عید قربان اور میری مزاحیہ شاعری


پٹواری باپ مہنگائی کے ہاتھوں سخت پریشان ہے۔ پورے گھر کا بوجھ اس کے ناتواں کندھوں پر ہے۔ بیٹا یوتھیا ہے۔ سارا دن فون ہاتھ میں اٹھائے سوشل میڈیا پر بنتے نئے پاکستان کو دیکھتا رہتا ہے۔ عید قریب آئی تو محلے میں بکروں کی چہل پہل بھی شروع ہو گئی۔ بیٹے نے دیکھا تو باپ سے ضد شروع کر دی کہ ہم بھی قربانی کریں گے اور ہمارا بکرا محلے کا سب سے مہنگا اور خوب صورت بکرا ہو گا۔ باپ نے سمجھانا چاہا تو بیٹے نے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے باپ سے کچھ یوں کہا :

خالی ہاتھ منڈی میں جانا نہیں ہے
سستے والا بکرا گھر لانا نہیں ہے
جب سنو گے قیمتیں تو یاد رکھنا
سب سے پہلے تم نے گھبرانا نہیں ہے

ہماری عادت ہے کہ ہمیں چیز ایسی چاہیے جس میں کسی قسم کا عیب نہ ہو لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے خود اپنے آپ کو اور اپنی چیزوں کو بے عیب بنانے کے کوشش نہیں کی۔ ہماری یہ عادت تمام شعبہ ہائے حیات میں پائی جاتی ہے حتیٰ کہ جب لوگ جب منڈی جاتے ہیں تو وہ بکرا خریدتے ہیں جس میں کوئی عیب نہ ہو۔ ہونا بھی چاہیے کہ کوئی بھی شرعی عیب قربانی کے مانع ہے لیکن کیا کسی نے آج تک سوچا ہے کہ جس دولت سے وہ بکرا خرید رہا ہے کیا وہ دولت بھی بے عیب ہے؟ یہ سرمایہ کسی کا خون نچوڑ کر یا کسی کا حق مار کر تو اکٹھا نہیں کیا گیا؟ اسی صورتحال پر ایک خریدار اور بکرے کی باہمی گفتگو پر اشعار ملاحظہ فرمائیے :

مرضی کے ریٹ مجھ سے نقد پائیے
لیکن مجھے تو بکرا بے عیب چاہیے
سن کر یہ بات جھٹ سے بکرے نے کہا
صاحب جی! چھوڑ کر اب نہ ایسے جائیے
مجھ کو خرید لو میں بے عیب ہوں مگر
پیسا بھی اب یہاں پر بے عیب چاہیے

تبدیلی کے شکار شدہ ایک صاحب بیگم کی فرمائش پر بادل نخواستہ بکرا خرید تو لیتے ہیں لیکن گھاس کا خرچا بچانے کے لیے بے تکے سوالات کرتے ہیں۔ ان کے سوالات اور بیچنے والے کے جوابات ملاحظہ فرمائیں :

دل سے تیرا بکرا سوشل تو نہیں
بکری سے کرتا کہیں چل تو نہیں
وزن اس کا گھاس بن بڑھتا ہے کیا
ڈالنے کو پاس ایک تل تو نہیں
سن کے یہ بولا قصائی صاحبو!
تم بظاہر دکھتے جاہل تو نہیں
ویسے ایسے کیسے یہ بڑھ پائے گا
بکرا ہی ہے بجلی کا بل تو نہیں

ایک صاحب بکرا خریدتے ہیں۔ عید کی نماز پڑھنے مسجد جاتے ہیں۔ وہاں خطیب صاحب یہ بیان کر رہے ہوتے ہیں کہ قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا سنت بھی ہے اور ثواب کا کام بھی ہے۔ خطیب صاحب کی تقریر کا اثر تھا یا قربانی کا جذبہ، وہ گھر آئے تو ان کے من میں یہی بات سمائی ہوئی تھی۔ چھری ہاتھ میں پکڑی اور بکرے کی جانب بڑھنے لگے۔ جونہی چھری بکرے کی گردن پر رکھی فوراً پیچھے ہٹ آئے۔ لوگوں نے پوچھا : کیا ہوا؟ صاحب فرمانے لگے :

کیسے اس پر چلاؤں چھری دوستو!
ڈر رہا میرا دل مجھ کو سمجھائیے
بے زباں کا گلا کیسے کاٹوں گا میں
آپ بولیں ناں کچھ، کچھ تو سمجھائیے
میں نے مچھر بھی اب تک نہ مارا کبھی
حوصلہ دیجیے حوصلہ دیجیے

یہ بات سن کر سبھی لوگ خاموش رہے اور مختلف انداز میں سوچنے لگے۔ اس صورتحال میں بکرے نے ایسا جواب دیا جو پورے معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ بھی ہے اور ہم سب کے لیے نصیحت بھی۔ جواب ملاحظہ فرمائیے :

درد ہوگا مجھے خون بہہ جائے گا
ایسی باتوں کو خاطر میں مت لائیے
جیسے کاٹے قصائی میرے جسم کو
نفس امارہ کو بھی تو کٹوائیے
جیسے چھریاں چلاتے رہے رشتوں پر
میری گردن پہ بھی ویسے چلوائیے
آخر میں ایک دکھی شوہر کی فریاد بھی سماعت فرمائیے :
دل پہ چھائی ہے نوا بن کے تمنا میری
زندگی بکرے کی صورت ہو بقایا میری
جب کبھی جاب سے واپس میں تھکا سا آؤں
دانہ پانی بڑی چاہت سے کھلایا جاؤں
موت سے پہلے مجھے ہار بھی ڈالے جائیں
دور سے لوگ مجھے پیار سے تکنے آئیں
مجھ کو گاڑی پہ بڑی شاں سے بٹھایا جائے
ڈھول کی تھاپ پہ شہروں میں گھمایا جائے
خوب سج دھج سے پھروں شہر کی روڈیں اکثر
ہر حسیں بکری کرے خود کو نچھاور مجھ پر
میرے ماتھے پہ لگے پیار کی جھالر پیاری
مجھ پر مرکوز رہے تیری توجہ ساری
چھیڑ بیٹھوں جو میں بکری تو نہ ڈانٹا جاتا
گھر میں بیوی کی زباں سے بھی نہ کاٹا جاتا
گر کہیں سینگ اڑا لیتا نہ مارا جاتا
بلکہ پھر بھی سدا بھولا ہی پکارا جاتا
اس گلے پر بھی چھری اک ہی پھرائی ہی جاتی
وقفے وقفے سے نہ ہر روز چلائی جاتی
میری باں باں پہ پریشان وہ ہو سے جاتے
میں نہ چرتا تو مری آنکھوں میں کھو سے جاتے
پھر کے مٹی بھرے پاؤں سے جو اندر آتا
شور سے سر پہ نہ گھر سارا اٹھایا جاتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments