TRIBIDOسے LIBIDO کا سفر (خط # 8)


محترمہ مقدس مجید صاحبہ!

میں اس خط میں دو حوالوں سے بات کروں گا

کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض سے ملاقاتیں
اور
نوجوانوں کے رومانوی اور ازدواجی رشتے

کشور ناہید سے میری ایک سے زیادہ ملاقاتیں ہوئیں کینیڈا میں بھی اور پاکستان میں بھی۔ میں نے انہیں نہایت صاف گو ’حق پرست‘ بے خوف اور نڈر خاتون پایا۔ وہ سچ کہتی ہیں ’سچ لکھتی ہیں اور پھر سچ کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں۔

کشور ناہید کو جب میں نے دنیا کے مختلف ممالک کے سفر کی کہانیاں سنائیں تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اسرائیل کا سفر نامہ لکھوں۔ کہنے لگیں پاکستان کے ادیب یورپ ’شمالی امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے سفر نامے تو لکھتے ہیں اسرائیل کا نہیں لکھتے کیونکہ وہ پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل نہیں جا سکتے۔

میں نے سوچا پاکستان اور اسرائیل دنیا کے واحد دو ممالک ہیں جو مذہب کی کوکھ سے پیدا ہوئے لیکن پھر بھی ایک دوسرے کو نہیں مانتے۔ مجھے جب کینیڈین پاسپورٹ ملا تو جن دو ممالک کی میں نے سب سے پہلے سیر کی وہ جنوبی افریقی اور اسرائیل تھے۔ مجھے کشور ناہید کا مشورہ اچھا لگا چنانچہ میں نے اسرائیل کا تفصیلی سفر نامہ لکھا جو میری کتاب۔ ایک باپ کی اولاد۔ میں شامل ہے۔

میں جب لاہور گیا تو انہوں نے مجھے اپنے ہاں بلایا اور لاہور کے جن ادیبوں سے ملوایا ان میں زاہد ڈار ’جاوید شاہیں اور اصغر ندیم سید شامل ہیں۔ جاوید شاہین نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ انہیں پبلشر نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ کاتب نے ان کی شاعری کے مجموعے میں سے سترہ اشعار کی کتابت کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اس کے مذہبی اعتقادات کے خلاف تھے۔

میں نے اپنی کتاب۔ پگڈنڈیوں پہ چلنے والے مسافر۔ کے لیے کشور ناہید کا انٹرویو لیا جس میں انہوں نے اپنی غیر روایتی شاعری اور زندگی کے بارے میں گفتگو کی۔ میں اس انٹرویو کے ایک دو سوال و جواب شیر کرتا ہوں تا کہ آپ بھی ادبی دیگ کے چند دانے چکھ سکیں۔

۔ ۔ ۔
سہیل: جب آپ کی پہلی کتاب چھپی تو آپ کی عمر کیا تھی؟

کشور: میری عمر انیس برس تھی اور کتاب کا نام۔ لب گویا۔ تھا۔ کتاب چھپنے سے پہلے مجھے بہت سے ذہنی کچوکے برداشت کرنے پڑے تھے کیونکہ مجھ پر بہت سے اعتراضات کیے گئے تھے۔ اس ماحول میں میرا کوئی ہمدرد نہ تھا۔ میرے ارد گرد ایسی عورتیں بھی نہیں تھیں جو میری طرح لکھتی تھیں۔ میں خوفزدہ تھی۔ ہر شخص میری ذات اور میری شاعری پر حملے کرتا۔ وہ مجھے اندر سے توڑ دینا چاہتے تھے۔ اس دور میں صرف عابد علی عابد نے میری حوصلہ افزائی کی۔

سہیل: آپ کے خاندان والوں کا آپ کی شاعری کے بارے میں کیا رد عمل تھا؟

کشور:میرے خاندان نے مجھے کبھی پسند نہیں کیا۔ وہ آج بھی نہیں کرتا۔ وہ صرف مجھے برداشت کرتے ہیں وہ مجھ پر فخر نہیں کرتے بلکہ وہ شرمندہ ہیں۔ ان کے خیال میں سید خاندان کی عورت کو ایسے کام نہیں کرنے چاہئیں جو میں کرتی ہوں۔

سہیل: تعلیم ختم کرنے کے بعد آپ نے کس قسم کی ملازمت شروع کی؟

کشور:میری ملازمت کا میری شادی سے گہرا تعلق تھا۔ یوسف اور میں ہم جماعت تھے۔ میں مختلف کالجوں کے مشاعروں میں حصہ لیتی تھی۔ اس لیے لوگ میری اور یوسف کی دوستی سے واقف تھے۔ آہستہ آہستہ وہ رشتہ سکینڈل میں تبدیل ہو گیا اور میرے گھر والوں کو خبر ہو گئی۔ میرے خاندان نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے آدھ گھنٹے میں شادی نہ کی تو وہ مجھے عاق کر دیں گے۔ چنانچہ مجھے فیصلہ کرنا پڑا۔ میں نے یوسف سے کہا کہ یا ہم شادی کر لیں یا رشتے کو خدا حافظ کہہ دیں۔

میرے لیے اپنے خاندان سے باہر آنے کا وہ واحد طریقہ تھا۔ چنانچہ ہم نے شادی کر لی اور میں یوسف کے کمرے میں منتقل ہو گئی۔ اس وقت اس کی جیب میں صرف اڑھائی روپے تھے۔ اگلی صبح میں ملازمت کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ مجھے زیادہ تلاش نہ کرنی پڑی۔ میں ایک شخص کو جانتی تھی جو حلقہ ارباب ذوق کی محفلوں میں آیا کرتا تھا۔ اس نے میری شاعری سن رکھی تھی چنانچہ اس نے مجھے حکومت کی ملازمت دلوا دی۔ ان دنوں میں کام بھی کرتی تھی پڑھائی بھی کرتی تھی اور گھر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالتی تھی۔

۔ ۔ ۔

کشور ناہید نے لاہور میں میرا تعارف فہمیدہ ریاض سے کروایا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے کہ بہت سے لوگ جب اپنے پسندیدہ شاعر ادیب اور دانشور سے ملتے ہیں تو بہت مایوس ہوتے ہیں کہنے لگیں اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعر ادیب اور دانشور اپنی تخلیقات میں ایک ایسی مثالی دنیا کا نقشہ کھینچتے ہیں جس پر وہ نامساعد اور روایتی حالات کی وجہ سے خود بھی عمل نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی شخص کسی شاعر سے مل کر مایوس نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے اندر کے شاعر سے بڑا انسان ہے۔

میں نے بھی فہمیدہ ریاض کی شاعری کی کتاب۔ میں مٹی کی مورت ہوں۔ پڑھی ہے اور اس حوالے سے طویل مقالہ لکھا ہے جس کا عنوان۔ مشرقی عورت کی کہانی۔ ہے۔ وہ مضمون۔ ہم سب۔ پر چھپ چکا ہے اور آپ چاہیں تو میرے صفحے پر پڑھ سکتی ہیں۔

فہمیدہ ریاض جب کینیڈا تشریف لائیں تو میں نے ان کا تفصیلی انٹرویو بھی لیا۔ میں نے انہیں ادبی سماجی اور سیاسی حوالوں سے ایک دانشور پایا۔ انہوں نے اپنا موقف بڑی عمدگی سے پیش کیا۔ میں ان کے خیالات و نظریات سے بہت متاثر ہوا۔

محترمہ مقدس مجید صاحبہ!

جب میں آپ کے ادب پارے میں نوجوانوں کے رومانوی مسائل کے بارے میں پڑھ رہا تھا تو مجھے امریکی فلاسفر جوزف کیمبل یاد آ رہے تھے جو ساری دنیا میں مائیتھالوجی اور دیومالائی روایتوں کے ماہر جانے جاتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں ان سے کسی نے جب پوچھا کہ پچھلی چند صدیوں کی انسانی تاریخ میں رومانوی رشتوں کے بارے میں کیا بنیادی تبدیلی آئی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے TRIBIDOسے LIBIDOکاسفر طے کیا ہے۔

پھر وہ وضاحت کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ ایک وہ زمانہ تھا جب مغرب میں قبیلہ یا ٹرائب نوجوانوں کی شادی اور محبت کے فیصلے کرتا تھا لیکن اب نوجوان خود ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور قبیلہ ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

مغرب میں ہم اسے ڈیٹنگ کا نام دیتے ہیں جس روایت کو اب عوام و خواص نے قبول کر لیا ہے۔ نوجوان ایک دوسرے سے ملتے ہیں پسند کرتے ہیں محبت میں گرفتار ہوتے ہین اور شادی کرتے ہیں۔

بہت سے مغربی والدین اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے کہتے ہیں کہ پہلے بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ سے شادی نہ کرنا۔ چند لوگوں کو ڈیٹ کر کے سوچ سمجھ سے شریک حیات کا فیصلہ کرنا۔

مغرب میں شادی کے لیے چونکہ عورت کا باکرہ ہونا اہم نہیں رہا اس لیے شادی سے پہلے چند مردوں سے دوستی کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

مغرب میں یہ تصور عام ہے کہ انسان محبت اور شادی خوشی کے لیے کرتا ہے اذیت کے لیے نہیں۔ اور اگر شادی سے محبت اور خوشی غائب ہو جائے تو میاں بیوی عزت و احترام سے ایک دوسرے کو الوداع کہتے ہیں اور کسی دوسرے انسان سے شادی کر لیتے ہیں۔ اکثر اوقات دوسری شادی پہلی شادی سے زیادہ کامیاب ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے مشرق میں ابھی بھی قبیلہ اور خاندان نوجوانوں کی شادی کا فیصلہ کرتا ہے اور عورت سے امید رکھی جاتی ہے کہ وہ سسرال کے لیے اپنی خوشیاں قربان کر دے۔ عورت کو شادی کے لیے ایسے تیار کیا جاتا ہے جیسے کوئی قربانی کے بکرے کو تیار کرتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ مجازی خدا کی خوشی میں حقیقی خدا کی خوشی مضمر ہے۔ شوہر کو بیوی کا احترام نہیں سکھایا جاتا۔

میں ایک انسان دوست ہوں میری نگاہ میں ایک عورت بھی ایک انسان ہے۔ مکمل انسان۔ اور اسے بھی محبت کرنے اور خوشی کی زندگی گزارنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی مرد کو۔ کسی بھی خوشحال اور کامیاب خاندان اور معاشرے کے لیے ناگزیر ہے کہ مرد اور عورت دونوں خوش بھی ہوں صحتمند بھی اور پرسکون بھی۔

محترمہ مقدس مجید صاحبہ!

اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ بہت سی لڑکیاں جو کالج اور یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں وہ شادی کے بعد گھر کیوں بیٹھ جاتی ہیں؟ ملازمت کیوں نہیں کرتیں؟ اپنی تخلیقی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اظہار کیوں نہیں کرتیں؟ میں بہت سی ایسی خواتین کو جانتا ہوں جو ڈاکٹر بننے کے بعد بیویاں بن گئیں اور ان کی طبی تعلیم سے ان کے مریض استفادہ نہ کر سکے۔ آپ کی نگاہ میں اس کی کیا وجہ ہے؟

آپ کا ادبی دوست
خالد سہیل
27 مئی 2021

ڈاکٹر خالد سہیل
اس سیریز کے دیگر حصےمشرقی نوجوان اور شادی کا سماجی ادارہ (خط # 7)زندگی کا ٹوٹا ہوا پل (خط # 11)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments