برقعہ بکری کو بھی پہنا دیجیئے


دھوکے میں خود کو ہم کیوں ڈال رہے ہیں۔ یہ اقرار کرنے میں ہچکچاہٹ کیسی کہ مقدس سرزمین پر کوئی بھی محفوظ نہیں۔ نہ دودھ پیتا بچہ، نہ پانچ برس کا پھول، نہ بیس برس کی جوانی، نہ اسی سالہ بڑھاپا، اور نہ میت جو قبر میں اتاری جا چکی ہے۔ کیا اب بھی کسی کو یقین آتا نہیں کہ شہوت نے اس قوم کا دماغ کسی گٹر کی طرح بند کر دیا ہے کہ اور کچھ سوچ ابھرتی ہی نہیں۔ ایک کہتا ہے کہ اس قوم کا مسئلہ کرپشن ہے، دوجا کہتا ہے کہ مسئلہ اخلاقیات کا ہے، تیجا کہتا ہے کہ اصل مسئلہ تعلیم کا ہے، چوتھا کہتا ہے کہ مسئلہ غربت کا بھی ہے۔

نہیں نہیں، یہ مسائل کچھ بھی نہیں ہیں، سالوں میں نہیں تو عشروں میں رفع ہو جائیں گے۔ اس قوم کا مسئلہ شہوت ہے، ٹھرک ہے جس کو لگام ہزار سال بعد بھی نہ ڈالی جا سکے گی۔ اس شہوت کی آگ کو جہنم کی آگ ہی ٹھنڈا کرے گی۔ اس طرح تو ظہیر الدین محمد بابر نے سلطان ابراہیم لودھی کو مغلوب نہ کیا تھا، صلیبیوں نے عربوں کو مغلوب نہ کیا تھا، اور تاتاریوں نے سینٹرل ایشیا والوں کو مغلوب نہ کیا تھا جس طرح شہوت اور ٹھرک نے ہمیں مغلوب کیا ہے۔

اگلے روز پیر محل سے برادرم تیمور نصیر چوہدری نے ایک خبر سنائی جسے سن کر دل چاہا کوئی تیر ہو جو آر پار ہو جائے۔ آپ کو بھی سناتے ہیں کہ شرم سار سبھی کو کرنا مقصود ہے۔ کورونا کی وجہ سے کچھ تعلیمی اداروں میں اب بھی آن لائن کلاسز ہوتی ہیں۔ ایک استاد نے، جو کہ پیر محل کے سکول میں استاذی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے کہ آن لائن کلاسز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک طالبہ کا نمبر حاصل کر لیا۔ موصوف لائل پور کے ایک اچھے تعلیمی ادارے سے سند حاصل کر کے اب مقدس فرض کی انجام دہی میں مصروف کار تھے۔

وہ طالبہ دسویں جماعت کی تھی۔ کیا عمر ہو گی اس کی کہ اس کو ”آئی لو یو“ بولا گیا اور اس قدر غیر اخلاقی باتیں کہی گئیں کہ بہت دیر کسی چیز نے بیک وقت دکھی کرتے ہوئے غصہ دلایا۔ ایک چھوٹی سی بچی جس کی آنکھوں میں نہیں معلوم کہ کیسے خواب پھولوں کی مانند سجے ہوں گے۔ اس کی نفسیات کس قدر متاثر ہوئی گی۔ یہ واقعہ کیا ساری زندگی بھیانک دیو بن کر اس کا پیچھا نہ کرے گا۔ اور استاد موصوف تو پانچ دس سال بعد جیل سے باہر آ کر نئے شکار کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے۔

یہ استاذ ہیں یا آل منگول کہ جو بچیوں کو بخشتے ہیں اور نہ کسی اور کو۔ پھر خبر آئی کہ کراچی میں ایک کلی کو مسل کر کہیں ویرانے میں پھینک دیا گیا۔ اور اوکاڑہ کے باسیوں نے تو تاریخ رقم کرنے کی ٹھانی۔ پانچ ولیوں نے ایک بکری کا استحصال کر دیا۔ اگر آپ بھولے نہ ہوں تو آج سے کچھ تین برس قبل اسی مہینے میں پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جب ہریانہ میں آٹھ مردوں نے ایک حاملہ بکری کو بھی نہ بخشا۔

بکری کو جان کھونا پڑی۔ ان دانشوروں سے کہیے کہ ذرا سر تو اٹھائیں جو راگ الاپتے تھے کہ اسلامی لباس نہ زیب تن کرنے سے ریپ ہوتے ہیں۔ چلیں ہم بھی مان لیتے ہیں کہ عورتوں کی اسی لیے عصمت دری کی جاتی ہے کہ وہ اسلامی لباس یعنی برقعہ نہیں پہنتیں۔ لیکن سوال پھر برقرار رہے گا کہ بکری کا ریپ کیوں کر ہوا۔ کیا بکری نے برقعہ نہیں پہنا تھا اس لیے یا بکری مٹک مٹک کر چل رہی تھی، یا بکری بے حیا تھی۔ کیا جواب ہے اس بات کا آپ کے پاس۔

کیا بکریوں کو ریپ سے بچانے کے لیے اب برقعے پہنانے ہوں گے۔ کل کو اگر کسی اور جانور کا ریپ ہو گیا تو کیا اس کو بھی برقعہ پہنانا پڑے گا۔ مسئلہ کچھ اور ہے جس کی جڑیں کھودنے سے ہم عاجز آ رہے ہیں۔ آج سے کچھ تین چار سال قبل جرمنی میں رہنے والے ایک پاکستانی سے تقریباً ایک گھنٹہ تک بات ہوئی۔ وہ صاحب گوجرانوالہ کے کسی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے اور ایمانی عقیدے کی وجہ سے ان کو یہاں سے بھاگ کر جرمنی میں پناہ لینی پڑی۔

داستان ان کی لمبی تھی جو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کہ ابھی مطلوب کچھ اور ہے۔ وہ صاحب کہنے لگے کہ میں کافی سال سے جرمنی میں رہائش پذیر ہوں اور دیکھتا ہوں کہ ہندوستانی، بنگلہ دیشی، اور پاکستانی جب جرمنی میں آتے ہیں تو ان کے پیش نظر بس ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح نفس کی آگ کو جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ ٹھنڈا کیا جائے۔ مگر وہ آگ ہی کیا جو ٹھنڈی ہو جائے۔ معلوم ہوا کہ بر صغیر کا معاشرہ بحیثیت مجموعی ہی ہوس زدہ اور ٹھرکی ہے۔

ایک یونیورسٹی سے نکلنے والا طالب علم جب استاد بنتا ہے تو اپنی شاگردوں کا جنسی استحصال کرتا ہے۔ ایک عالم جب مدرسے کو خیر آباد کہتا ہے تو لڑکوں سے شغل فرماتا ہے۔ دربار پر ڈیرہ جمائے پیر صاحب بھی ٹھرک سے شکست کھاتے ہیں۔ صوفی بھی باقیوں کی طرح ہوس زدہ ہے کہ اس میدان میں پیچھے رہنا کسی کو گوارا نہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ انسان سانس لے تو کہاں لے کہ ہر طرف شکاری تاک میں بیٹھے ہیں۔ اب ڈر لگتا ہے۔ خوف آتا ہے۔ دھڑکن تھمتی ہے کہ کب کوئی کہیں درندگی کا شکار ہو جائے۔ والدین کہتے ہیں کہ بچے کھیلتے ہوئے اگر گلی تک بھی چلے جائیں تو جان خلق کو آتی ہے۔ اکیلے سکول نہیں بھیجتے کہ راہیں شکاریوں سے اٹی پڑی ہیں۔ مدرسے میں دین کی تعلیم دلوانے سے گریز کرتے ہیں کہ۔

اب آپ ہی بتائیے کہ جس معاشرے میں والدین بچوں کو خوف کی وجہ سے تعلیم نہ دلوا سکیں، کیا وہ اس قابل ہے کہ وہاں کا باسی ہونا گوارا کیا جائے۔ عجب حالت ہے کہ دل کسی فیصلے کی منزل تک پہنچتا ہی نہیں۔ خوف کی تاریکی ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی اور امید کا سورج ہے کہ طلوع نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments