مریم نواز کی سیاسی اڑان



ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی سیاست آج کل ہر فورم پر موضوع بحث ہے۔ کوئی ٹاک شو ان کے ذکر کے بغیر آگے نہیں بڑھتا۔ نون لیگ کے ووٹرز اور سپورٹرز انہیں مستقبل کے سیٹ اپ میں کسی بڑے عہدے کے لائق سمجھتے ہیں۔ جب کہ ان کے مخالفین کا دن مریم نواز پر تنقید سے شروع ہوتا ہے۔ اور رات گئے تک وہ ان کے خلاف ٹویٹس اور بیان بازی کے ذریعے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہتے ہیں۔ درحقیقت مریم نواز کا سیاست کے میدان میں متحرک ہونا سرکار کسی صورت افورڈ نہیں کر سکتی۔ جب بھی وہ ٹویٹ کرتی ہیں یا کسی تقریب میں شرکت کرتی ہیں۔ حکومتی ترجمان ان کو تنقید کا نشانہ بنانے میں ہر حد کراس کر جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات کے دوران وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے ان کے عورت ہونے کا بھی لحاظ نہیں کیا۔ اور ان کے خلاف بڑے نامناسب الفاظ استعمال کیے۔

چند وزرا اور معاونین باقاعدگی کے ساتھ مریم نواز کی کردار کشی میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی شادی، بچوں، کپڑوں، جوتوں، میک اپ، پلاسٹک سرجری اور رہن سہن پر کیچڑ اچھالنے کی ریس لگی رہتی ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ان کو بڑے دلچسپ القابات کے ساتھ تنقید کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ جیسے کہ راج کماری، جعلی راج کماری، مہارانی، نانی اور کیلبری کوئین وغیرہ وغیرہ۔ ڈاکٹر صاحبہ کی یہی خوبی چیف منسٹر پنجاب اور وزیراعظم کو بہت پسند ہے۔

مگر تمام تر کردار کشی کے باوجود مریم نواز اس وقت مقبولیت کی بلندیوں پر براجمان ہیں۔ وہ کراؤڈ پلر ہیں۔ اور انہیں تقریر کرنے کا سلیقہ ہے۔ لوگ ان کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ ان کے جلسوں میں لوگوں کا جوش و خروش بڑا دیدنی ہوتا ہے۔ جلسے تو تحریک انصاف کے بھی بہت پر ہجوم ہوتے ہیں۔ مگر ان کے جلسوں کے شرکاء کا انداز یہ ظاہر کرتا ہے۔ جیسے انہیں زبردستی لا کر بٹھا دیا گیا ہو۔ اس کمر توڑ مہنگائی اور بے روزگاری میں کوئی سر پھرا ہی ہوگا۔ جو سرکار کے جلسوں کو رونق بخشے گا۔

مریم نواز کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بعد دوسری پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جو سیاست کے افق پر پورے آب و تاب کے ساتھ راج کر رہی ہیں۔ پاکستان کی دقیانوسی اور بے رحم سیاست میں کسی خاتون کی مقبولیت کو دل سے قبول نہیں کیا جاتا۔ بی بی شہید کے خلاف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے انہیں میدان سیاست سے آؤٹ کرنے کی کوششیں کیں۔ ان کو جلاوطنی کا عذاب بھی سہنا پڑا۔

موجودہ دور میں اقتدار کے ایوانوں میں یہ بات ڈسکس نہیں ہوتی۔ کہ عوام کو اس قیامت خیز مہنگائی سے کیسے بچانا ہے۔ بے روزگاری کے عفریت کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ بلکہ اقتدار کی کرسی پر براجمان شخصیات مریم نواز کو نیچا دکھانے کی پلاننگ میں مصروف رہتی ہیں۔

ن لیگ کی نائب صدر مخالف آوازوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سیاست کے میدان میں اپنے قدم آگے بڑھا رہی ہیں۔ انہوں نے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا اپنی والدہ کو کھویا ہے۔ ان کے والد اور بھائیوں کو پانامہ جے آئی ٹی کے روبرو پیشی کے دوران بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم نواز شریف کو گریڈ اکیس اور اس سے نچلے گریڈ کے افسران کے روبرو پیش ہو کر اپنے کردار کی صفائی دینی پڑی۔

وہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں نا اہل قرار پائے۔ شریف خاندان کو اب یہ احساس ہوا ہے۔ کہ نواز شریف کا بطور وزیراعظم جے آئی ٹی میں ہیش ہونا ایک غلط فیصلہ تھا۔

اس تمام قصے میں مریم نواز بڑے مضبوط اعصاب کے ساتھ کھڑی رہیں۔ اور اپنے والد کے بیانیے کو لے کر مسلسل آگے بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ مخالفین کی گز بھر لمبی زبانیں بھی ان کے عزم کو متزلزل نہ کرسکیں۔

مبصرین ان کے انداز سیاست کو پاکستان کے ہاٰئیبرڈ سسٹم میں موزوں نہیں سمجھتے۔ کیوں کہ موجودہ نظام میں ان کی کامیابی کے چانسز بہت کم ہیں۔

اب تو مریم نواز کے خلاف پلانٹڈ قسم کے کالم بھی لکھنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ جس کے ذریعے کالم نگار جاتی امراء کی اندر کی باتیں اپنے انداز میں چھاپ کر ن اور ش کے درمیان تلخ کلامی کی افواہیں پھیلانے میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم کے ایک سپیشل اسسٹنٹ نے جو ایک مشہور بیوروکریٹ کے بھائی ہیں۔ اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ سوال اٹھایا ہے۔ کہ ن اور ش میں تقسیم کی صورت میں لاہور ہائی کورٹ کس فریق کے حصے میں آئے گی۔ موصوف نے اس ٹویٹ کے ذریعے جو بے پر کی اڑائی ہے۔ اس کو لے کر سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ سا بپا ہے۔

آزاد کشمیر اسمبلی کے منعقدہ انتخابات میں مریم نواز نے بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ متاثرکن انتخابی مہم چلائی۔ اور بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا۔ سیاسی پنڈت مریم نواز کے پرہجوم جلسوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پیشن گوئی کر رہے تھے۔ کہ آزاد کشمیر کے لوگ اسلام آباد میں برسراقتدار جماعت کی کشمیر شاخ کو منتخب کرنے کی روایت تبدیل کر دیں گے۔ مگر بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔ اور حیران کن طور پر نون لیگ آزاد کشمیر اسمبلی کی صرف چھ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو سکی۔

اس سے بھی حیران کن بات یہ تھی۔ کہ پنجاب کے بعض شہروں سے مہاجرین کی بیشتر نشستیں نون لیگ گنوا بیٹھی۔ مگر مریم نواز کی ولولہ انگیز انتخابی مہم کی بدولت پانچ لاکھ سے زیادہ ووٹ ان کی پارٹی کے حصے میں آئے۔ جب کہ پی ٹی آئی چھ لاکھ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ نشستوں کی تقسیم کے گورکھ دھندے کو اگر ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے۔ تو نون لیگ آزاد کشمیر کی دوسری بڑی جماعت بننے میں کامیاب ہوئی ہے۔

ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر میں شکست اور سیالکوٹ کی صوبائی سیٹ کی ہار پر غور کرنے کے لئے شریف خاندان کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی ہے۔ جس میں پارٹی کی شکست کے اسباب اور مستقبل کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ بعد میں میاں شہباز شریف کے ایک نجی چینل کو دیے گئے انٹرویو اور ٹھیک اگلے دن میاں نواز شریف کے ٹویٹس یہ ظاہر کرتے ہیں۔ کہ بیانیے کی جنگ میں دونوں فریق اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ دراصل نواز شریف بیانیے کی جنگ میں بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ لہذا ان کے لئے پیچھے ہٹنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

میاں نوازشریف کی بڑی صاحبزادی مریم نواز کے انداز سیاست کے نون لیگ کے بہت سے راہنما بھی ناقد ہیں۔ وہ ان کے زیر کمان سیاست کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ ماضی میں چوہدری نثار بھی مریم نواز کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔

اگر ہم نوے کی دہائی کی سیاست کا جائزہ لیں تو ہمیں وہ وقت بھی یاد آتا ہے۔ جب بعض انکلز نے بی بی شہید کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ محترمہ کی سیاست کے راستے میں نہ صرف ریاست حائل تھی۔ بلکہ پیپلز پارٹی کے اندر سے بھی ان کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں۔ محض اسی وجہ سے وہ وزیراعظم کے عہدے سے دو دفعہ معزول ہوئیں۔

آج مریم نواز صاحبہ کو بھی اسی طرح کی صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک صفحے والوں کے علاوہ ان کے چچا اور حمزہ نواز کے علاوہ نون لیگ کے کئی راہنما بھی ان کی جارحانہ سیاست کے مخالف ہیں۔ دراصل یہ بیانیے اور مفادات کی لڑائی ہے۔ جو شریف برادران کے مابین چل رہی ہے۔ بڑے بھائی کے بیانیے کی وجہ سے چھوٹے بھائی کے کاروباری مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے سلیمان شہباز جو شہباز فیملی کے کاروباری سلسلے کے نگران ہیں۔ اپنے تایا اور ان کی صاحبزادی سے بڑے نالاں ہیں۔

ن لیگ دو بیانیوں کے گرداب میں بری طرح پھنس چکی ہے۔ محض اسی وجہ سے اقتدار کے ایوانوں میں اس کی رسائی ناممکن دکھائی دیتی ہے۔ اگر 2023 سے پہلے کسی واضح حکمت عملی پر پارٹی یکسو نہ ہوئی۔ تو اسے بڑا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments