ڈی آئی جی کی محبوبہ (10)


نویں قسط کا آخری حصہ

بینو لاہور جاتی ہے تو اس کی امی کا بھی بیوٹی پارلر اپائنٹمنٹ ہوتا ہے۔ خوش لباسی سے اور بیوٹی پارلر کی وجہ سے عمر سے دس سال چھوٹی لگتی ہیں۔ بینو نے امی کو کہا بھی کہ ٹیپو جی کو کہہ کر ایک مقدمہ کر لیتے ہیں کہ آپ کی تاریخ پیدائش کا اندراج غلط تھا۔ نیا سرٹیفیکٹ بنوا کر دوبارہ ملازمت کر لیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہاتھ کھل گیا تو بینو کو ہری ہری سوجھتی ہے۔

***   ***

دسویں قسط

بینو کی امی جی کی تجویز ہے کہ ٹوانہ جی کے سا تھ اک واری بینو کینیڈا جا کر ظہیر اور ان دونوں سے بہانہ کر کے جان چھڑا کر واپس آجائے۔ کینیڈا میں کیا رکھا ہے۔ ٹیپو جیسا داماد ہو تو پاکستان کو بھی کینیڈا ہی سمجھو۔ جب وہ واپس آئے گی تو بھائی کو وہ سب کچھ آہستہ سے سب بتا دیں گی کہ ظہیر کے ساتھ بینو کے معاملات میں کس قدر بگاڑ آ چکا تھا۔ بینو کا کہنا ہے کہ اس بات کا دار و مدار ٹیپو کے آئندہ رویوں اور بچے کے بارے میں رد عمل ہوگا۔ ٹیپو بینو کو لمبی ریس کے گھوڑے نہیں لگتے۔

ان کے عشق میں گرفتار ہونا ایک اور بات ہے۔ ان کے بارے میں بہت پر امید ہونا سراسر نادانی ہو گا۔ یہ ون ڈے میچ کے آخری اوورز ہیں، سو بہتر ہے کہ ان slog (شاٹس مارنے والے) اوورز میں اپنے شاٹس کھیل لے۔ یہ اننگ ختم ہونے والی ہے۔ بینو کو اپنی حقیقت پسندی پر بڑا مان ہے۔ کسی نے پوچھا نہیں مگر عشق اور بھروسہ دو مختلف معاملات ہیں۔ فائٹر جیٹس کے دونوں پائلٹس کو ایک دوسرے سے عشق نہیں ہوتا مگر بھروسہ بہت ہوتا ہے۔

ٹیپو کا رات کا قیام ہو تو وصال اور غسل کے جڑواں مزے لوٹتے ہیں۔ دونوں ٹب میں ساتھ ہوں تو ٹیپو جی دیر تک بینو کو چومتے نہلاتے رہتے ہیں۔ بینو کو اس لمس اور بلبلے اڑاتے خوشبو دار ولایتی جھاگ دار صابن والے ٹیپو جی کے ہات لگتے ہیں تو ایسا لگتا ہے اس کا بدن کوئی ستار ہے جس پر استاد ولایت حسین خان نے راگ میگھ ملھار چھیڑ دیا ہے

پچھلے چند دنوں سے ٹیپو جی کے کچھ آپریشن سندھ سے بارڈر والے علاقے صادق آباد، خان پور، راجن پور، جمال دین والی اور کوٹ مٹھن بھی چل رہے تھے۔

ایک رات آئے تو بہت دیر ہوچلی تھی۔ پیغام بھی نہ تھا کہ آتے ہیں۔ بینو اوپر ہی سو رہی تھی۔ فون سرہانے تھا۔ دو تین گھنٹیاں بجیں تو آنکھ کھلی۔ گیٹ کھولا تو گاڑی دیکھ حیرانی ہوئی چھوٹی سی اور پرانی سوزوکی آلٹو تھی۔ کار سیدھی گیٹ کے اندر ہی لے آئے۔ رنگت بھی اڑی ہوئی تھی۔ حلیہ بھی کچھ پریشان سا۔ بینو تو ڈر ہی گئی۔ فوراً ایک بریف کیس نکال کر بینو کے حوالے کر دیا۔ بہت ضد کی تو بتایا کہ سندھ کا مشہور ڈاکو رحمن ڈکیت بلوچستان کی طرف بھاگ رہا تھا اسے تقریباً انہوں نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ رات کی تاریکی میں فائرنگ کرتے ہوئے بریف کیس پیچھے پھینک کر بھا گ گیا۔ وہ جیپ میں اکیلے ہی تھے۔

کہانی بینو کے حلق سے نیچے نہیں اتری۔ بریف کیس اس کے سامنے کھولا۔ نوٹوں کی ترتیب سے لگا کہ کروڑ روپے کے قریب ہوں گے۔ پرانے نوٹوں کے بنڈل۔ امریکہ میں ایسی رقم کو  Crime Proceeds کہتے ہیں یعنی جرم کی کمائی۔ بریف کیس پکڑایا تو بینو نے اس بریف کیس کو بے اعتنائی سے ایک طرف کردیا۔ رات کو لمحات وصل میں انہوں نے کہا کہ کچھ رقم تم رکھ لو۔

بینو نے موقعہ غنیمت جانا۔ ایک تو انہیں اخلاقاً یہ کہہ کر گندا کیا کہ” جانو دل نہیں مانتا کہ میں ڈکیت سے ہتھیائی ہوئی رقم کی طرف نگاہ بھی ڈالوں۔ ہم بہت آسودہ حال نہیں، کمزور بھی ہیں جس کا آپ کو اندازہ بھی ہو گیا ہوگا۔ ہمارا گیزر اور لائینیں بھی پرانی تھیں مگر ہم برے لوگ نہیں۔ آپ کی محبت میرا سرمایہ ہے۔ عورت صرف ایک دفعہ کسی کو دل دیتی ہے۔ میں نے تو سب ہی کچھ آپ کو دے دیا۔ سوچیں امی کو صرف اس وعدے پر کہ آپ نے پروموشن پر فوری شادی کا وعدہ کیا ہے

اس قدر منا لیا ہے کہ اپنے ہی گھر میں میرے صرف آپ کے بول وچن کے سہارے بیوی بن کر رہنے پر وہ اعتراض نہیں کرتیں۔ آپ ہیں تو میرا سہاگ سلامت ہے۔ کوئی نماز ایسی نہیں کہ آپ کے لیے اپنے سے پہلے دعا نہ مانگی ہو کہ یا اللہ میرا سہاگ اور میرے بچے کا باپ سلامت رکھ۔ اس کو پروموشن عطا کر۔ آپ تو میری عبادت، میرا ایمان ہیں۔ کچھ دینا ہے تو اپنے بچے کے لیے خود سے ایک طرف کر دیں۔ بینو نے وہ شے یعنی دولت جسے مرد عورت کی سب سے بڑی آزمائش مانتے ہیں اسی  بڑی آزمائش پیسے کا داﺅ پلٹ کر ان پر مارا اس کے ذہن میں یہ تھا کہ ٹیپو کی شخصیت کو پرکھنے کے لیے یہ ایک پینلٹی اسٹروک ہے۔

یہ ٹیپو پر بینو کا دوسرا بڑا ڈرون حملہ تھا۔ مانو امریکہ میں سیٹلائیٹ نے کال مانیٹر کی۔ بٹ گرام سے ڈرون اڑا اور سیدھا زرمی لانا (جنوبی وزیرستان) کے علاقے خان کوٹ کی سلیمان خلیل مسجد میں فجر پڑھنے جاتے مطلوبہ دہشت گرد کے اوپر سے میزائل مار کر پرخچے اڑادیے۔

پیٹ کے بچے کی بات کے انکشاف پر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ برہنہ مرد جس بستر پر کچھ دیر پہلے ورلڈ ریسلنگ فیڈریشن والا جان سینا بنا ہو وہ نظر نہ آنے والے Embryo کے انکشاف پر او نو، او نو چیخ کر بال نوچتا دکھائی دے۔ کیسا عجیب لگتا ہے۔

پوچھنے لگے یہ کیسے ہوا تو بینو نے بہت اطمینان سے کہا کہ ڈونگا گلی میں وہ ہرنیا کے آپریشن کے لیے تو نہیں گئے تھے۔ حساس ذمہ دار ادارے کے اہم افسر کو اتنا تو علم ہونا چاہیئے کہ جب عورت مرد کا جنسی اختلاط ہوتا ہے تو پھجے کے پائے چولہے پر نہیں چڑھے ہوتے اور مٹکے سے قلفی نہیں نکلتی۔ وہ کہنے لگے کاش وہ ان کے پروموشن تک رک جاتی۔ تب تک وہ اپنی بیوی یمنیٰ کو سمجھا دیتے کہ اولاد کی خاطر وہ دوسری شادی کر کے اپنی ملازمت چھوڑ کر نئی بیوی سمیت کراچی شفٹ ہو جائیں گے۔ اس کے ابو کا کاروبار سنبھال لیں گے۔ انبیا اور اولیا کی مثالیں دے کر سمجھا لیتا یا بتا دیتا کہ اولاد کے لیے تو سیدنا ابراہیم اور ذکریا علیہ سلام اولاد کے لیے بھی بے تاب تھے وہ تو ایک گناہ گار انسان ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یمنی کہتی کہ اپنے والدین کے سامنے مدعا رکھوں گی۔ اس کے والدین سے یمنیٰ کو نہ ملانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ پختون ماں باپ اس بارے میں بہت ڈسٹرب ہوں گے اور اس کی شادی لازماً اپنی امی کی بھانجی سے کرا دیں۔ بینو نے کمفرٹر بدن سے پرے کیا اوراس مرد برہنہ و پشیماں کی ننگی پشت پر کاندھے سے گال لگا کر دونوں ہاتھ سے کمر تھام کر کہنے لگی ٹیپو جی دل تو نہیں چاہتا کہ آپ کے سامنے زبان کھولوں مگر چند باتیں ضرور عرض کرنا چاہتی ہوں۔

ایک تو آپ اپنے بچے کے حوالے سے یہ بات سن لیں کہ بطور ماں میں اس کے وجود سے اسے وقت سے اس کے وجود سے واقف تھی جب وہ Pregnancy Strip پر محض ایک سرخ لکیر کے طور پر نمودار ہوا تھا۔ مجھے اس کی آمد کی اطلاع آپ سے وصال کی اولین گھڑیوں میں مل گئی تھی۔ ان گھڑیوں میں پیار کے اس طوفان میں۔ ہماری اس برہنہ وحشت میں آپ مجھے مرد نہیں اپنے شوہر اور بچے کے باپ کے طور پر دکھائی دیے۔ دوسرے دنیا کی ہر ماں اپنے بچے کو دنیا کے سب انسانوں سے نو مہینے پہلے سے جانتی ہے۔ میرا خیال تھا کہ آپ میں یقینا وہ جرات ہوگی کہ مرد بن کر اپنے  Seed کوOwn  کریں گے۔ سچ بتائیں کیا میں نے وہاں ڈونگا گلی میں ملن کی اولین گھڑیوں میں نے آپ کو وارن نہیں کیا تھا۔ آپ کو مڈونا (امریکی کی دھماکہ گلوکار جس نے سن اسی کہ دہائی میں تہلکہ مچارکھا تھا) گا کر نہیں کہا تھا۔

. Like a virgin

touched for the very first time.

 اس وقت کیوں نہ سوچا۔ یاد ہے نا کرید کرید کر کیسے ظہیر کی نامردی کی باتیں پوچھی تھیں۔

جب میں نے کہا کہ شاید کوئی Dysfunction  ہے تو فٹافٹ نہ صرف مجھے پہلا لفظ Erectile جو یاد نہ تھا .وہ یاد بھی دلایا اور بے چارے کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری۔

میں نے پھر بھی کہا کہ احتیاط کرلیں تو یاد ہے نا کیسا مرد بن چھاتی پر ہات مار مجھے بانہوں میں بھر کر کہا تھا شیشہ نہیں فولاد ہیں ہم پختونوں کی اولاد ہیں۔ یہ بھی اترا کر کہا تھا

 ڈر کس بات کے ہے۔ بچے کا ؟ تو یاد رکھو تم ماں نہیں بنو گی میں باپ بنوں گا۔ بینو بیگم خاکسار نے اپنی بیوی سے محبت کی۔ جوانی کی بھول۔ جس کا ہر طرح کا پچھتاوا ہے۔ میری غیرت و حمیت دیکھو زیرو سیکس اور ایسے سڑیل مزاج کے باوجود نبھا رہا ہوں۔ تم میری آخری محبت ہو۔ میرا ایمان میری جان ہو تم۔ بچہ تو دور کی بات ہے اگر تمہاری دوسری ناک بھی نکل آئے تو میری محبت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

بینو جھوٹ موٹ منھ لپیٹ کر رونے لگی۔ بہت دیر تک بات نہ کی۔ ہات بڑھاتے تو جھٹک دیتی تھی۔

بہت پشیمان تھے۔ پیار کرنے کی کوشش کی مگر بینو کی ایک ہی ضد کے وہ اعتراف کریں کہ ڈونگا گلی میں ملاقات کی پہلی رات وہ ایک کنواری کلی تھی۔ بالآخر کہنے لگے

۔ . I need my son from you. Don’t worry we will be soon husband and wife۔

اٹھ کر شاور لینے چلے گئے۔ واپس آئے تو حواس کچھ مجتمع لگ رہے۔ بینو کو زبردستی بانہوں میں سمیٹا تو اس نے بات کو سنجیدہ اور معنی آفرین بنانے کے لیے وضاحت کی کہ اس نے جواباً ان سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ بچہ ماں کا ہے۔ آپ اس کی ولدیت مانیں نہ مانیں مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ میں اسے ماں اور باپ دونوں کا پیار دوں۔ شادی کا ذکر آپ نے ہمیشہ کیا اور خود سے کیا۔ شاید اس لیے کہ اس سے میرا ڈیفنس کمزور اور مجھے اپنا وجود آپ کے حوالے کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ محسوس ہو۔ پہلی ملاقات میں یاد ہے نہ جس رات آپ ہمارے ہاں پہلی مرتبہ ٹہرے تھے۔ صبح ابو کو ساتھ لے کر علاج کے لیے ملتان لے گئے تھے۔ آپ میں اپنا بچہ اون کرنے کی ہمت نہیں۔ نہ کریں۔ آپ سے تو وہ گریڈ گیارہ کااسٹنٹ سب انسپکٹر آف پولیس زیادہ مرد ہے جس کے سامنے اگر میں آپ کے باپ ہونے کا اعتراف کر بھی لوں تو وہ کہے گا۔ چلو بھول ہو گئی۔ بچے کا کیا قصور۔ تمہارا ماں ہونا تو ہر حال میں ایک سب سے بڑی سچائی ہے۔

 ٹیپو ایک دفعہ پھر سے بستر سے اٹھے اور اس کے پیر چوم چوم کر بہت تسلیاں دیں۔ بورڈ ہوجانے دو۔ پروموشن کے بعد ہم شادی کر لیں گے۔ خود ہی بریف کیس کھولا۔ بینو کا خیال تھا کہ ایک آدھ پیکٹ دیں گے مگر پانچ پیکٹ دیے۔ تسلی دی دہ دن دور نہیں جب وہ موجودہ فیملی کی اجازت لے کر اس سے نکاح کر لیں گے۔ بینو نے کہا شادی کا اس کی طرف سے ان پر کوئی دباﺅ نہیں۔ وہ اس محبت کو جزو ایمان مانتی ہے۔

بینو کی اس تسلی سے بہت مطمئن نظر آئے۔ کہنے لگے کہ بریف کیس وہ سنبھال کر رکھ لے تھوڑے بہت پیسے انہیں دے دے۔ وہ اس لیے کہ رحمن ڈکیت سے مقابلے کی بات باہر آئے تو شاید وہ اپنے افسر کا منھ بند کرنے کے لیے اس میں نئی کار یا جیپ کی خریداری میں انڈیل دیں۔ اسے یقین دلایا کہ جیسے ہی بورڈ ہوا یا ان کا پروموشن نہ ہوا تو وہ بھی ایسی دو چار وارداتیں اور ڈال کر کینیڈا منتقل ہوجائیں گے اور دونوں وہیں شادی کر لیں گے۔ میرے ایک دو سئینئرز بھی ٹورنٹو میں بہت کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک کا تو متبادل توانائی کے پراجیکٹس کا بہت بڑا کام ہے۔ ہمارے بہت سے افسر یہاں مشرف دور میں نیب، پی آئی اے، کارپوریشنز میں اچھے عہدوں پر تھے۔ پروموشن نہ ہوا تو لوٹا ہوا مال لے کر کینیڈا شفٹ ہوگئے۔ ملک چھوڑ کر جانے والوں کو ہمارے بڑے خس کم جہان پاک سمجھتے ہیں۔

بینو کو پتہ ہے کہ کار جیپ کی قیمت ان دنوں بیس سے تیس لاکھ روپے ہوگی۔ اس کے باوجود ظالم نے بہت احتیاط سے آدھی کے قریب رقم نکال لی۔ یہ پٹھان پیسے کے معاملے میں بہت سخت دل ہوتے ہیں۔ پنجابیوں جیسا بڑا دل نہیں ہوتا۔ بینو کا خیال ہے پنجابی واقعی بہت سادہ مزاج اور کشادہ دل لوگ ہیں۔ بینو نے اپنی رقم اس کرکٹروں والے کالے تھیلے میں منتقل کرلی جو ظہیر کے ساتھ اس دن سوزوکی کے بکسوں میں آیا تھا۔ ان کی رقم والے بریف کیس کا کمبی نیشن لاک دونوں نے برہنہ بستر میں ہی سیٹ کر لیا۔ بینو جتایا کہ نمبر وہ اپنے پاس نوٹ کر لیں اسے نمبر یاد نہیں رہتے۔ آپ کی امانت یہاں حفاظت سے موجود ہے جب ضرورت ہو لے جائیں۔ یہ پیٹ آپ کے بچے اور یہ گھر آپ کی رقم کا اسٹیٹ بینک ہے۔ پوچھ رہے تھے کیا لگتا ہے کہ کیا ہے۔ میں نے کہا مجھے تو اسی وقت لمحے پتہ چل گیا تھا کہ چھوٹا ٹیپو میرے پیٹ میں آگیا ہے۔ چلیں اب جان ہی گئے ہیں تو میری ناف پر ہونٹ رکھ کر اس کا نام بتا دیں۔ انہیں نے اس کا نام اوزان بتایا تھا۔ اوزان۔ آپ کو یاد ہے نا ترکش نام ہے اس کا مطلب ہوتا ہے داستان گو۔

جاتے ہوئے کہنے لگے وہ جب لاہور اپنی فیملی کے پاس جائیں گے تو بریف کیس لے جائیں گے بینو نے چھیڑا کہ بیگم کے لیے کچھ چاہیے تو وہ کچھ کرکٹ بیگ سے نکال لیں۔ سمجھ گئے کہ بینو نے جانچ لیا تھا کہ رقم کار کی قیمت سے زیادہ نکالی گئی ہے۔ سن کر جھینپ گئے۔ چلے گئے تو بینو نے بریف کیس کھول کر ہر گڈی میں سے دس دس نوٹ نکال لیے۔ اسے نمبر واقعی یاد نہیں رہتے تھے مگر باتھ روم میں اس نے اپنے آئی لائنر سے ٹشو پیپر کے ایک ٹکڑے پر رقم لکھ کر اپنے سینڈل کے ڈبے میں باہر وارڈ روب میں ڈال لی تھی۔ اس کے بہت سے خاص کپڑے اب اوپر کے وارڈ روب میں ہوتے ہیں۔

اسے اس بریف کیس کھولنے کا نمبر یاد تھا۔ اس نے ان سے تصدیق بھی کرلی تھی کہ رقم لے کر وہ سیدھے اس کی طرف آئے ہیں۔ انہیں جتا دیا کہ نمبر نوٹ کر لیں اسے نمبر بالکل یاد نہیں رہتے۔ یہ نہ ہو کہ بعد میں نمبروں کی ترتیب بھول جائیں اور اتنا عمدہ باہر کا بریف کیس توڑنا پڑے۔

ایک رات ٹیپو جی کا پہلے پیغام تھا کہ برسات بہت ہے۔ ان کا کبیر والا میں آپریشن چل رہا ہے۔ شاید نہ آ پائیں اس کے باوجود گھنٹے بھر میں آ گئے۔ ابو امی کو بہت اچھا لگا۔ بینو نے کوفتے بنائے تھے۔

رات کو جب ساتھ بستر میں تھے وہ اس کا پیٹ دیکھتے رہے۔ ابھی چونکہ حمل کو پہلی سہ ماہی مکمل نہیں ہوئی ٹیپو جی بہت تفتیشی انداز میں اس کے گورے پیٹ پر ناف میں انگوٹھا جما کر Baby Bump  کھوجتے ہیں۔ اس تلاش میں مرد کے پدری تجسس اور تفاخر تخلیق سے زیادہ خفیہ ایجنسی کے شکی مزاج فریبی پھریرے لہراتے ہیں۔ اس سے پہلے جب آئے تھے تو جاتے ہوئے بریف کیس ساتھ لے گئے۔ کہہ رہے تھے سالے باسٹرڈ ڈکیت نے جھوٹ بولا تھا کہ پورا ایک کھوکھا ہے (کراچی کی زبان میں کروڑ) لاہور جاکر رقم گنی تو پچاس کی بجائے چالیس لاکھ نکلے۔ افسر نے ساری رقم رکھ لی میرے ہاتھ کچھ نہیں لگا۔ اچھا ہوا یمنی کو رقم کا ذکر نہیں کیا ورنہ بہت خفت ہوتی۔

بینو نے پوچھا بریف کیس پھینکتے وقت اس ڈکیت نے لاک کا نمبر اور رقم بتائی تھی کیا؟ اپنے تبصرے کی نادانی پربہت سٹ پٹائے۔ بینو نے چھیڑا آپ کو اس بدمعاش ڈکیت کا پیچھا کرنا تھا۔ سندھ سے جا رہا تھا۔ کئی چیک پوسٹس آتی ہوں گی۔ ہر جگہ نذرانہ دینا ہوتا ہو گا۔ کہنے لگے سندھ کا معاملہ اور ہے وہاں اوپر سے فون ہوجاتا ہے آئی جی کو۔ علاقے کا ایس پی اس کو گارڈ آف آنر پیش کرنے اور سرحد کراس کرانے کے لیے باوردی درست موجود ہوتا ہے۔

سندھ میں تو یہ لوگ وی ا ٓئی پی ہیں بابا لوگ۔۔ بینو نے مزید چرکا لگانے کے لیے کہا کہ اس کے ابو نے یہ رقم لاہور میں گھر خریدنے کے لیے چاچو کو دی ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی کے ای ایم ای کالونی لاہور میں گھر کا ساتھ والا پلاٹ خالی تھا۔ ضرورت ہو تو اس کے پاس جہیز کے زیورات ہیں۔ وہ بیچ لیں تاکہ خاتون اول کے منھ میں بھی بڑے افسر کی طرح کچھ ڈالا جا سکے۔ بہت شرمندہ ہوئے۔ کہہ رہے تھے اگلی دفعہ بھاگ بھی رہا ہو تو وہ رحمن ڈکیت کو گولی ماردیں گے۔ غدار اور جھوٹے کی سزا موت ہے

بینو نے ٹوانہ جی سے اپنا خرچہ بندھوا لیا ہے۔ پچاس ہزار روپیہ مہینہ۔ مہینے میں تین چار دفعہ ان کے پاس جانا ہوتا ہے۔ نکاح نامہ پاکستان کے حساب سے بھلے جعلی ہو مگر حضرت خود کو مجازی خدا مان کر وظیفہ زوجیت صوفیانہ لگاﺅ سے ادا کرتے ہیں۔ بینو کی امی نے بھی جان لیا ہے کہ ٹیپو والے تلوں میں بھی تیل نہیں۔ کچھ فائدہ مل سکتا ہے تو لے لیں۔

محبت کی بات اور ہے بینو آپ کو تینوں مردوں کے بارے میں آپ کو اپنا تجزیہ د ے سکتی ہے۔ وہ تینوں مرد بشمول اپنے ابو کو یعنی چاروں کو برا سمجھتی ہے۔ ٹیپو بھی ظہیر اور ٹوانہ کی طرح ایک فراڈ انسان ہیں۔ پہلے اس کے ابو کی بات۔ اس کا خیال ہے عمر کے آخری حصے میں جسے سب بڑھاپا کہتے ہیں مرد کم زور اور عورت طاقتور ہوجاتی ہے۔ اس کے ابو نے بینو کے مستقبل کی خاطر ہر جگہ سمجھوتا کیا۔ مردوں کی ایک غالب اکثریت کی اخلاقیات کا اسے نیا ادراک اور مشاہدہ ہوا ہے۔ روٹین کے مرد ایسے ہی ہوتے ہیں جب تک کوئی خاص آزمائش نہ آئے وہ  Morality  کی پولی پولی ڈھولکی بجاتے رہتے ہیں۔ اس کی نہ ان کے پاس کوئی ٹھوس بنیاد ہوتی ہے۔

 نہ وہ سامنے لہرانے والی Wind fall Opportunity کو ٹھکرانے کی ہمت رکھتے ہیں۔ کم از کم ظہیر اور اس کے ابو تو ایسے ہی ہیں۔ ٹوانہ اور ٹیپو کی مار کہاں تک اور کتنی پیچیدہ ہے اس کا اسے اندازہ نہیں۔ ویسے وہ ان دونوں کو بھی اخلاقی حوالے سے بہت نچلے درجے کا مرد پاتی ہے۔

بینو کی امی کی بات کریں تو انہوں نے اس کے لیے بہت سچائی اور Realistically حالات کے پیش نظر نہ صرف اسے زندگی کو انجوائے کرنے دیا اور ا اپنی بیٹی کی محرومیوں کی خاطر ایک بڑا اخلاقی سمجھوتہ یعنی اس کے اور ٹیپو کے تعلق کا تال میل اور بچہ اس وقت برداشت کیا جب انہیں لگا کہ اس کے علاوہ بینو کے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔ یہ نکتہ نگاہ سامنے رکھیں تو دونوں ماں بیٹی نے ٹوانہ ظہیر اور ٹیپو سے اپنے انداز میں انتقام لیا۔

ظہیر سے جب بینو کی شادی ہوئی تو اسے لگا کہ باقی تینوں کزنز سلیمان شیراز اور جمیل کے مقابلے پر وہ Right Man At Right Time تھا۔ وہ ان تین سے بہتر تھا۔ اس کی مایوس کن مردانگی اور بزدل کردار کے جوہر بعد میں کھلے۔

بینو جب اپنے بارے میں عدالت لگاتی ہے تو اس کا فیصلہ ہوتا ہے کہ سچ پوچھیں تو ایک اچھی شکل و صورت کے علاوہ اس کے پاس بھی کوئی ایسے خاص  Assets  نہیں۔ نہ زندگی کو بدل دینے کا حوصلہ ہے نہ کوئی ایسی تعلیم یا ہنر کے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرے۔ ظہیر البتہ اسے اپنے سے ہر حساب سے کم دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے پنجاب کی کئی لوئر مڈل کلاس لڑکیاں پولیس کے ایک اسٹنٹ سب انسپکٹر سے شادی کو اپنے درپیش حالات کو سامنے رکھ کر انہیں پرنس ولیم اور خود کو کیٹ مڈل ٹن مانتی ہوں۔ ظہیر سے اس کی مایوسی بستر سے شروع ہوئی اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ رشتے کی مانوسیت اور بے لطفی کی دلدل میں جا پھنسی۔ یہ اس وقت اپنے ہر اخلاقی بندھن سے آزاد ہوگئی جب وہ رقم لے کر وینکور دوڑ گیا۔

ٹوانہ کو بینو نے ظہیر کے جانے کے بعد دیکھا۔ وہ سچ پوچھیں تو اسے  Human Index  پر دونوں مردوں ظہیر اور ٹیپو سے بہتر لگے۔ کینیڈا میں جب اس نے انہیں بتایا کہ وہ باپ بننے جا رہے ہیں تو وہ اسے بہت دیر پیار کرتے رہے۔ اس لو۔ آف۔ مائی۔ لائف۔ بھی کہا۔ جیب سے فوراً تین ہزار ڈالر بھی نکال کر دیے۔ تب اس کا پانچواں مہینہ تھا۔ پہلے بچے پر پیٹ جلدی باہر نہیں آتا۔ وہ بہت Relaxed ہیں۔ اسے کہہ رہے تھے کہ اگر چیف منسٹر نے ڈرایا نہ ہوتا تو وہ کبھی فرار نہ ہوتے۔ محاسبے کے ادارے سفارش اور مال کی مدد سے سنبھالے جاسکتے ہیں۔ پاکستان میں فیصلے بکتے ہیں۔ فیصلے کے تین ایوان ہیں سو کروڑ سے پانچ سو روپے میں من چاہا فیصلہ وزیر اعظم، ڈیپ اسٹیٹ اور عدلیہ سے خریدا جاسکتا ہے۔ ہر سرکاری ادارے میں بڑا افسر تین سال کے لیے ہوتا ہے۔ اچھا عہدہ ہو تو صورت حال اور بھی غیر یقینی ہوتی ہے۔ ہر افسر یہ سوچتا ہے کہ ایک دفعہ یہ عہدہ نوکری چلی گئی توکمائی کا یہ موقع پھر نہیں آنا۔ ہم پولیس والوں کے تعلقات بھی بہت ہوتے ہیں۔ ہمارے بہت کم افسر محاسبے کی زد میں آئے جب کہ ہمارا ہر ایس ایچ او سو سے تین سو کروڑ کا مالک ہوتا ہے۔ میں تمام برائی چھوڑ کر تمہارے ساتھ آرام سے رہ سکتا تھا۔ تم سے شادی کرکے پولیس اکیڈیمی یا یو این کی کسی پوسٹنگ پر نکل جاتا ورنہ انٹیلی جنس بیورو میں تو لگنا کچھ مشکل نہ تھا۔ بس متعلقہ طاقتور حلقوں کو صرف اتنا سمجھانا ہوتا کہ وہ نیب والوں کو دیگر ملزمان کی دولت کا سراغ  لگانے میں مدد کریں گے۔ انہیں Asset Recovery Coordination کے خفیہ شعبے کی ذمہ داری دے دی جائے۔

اب ٹیپو کی بات۔ ان سے بینو کو عشق ہے۔ وہ اس کے پہلے مرد ہیں۔ فیض یاد ہے نا کہتے تھے جن کی آنکھوں نے نے بے سود عبادت کی ہے۔

ڈونگا گلی سے تو آخری ملاقات تک وہ ان کی نگاہوں کا ایک ایک رنگ، ہر لباس، ان کے لمس کا ہر ذائقہ، ان کی آغوش کی ہر خوشبو کو Recount کرسکتی ہے۔ اب وہ یہاں کینڈا میں نہیں تو اس کے باوجود جب زونی کو وہ گلے لگاتی، یا سونگھتی تو اس میں بینو کو ان کی خوشبو آتی ہے (جاری ہے)

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 95 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments