لبرل مافیا، خونی لبرل اور موم بتی والی آنٹیاں


پہلے پہل جب ”لبرل مافیا“ کی اصطلاح سننے کو ملی تو ہم ایک عرصہ تک اسے ”سیسیلین مافیا“ طرز کی کوئی تنظیم سمجھتے رہے۔ لڑکپن میں ماریو پزو کا ناول گاڈ فادر پڑھنے کا موقع ملا تھا اور اس ناول پر بنائی گئی فلم بھی دیکھ چکے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ رشوت مافیا، ملاوٹ مافیا، کلرک مافیا، پٹواری مافیا، نقل مافیا اور اس طرح کے بھانت بھانت کے مافیاؤں کے متعلق پڑھنے اور سننے کو ملتا تھا۔ اور شوگر مافیا کی کہانی تو ابھی کل ہی کا قصہ ہے۔

سو قیاس یہی تھا کہ یہ بھی اسی طرز کا کوئی ”ہلکا پھلکا“ مافیا ہو گا جو کچھ کالے دھندوں کی پشت پناہی کرتا ہو گا۔ مگر جب سوشل میڈیائی مجاہدین نے ”لبرل مافیا“ کی سیاہ کاریاں اور خفیہ ایجنڈا عیاں کرنا شروع کیا تو اپنی نادانی پر ندامت ہوئی۔ ہم جسے ایک معمول کا مافیا سمجھے بیٹھے تھے تو وہ تو ایک شیطانی ”کلٹ“ ثابت ہوا، جس کا ایجنڈا آزادی اور روشن خیالی کی آڑ میں مذہبی تعلیمات اور مشرقی روایات پر ضرب لگانا اور سادہ لوح عوام کو طاغوتی قوتوں کے چنگل میں پھنسا کر گمراہی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔

یقین مانیے یہی لبرل تعلیمات معاشرے میں اخلاقی بگاڑ، تشدد آمیز رویوں اور روزانہ کی بنیاد پر بڑھتے جنسی جرائم کا سبب ہیں۔ آج کل خبروں کی زینت بنے نور مقدم قتل کیس کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ اس کیس سے منسلک حقائق کا نیک نیتی سے تجزیہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ مبینہ قاتل و مقتولہ دونوں لبرل طرز زندگی کے حامل تھے۔ اور شنید ہے کہ ”لیو ان ریلیشن شپ“ میں بطور بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ رہتے تھے اور بوائے فرینڈ کا گرل فرینڈ سے نہ صرف یہ کہ رویہ توہین آمیز تھا بلکہ وہ اس پر تشدد بھی کیا کرتا تھا۔

یہیں سے لبرل طرز زندگی کا کھوکھلا پن عیاں ہے۔ ہم مشرقی اقدار کے حامل لوگ ہیں۔ ہمارے یہاں اگر شوہر بیوی کی توہین کرتا ہے یا اس پر تشدد کرتا ہے تو بدلے میں وہ اس کا نان نفقہ برداشت کرنے کا بھی پابند ہے۔ اور دوسری جانب یہ لبرل طرز زندگی جہاں گرل فرینڈ خالی خولی محبت کے نام پر مار بھی کھاتی رہی اور توہین بھی برداشت کرتی رہی اور نان نفقے کا بوجھ پھر بھی اس کے والدین کے کاندھوں پر ہی رہا۔

جی ہاں ہم عورتوں کو قتل کرتے ہیں، ان پر تیزاب بھی پھینکتے ہیں، موڈ بنے تو زندہ جلا بھی دیتے ہیں۔ ہلکی پھلکی سرزنش مقصود ہو تو ناک وغیرہ کاٹ ڈالتے ہیں۔ لیکن یہ سب کس لیے؟ معاشرے کی اصلاح اور بہتری کے لیے۔ اپنی ماؤں، بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں کو یاددہانی کے لیے کہ ہمارے مذہب نے انہیں کس قدر حقوق دے رکھے ہیں اور ہماری مشرقی تہذیب نے انہیں کیسا بلند مقام دیا ہے۔ آپ خود ہی انصاف کیجیے، اب اگر ان میں سے کوئی ان سب احسانات کی ناقدری کرتے ہوئے شیطان کے بہکاوے میں آ کر راہ راست سے بھٹکنے لگے تو معاشرے کو اجتماعی بگاڑ سے بچانے کے لیے گاہے گاہے ایسی مثالیں قائم کرنا کیا ہمارا فرض نہیں؟

ایک جانب تو ہم ہیں جن کے ہر فعل کی بنیاد خاندانی نظام کی مضبوطی، مشرقی روایات کی پاسداری، بے راہ روی کے قلع قمع اور معاشرے کی فلاح کو یقینی بنانے کے جذبے پر استوار ہے، دوسری جانب یہ ”خونی لبرل“ جن میں اولاً تو غیرت و حمیت کا اس قدر فقدان ہے کہ ایسی مثالیں قائم نہ کر سکنے کے باعث ان کی عورتیں ”شتر بے مہار“ ہیں ، اور اگر ان میں سے کسی نے ایسی ”بلند ہمتی“ دکھا ہی دی ہے تو اب اس کا قتل کا کوئی مضبوط جواز دینے سے بھی قاصر ہے۔

حد تو یہ ہے کہ اپنی بے شرمی و بے حیائی اور جنسی تعلق قائم کرنے کی آزادی کو یہ لبرل طبقہ ”میرا جسم، میری مرضی“ اور ”باہمی رضامندی سے قائم شدہ جنسی تعلق“ جیسی گمراہ کن اصطلاحات کے پردے میں چھپا کر عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہے۔ جب ہم ان پر تنقید کریں تو بدلے میں ہمیں عورتوں اور بچے بچیوں سے ریپ کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ بلکہ حد تو یہ ہے کہ اپنی منکوحہ سے بغیر اس کے اذن کے وظیفۂ زوجیت ادا کرنے کو بھی یہ کم عقل لوگ ریپ کی مد میں شمار کرتے ہیں۔

یعنی اگر مومن مرد کو وظیفۂ زوجیت کی ادائیگی کے لیے بھی اپنی منکوحہ کا اذن درکار ہے تو تف ہے ایسے رشتۂ ازدواج پر۔ اگر اپنے کھیت میں ہل چلانے کے لیے بھی کسان کو اجازت کی ضرورت ہو تو بقول شاعر مشرق ”اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو“ ۔ اور بھلا کون سی نیک بی بی ہو گی جو اخروی زندگی کی نعمتوں کی طلب میں ہر پل اپنے سرتاج کی ہر ضرورت پورا کرنے پر تن، من اور دھن سے تیار نہ ہو گی؟ رہا سوال ریپ کا تو یہ بھی دھیان میں رہے کہ یہ فعل قبیح سہی، مگر باہمی رضامندی سے قائم کردہ جنسی تعلق سے تو بہرحال کم برا ہے۔

اگر کوئی مرد اپنی خواہشات نفسانی سے مغلوب ہو کر ایسا فعل کرنے پر مجبور ہو بھی جاتا ہے تو اس میں بار گناہ صرف فریق غالب کے سر ہے۔ فرض کیجیے (میرے منہ میں خاک) اگر کسی طور اس ”لبرل مافیا“ کے پروپیگنڈے کے زیر اثر باہمی رضامندی سے قائم کردہ جنسی تعلق کے گھناؤنے فلسفے کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو دونوں فریقین کی باہمی رضامندی کی صورت میں دونوں ہی شریک جرم اور گناہگار ٹھہرے۔ اس کا نتیجہ ظلم اور گناہ میں اضافے کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔

اور یہ جو ریپ کے دھبے ہمارے معاشرے پر لگے ہیں، ان کی ذمہ دار بھی یہ ”لبرل آنٹیاں“ ہی تو ہیں جنہوں نے اپنی این۔ جی۔ اوز کی تشہیر اور بیرونی فنڈنگ کے لالچ میں پردوں اور بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے اس فعل کا سر بازار چرچا کرنا شروع کیا۔ انہیں ملک و قوم کی نیک نامی سے بھلا کیا سروکار؟ شرم و حیا کی پتلیاں، ہماری مشرقی عورتیں۔ ہلکے پھلکے ریپ کو تو چپ چاپ سہ جایا کرتی تھیں، مگر باپ، بھائی کی پگڑی کو داغ نہیں لگنے دیتی تھیں۔

ادھر ان لبرل آنٹیوں نے زور پکڑا اور ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایسے واقعات کا شکار ہونے والی بھولی بھالی خواتین کو میڈیا میں لا کر اور قانونی چارہ جوئی کے چکروں میں ڈال کر نہ صرف یہ کہ ان کے خاندان کی عزت بھی سر بازار اچھالی بلکہ عالمی برادری میں ملکی ساکھ بھی خراب کروائی۔ یقین مانیے یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ قصہ مختصر، اب یہی دیکھ لیجیے کہ اگر اب بھی یہ ظاہر جعفر نامی نوجوان اپنے لبرل ازم کے فلسفے سے تائب نہ ہوا ہوتا اور یہی سمجھتا رہتا کہ اپنی گرل فرینڈ کے جسم پر وہ اپنی مرضی نہیں چلا سکتا، تو آج بھی وہ اخلاق باختہ لڑکی اپنے لبرل خیالات کے باعث معاشرے میں اخلاقی بگاڑ کا سبب بن رہی ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments