصان بھی اٹھانا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ عارف نظامی کی قیادت میں سی پی این ای نے پاکستان میں صحافت پر مرئی اور غیر مرئی پابندیوں خلاف مؤثر کردار ادا کیا اور اس سلسلے میں متعدد رپورٹس شائع کی گئیں اورکئی ایکشن کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آزادیٔ صحافت پر قدغنوں کے خلاف عارف نظامی ایک مؤثر آواز تھے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments