شہزاد اکبر سے ان کا عقیدہ کیوں نہ پوچھا جائے؟


اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان تو قائداعظم محمد علی جناح نے پہنچایا ہے۔ ان کی بدنام زمانہ تقریر جو انہوں نے پاکستان بننے سے چند دن قبل یعنی گیارہ اگست کو آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں کی تھی، بہت نقصان دہ تھی۔ اس تقریر نے دو قومی نظریہ، جماعت اسلامی اور نوائے وقت کو بہت پریشان کیا۔ یہ تقریر ریکارڈ پر لانے کے قابل ہی نہ تھی۔ جماعت اسلامی اور نوائے وقت نے جذبہ حب الوطنی سے مجبور ہو کر اپنے تئیں اس خطرناک تقریر کو حذف کرانے کی مخلصانہ اور بھرپور کوشش بھی کی لیکن اس نیک کام میں انہیں صرف جزوی کامیابی ہی مل سکی۔ مطلب تقریر تو نہ مٹ سکی لیکن اس کے اثرات کو اگر مکمل ختم نہیں بھی کر سکے تو بہت کم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہم سب ان کے احسان مند ہیں۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ قائداعظم کی پاکستان کی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچانے کی کاوشیں صرف تقریر تک محدود نہیں تھیں۔

فادر آف دی نیشن نے پاکستان کو مزید نقصان اس وقت پہنچایا جب اس نوزائیدہ ملک، جس کو بنانے کی تحریک کے رہنما وہ خود تھے، کی کابینہ کا انتخاب کیا۔ انہوں نے ایک ہندو اور ایک احمدی کو دو اہم وزارتیں دے دیں۔ یعنی جن لوگوں سے ہم نے جزیہ اکٹھا کر کے انہیں اوقات میں رکھنا تھا انہیں کو حکمران بنا دیا۔ ظاہر ہے قائداعظم کی ان غلطیوں کی وجہ سے پاکستان ابھی تک ایک اسلامی مملکت نہیں بن سکا۔ حالات بہت خراب ہو چکے تھے۔ وہ تو شکر ہے کہ جنرل ضیا الحق جیسے مرد مومن مرد حق اقتدار میں آئے اور جماعت اسلامی کی مدد سے انہوں نے وطن عزیز کو اسلامی مملکت بنا دیا۔

جنرل ضیا الحق ورلڈ لیول کے لیڈر تھے۔ ان کے حکومت میں رہنے کے شوق اور اسلام کی سربلندی کے جذبے سے امریکہ بھی بہت متاثر ہوا اور افغانستان میں اسلام کا بول بالا کرنے کے لیے مرد مومن مرد حق کا ساتھ دینے پر راضی ہو گیا۔ پاکستان اور افغانستان میں جو امن، ترقی، خوشحالی، انصاف پسندی اور دیانت داری آپ دیکھ رہے ہیں یہ اسی کاوش کا نتیجہ ہیں جس کا آغاز جنرل ضیا الحق نے امریکہ اور جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر کیا تھا۔

پاکستان میں امن، ترقی اور خوشحالی افغانستان سے کچھ کم ہے لیکن اوریا مقبول جان، انصار عباسی اور وینا ملک کو یقین ہے کہ مہمان امریکی فوج (طالبان امریکی فوج سے ڈرتے نہیں تھے بلکہ اسے مہمان سمجھتے تھے اس لیے ان کے احترام میں خاموش بیٹھے رہے اور اپنی کارروائیاں ان کے جانے کے بعد ہی شروع کی ہیں ) کی افغانستان سے واپسی کے بعد جہاد کی جو لہر اٹھی ہے وہ ساری کمی پوری کر دے گی اور پاکستان بھی بہت جلد ترقی کا یہ گیپ ختم کر کے افغانستان کے برابر آ جائے گا۔ ان کی امید کے ساتھ اتفاق کیے بنا چارہ نہیں کیونکہ لادین دنیا کی ساری رپورٹوں کے مطابق ہماری ترقی کے استعارے پہلے بھی افغانستان سے زیادہ دور نہیں ہیں اور گزرنے والے ہر اگلے سال یہ استعارے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اتنے قریب کہ مودی انڈیا کو بھی ہمارے راستے پر چلنے کا شوق ہو گیا ہے۔

مودی جی کی بھی یہی شکایت ہے کہ انڈیا کی آزادی کی تحریک چلانے والی کانگریس کی لیڈرشپ نے سیکولرازم کے نام پر انڈیا کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انڈیا میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں کو شہ ملی اور وہ اپنے سٹیٹس کو ہندو اکثریت کے برابر سمجھنے لگے تھے۔ اب مودی جی کا دوسرا دور جاری ہے اور انڈیا کی مذہبی اقلیتوں کو ان کا اصلی مقام نظر آنا شروع ہوا ہے۔ اب اقلیتیں وہ خوف محسوس کرتی ہیں جس کا احساس انہیں پہلے دن سے ہونا چاہے تھا۔ مذہبی اقلیتوں کو برابر کا سٹیٹس دینے سے ہندو اکثریت، جو کہ انڈیا کی آبادی کا صرف چوراسی فیصد ہیں، کو انڈیا سے مٹ جانے کا جو حقیقی خوف لاحق ہو گیا تھا، وہ کچھ کم ہوا ہے۔

پاکستان میں بھی کام جاری ہے کہ مسلم اکثریت جو کہ ملک کا صرف ستانوے فیصد سے کچھ ہی زیادہ ہے اسے اقلیتوں کے خوف سے نکالا جائے۔ یہ سب کرنے کے لیے مذہب پر توجہ دینا پڑتی ہے اور ریاست کے تمام معاملات کو مذہب کے ماتحت لانا پڑتا ہے۔ ایسے میں کسی کو بھی اہم سرکاری عہدہ دینے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ آنے والے عہدے دار کا فرقہ یا مسلک کیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مخالف فرقے کا کوئی ممبر بھیس بدل کر آ جائے اور ریاست کی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچا دے۔

اس لیے جب وزیراعظم عمران خان نے غلطی سے پروفیسر ڈاکٹر عاطف میاں کو اکنامک ایڈوائزری کونسل کا ممبر مقرر کیا تھا تو یہ فیصلہ تحریک لبیک کے عقل مندانہ مشورے، عوام کے بھرپور احتجاج اور پارلیمانی وزیر علی محمد خان کے درد دل کے واسطے لیڈرشپ کی یوٹرن جیسی مہان خصوصیت کا استعمال کرتے ہوئے واپس لے لیا گیا تھا۔ اسی طرح کے شاندار فیصلوں کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان کی معیشت اتنی مضبوط ہے اور عوام ہر اگلے دن پہلے سے کہیں زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں۔

جناب شہزاد اکبر صاحب آپ کی اپنی گفتگو، کارکردگی اور پارٹی وابستگی یہ بتاتی ہے کہ آپ بھی پاکستان کی نظریاتی اساس سے پیار کرنے والے ہیں اور خدانخواستہ کوئی سیکولر یا دیسی لبرل قسم کے آدمی نہیں ہیں۔ اسی لیے جب عاطف میاں کو جوائن کرنے پہلے ہی باہر کرنے کا فیصلہ ہوا یا جب سویپر کی نوکری کو صرف غیر مسلموں کے لیے مشتہر کیا جاتا ہے تو آپ کو کوئی پرابلم نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب لاہور میں موٹر وے پر ایک عورت اپنی غلطی کی وجہ سے ریپ ہوئی تھی تو آپ سی سی پی او لاہور کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ وہی سی سی پی او جنہیں بخوبی علم تھا کہ عورت کے ریپ کی وجہ ٹینکی میں پٹرول کی کمی تھی۔

تو اسی تسلسل میں عرض ہے کہ سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے کیونکہ عقیدے کا سوال واپس مڑ کر گھر آتا ہے۔ ہاں البتہ اگر اس سوال سے آپ کو اپنی اور اپنی فیملی کی حفاظت خطرے میں لگی ہے تو پھر سوچیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments