بلوچ سردار وہ داغ ہیں جو اچھے ہوتے ہیں


بلوچستان سے باہر کسی بلوچ طالب علم کو اس بات پر اتنا غصہ نہیں آتا کہ ملک کے باقی شہریوں کو بلوچستان کے حالات سے متعلق کچھ پتہ ہی نہیں ہے بلکہ اس بات پر شدید قسم کا غصہ آتا ہے کہ تمھارے تو سردار ہی ترقی کے خلاف ہیں۔ ارے بھئی کون سردار؟ کہاں کے سردار؟ کیسے سردار؟ انھیں ان سب سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہوتا۔ بس یہی کہ بلوچ سردار ہی بلوچستان کی پسماندگی کے ذمہ دار ہیں۔ اب انھیں کوئی لاکھ سمجھائے کہ بلوچستان میں سردار کا مطلب ریاست۔ یہ انھیں سمجھ نہیں آنا۔ ماضی کی تاریخوں کا چھوڑ کر انھیں کوئی یہ بھی نہیں سمجھا سکتا کہ پی ٹی آئی ملک بھر میں بھر میں تبدیلی اور سونامی کے نعروں کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا لیکن جب بلوچستان میں آیا تو تبدیلی خود ہی تبدیل ہو گیا اور سونامی ہمارے محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کی طرح ہلکی گرج چمک میں۔ کیسے؟

اور اب آج یہ شہیدوں کا انقلابی پارٹی جیئے بھٹو کے نعروں میں اچانک سے بلوچ سردار جو بقول ان کے مرحوم قائد ذوالفقار علی بھٹو کے ”بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کے ذمہ دار یہاں کے سردار ہیں“ تو اب یہ سردار ”گڈ“ کیسے ہو گئے؟

امید تو یہی ہے کہ ایسے موضوعات جو بلوچستان سے متعلق ہوں اکثریت لنک کھولے بغیر ہی اپنا کمنٹ دے دیں گے لیکن ایک بار پھر ہی سہی سرداروں سے متعلق یہ تحریر پیش خدمت ہے۔ کیا پتہ چند لوگوں کو سرداروں اور ان کے اچھے اور برے ہونے کی تمام تر طریقہ کار کی تھوڑی سی اندازہ ہو۔

بلوچ سردار کون ہیں اور ان کی یہ دو کیٹیگریز گڈ سردار اور بیڈ سردار ہونے کا پیمانہ کیا ہے۔

گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی طرح بلوچستان میں گڈ سردار اور بیڈ سردار کے منصوبے پر وقتاً فوقتاً زور و شور سے کام جاری رہتا ہے۔ سردار بیڈ بھی ہیں اور ضرورت بھی، ان سے بلوچستان کو چھٹکارا بھی دلانا ہے اور انہیں سربراہی بھی دینا ہے۔

ایک وقت تھا جب روس کو شکست دینے کے لیے امریکہ کی امداد سے افغانستان میں طالبان سے مکمل تعاون کیا گیا کیونکہ اس وقت طالبان اچھے تھے پھر جب نائن الیون کے بعد امریکہ کو لگا کہ طالبان اچھے نہیں ہیں تو ہم نے پھر امریکہ کا ساتھ دیا اور کہا کہ طالبان گڈ نہیں ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا موقف بدلتا گیا اور سرکاری و ریاستی بیانیے کے ساتھ ساتھ ہمارے مذہبی جماعتوں میں بھی گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی تفریق واضح ہوتے گئی۔ آج ہم افغان جنگ میں امریکی اتحادی ہیں مگر ہماری مسجدوں میں ہر جمعے کے خطبے میں افغان مجاہدین یعنی طالبان کے لیے دعا ہوتی ہے کہ اللہ ان کی حفاظت فرمائے اور انہیں طاقت دے تاکہ افغان سر زمین پر اسلام کا بول بالا ہو۔

اسی طرح جب طالبان کا نیٹ ورک وسیع تر ہوا اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) منظر عام پر آئی تو ریاستی بیانیے سمیت ملک کے مذہبی حلقوں نے بھی ان کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں بیڈ طالبان کہا اور 1973 کے آئین کو اسلامی آئین قرار دے دیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت نافذ کرنے کی ضرورت نہیں۔

گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حوالے سے بھی ملکی میڈیا، ریاست اور دانشور طبقے سمیت عام شہریوں میں گڈ سردار اور بیڈ سردار کا نظریہ موجود ہے جو وقتاً فوقتاً سامنے آتا ہے۔ جس کے تحت کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہاں کے سردار ہیں جو ترقی کے خلاف ہیں مگر ان سرداروں کے ساتھ تعلقات بھی بنا کے رکھے جاتے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ بلوچوں کی سرداروں سے جان چھوٹ جائے مگر اپنی طرف سے بلوچستان کی مہار ہمیشہ کسی سردار کے ہی سپرد کی جاتی ہے۔

پی ٹی آئی انقلاب اور تبدیلی کی بات لے کر ملکی سیاست میں آئی، نوجوانوں کو آگے لانے کی بات کی لیکن بلوچستان میں پارٹی کی قیادت ایک بااثر شخصیت سردار یار محمد رند کے ہاتھوں میں دی، جو اس وقت صوبائی وزیر تعلیم کے منصب پر فائز ہیں، یعنی ایک گڈ سردار ہیں۔

مسلم لیگ نے آزادی کے وقت بھی بلوچستان کے سرداروں کو ترجیح دی جو محمد علی جناح کے قریبی لوگوں میں رہے اور آج تک کی تاریخ میں بھی تمام وفاقی پارٹیوں کی بلوچستان میں قیادت کسی نہ کسی با اثر سردار کے ہی ہاتھ میں ہے، جو بقول ان کے بلوچستان کے لیے ’بیڈ‘ ہیں مگر ان کے اپنے لیے ’گڈ۔‘

سردار اختر مینگل نے 2018 کے الیکشن میں حصہ لیا اور تبدیلی والی سرکار کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تو وہ اس وقت ایک گڈ سردار نکلے، باوجود اس کے کہ وہ ایک بیڈ سردار عطا اللہ مینگل کے بیٹے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کی ساری زندگی اور سیاست گڈ سردار کی رہی لیکن ان کی موت ایک بیڈ سردار کی طرح ہوئی۔ اس وقت بلوچستان کے وزیر اعلیٰ، جو پچھلی تین پشتوں سے صوبے میں مختلف ادوار میں حکمرانی کرنے والے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک با اثر قبائلی شخصیت ہیں، اداروں سمیت ملکی میڈیا کی نظر میں گڈ سردار ہیں۔

نواب نوروز خان جنہیں قرآن مجید کے نام پر مذاکرات کے لیے بلایا گیا تھا اور ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے ان کے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی اور انہیں جیل میں پھانسی دے دی گئی، وہ بیڈ سردار تھے۔ نواب خیر بخش مری بھی آخری وقت تک بیڈ سردار رہے لیکن بلوچستان کے باقی تمام کے تمام سردار جو شروع ہی دن سے ریاست کے ساتھ رہے ہیں اور اب تک ساتھ ہیں، سارے گڈ سردار ہیں۔

یعنی گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی طرح بلوچستان میں بھی اب گڈ سردار اور بیڈ سردار کے منصوبے پر زور و شور سے کام ہو رہا ہے۔ سردار بیڈ بھی ہیں اور ضرورت بھی، ان سے بلوچستان کو چھٹکارا بھی دلانا ہے اور انہیں سربراہی بھی دینا ہے۔ یہاں تک کہ مکران کا علاقہ جہاں سرداری نظام کو شکست دی جا چکی تھی، یہاں اب ہر 14 اگست اور یوم پاکستان کے دن اچانک سے گڈ سردار، گڈ میر اور گڈ با اثر شخصیات بڑے بڑے پوسٹروں پر آویزاں ہو کر نکل آتے ہیں۔

سردار جب تک خاموش ہے اور مقامی سطح پر غیر روایتی طریقوں سے سیاست پر قابض ہے، عدالتی نظام کے ہوتے ہوئے بھی اپنے جرگوں سے فیصلے کروائے اور جلوس و ریلیاں نکالے تو گڈ سردار ہے لیکن اگر ہٹ کر بولے تو بیڈ سردار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments