عمران خان زندہ باد


یہ سب اللہ پاک کا نظام قدرت ہے۔ وہی جسے چاہے بادشاہ بنا دے اور جسے چاہے ذلیل اور رسوا کر دے۔ ساری بڑائی اللہﷻ کو ہی کو سزاوار ہے۔ حالات اور واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں جو اچھے بھی اور بُرے بھی ہوتے ہیں۔ اچھے حالات ہماری اچھائیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں اور حالات کا بگڑ جانا یا خراب ہو جانا بھی ہمارے ہی اعمال کی شامت ہوتی ہے ہم پاکستانی ہیں اور ہمارے حالات پچھلی چار دہائیوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں اور مزے کی بات یہ ہر آنے والا پہلے کو برا بھلا کہ کر اپنا وقت گزارتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں تین بار ماشل لاء لگا اور جمہورہت کا بھی عرصہ تقریباً اتنا ہی بنتا ہے۔ جمہوریت نے 1971 کے بعد زیادہ پر پرزے نکالے۔ اس سے قبل ملک صدارتی نظام سے چل رہا تھا۔ پھر بھٹو صاحب تشریف لائے اور انہوں نے موجودہ پارلیمانی نظام کی داغ بیل ڈالی۔

بھٹو صاحب نے ہی 1973 کا نیا آئین مرتب کیا۔ بھٹو صاحب ایک ذہین اور پڑھے لکھے لیڈر تھے۔ انہوں اپنے طور پر بہتر گورننس کرنے کی کوشش کی لیکن دوسرے دور میں دھاندلی کو ایشو بنا کر اپوزیشن اتحاد نے حالات اس قدر خراب کر دیے کہ فوج کو مداخلت کا موقع مل گیا۔ 1977 میں بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا اور ملک میں تیسرا مارشل لا لگ گیا۔ جو مرحوم جنرل محمد ضیاءالحق کا مارشل کا تھا جس کا دورانیہ تقریبا ً 11 سال رھا۔

 جنرل صاحب کی وفات کے بعد پھر ایک بار پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع مل گیا جو محض تھوڑے عرصے تک ہی چل سکی۔  جنرل ضیا الحق صاحب کے دور حکومت میں کچھ افراد جو غیر سیاسی سمجھے جاتے تھے فوج کے قریب ہوئے اور سیاستدان اور لیڈر بن گئے

آمریت کی گود سے پرورش پانے والے اس سیاسی خاندان کا نام میاں محمد شریف اینڈ کمپنی تھا۔ جس کے سرخیل جناب میاں محمد نواز شریف صاحب تھے بعد میں انہی کے بھائی میاں محمد شہباز شریف بھی میدان عمل میں کود گئے اور تین مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔

 ان کے مہربان جناب گورنر غلام جیلانی تھے جو اس وقت پنجاب کے گورنر تھے۔ انہی کے دست شفقت سے فیض یاب ہوکر یہ خاندان مسند اقتدار تک پہنچ گیا۔ تاریخ گواہ ہے میاں صاحب نے کوئی سیاسی جدوجہد نہیں کی۔ آمریت کی چھتری سے پروان چڑھے ان کو ضیا الحق مرحوم کا لے پالک کہ لیں یا باقیات اب یہ آپ کی مرضی ہے۔

 بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

الغرض 1988 سے 1998 تک میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی رسہ کشی جاری رہی۔ بدقسمتی سے کوئی بھی اپنا پانچ سالہ دور ضکومت پورا نہ کر سکا۔ پھر 1999 میں ایک دفعہ پھر مارشل لا لگ گیا جو جنرل پرویز مشرف نے لگایا یہ دور حکومت تقریبا ً دس سال تک چلی۔

میاں صاحب دس سال کا معاہدہ یعنی این آر او لیکر سعودیہ عرب تشریف لے گئے پھر اور 2008 میں جمہوریت کو موقع دیا گیا اور الیکشن ہوئے۔ اسی الیکشن مہم کے دوران محترمہ بے نظیر شہید ہوگئیں اور پیپلز پارٹی کو حکومت کا موقع ملا۔ انہوں نے پانچ سال ہورے کئے۔ اس الیکشن میں پی ٹی آئی نے حصہ نہیں لیا اور وہ اسمبلی سے باہر رہی۔

اسکے بعد 2013 میں الیکشن ہوئے اور مسلم لیگ ن پہلے نمبر پر اور پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر آئی اور پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر آئی۔ اس دفعہ پھر جناب میاں صاحب کو وزیراعظم بننے کا موقع ملا جس کے پس پردہ وہی معاہدہ تھا جس کو میثاق جمہوریت کہتے ہیں۔

 اسی دوران پانامہ لیک ہوئی جس نے دنیا کے بڑے بڑے چوروں کو بے نقاب کیا اور اس میں ہاکستان کے تقریبا ً 150 افراد کے نام آئے جس میں سرفہرست میاں محمد نواز شرییف صاحب کا خاندان تھا۔ سپریم کورٹ میں میاں صاحب اور ان کی بیٹی پر مقدمہ چلا۔ میاں صاحب کو سزا ہوئی اور ساتھ ہی ان کی بیٹی محترمہ مریم صفدر کو بھی۔

ان دونوں پارٹیوں نے اپنے تقریبا ً 35 سالہ دور حکومت میں سوائے قرضہ لینے اور مال بنانے کے کچھ نہیں کیا۔

پھر 2013 کا الیکشن ہوا۔ پی ٹی آئی جو نواز دور میں صرف کے پی کے  میں حکومت بنا سکی تھی، اکثریت لے کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی گو اس کے اتحادی بھی کوئی قابل ذکر نہیں اور نہ اتحادیوں کا کریکٹر کوئی اعلی درجے کا ہے۔

2018 کے انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی حکومت کو بہت بڑے چیلنج ملے، جس میں بیرونی قرضے اور کرنٹ اکاونٹ کا خسارا بھی تھا۔  ابھی اس حکومت کو تقریبا 36 ماہ ہی ہوئے ہیں لیکن یہ عمران خان کی کوششوں کا ہی ثمر ہے کہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ ختم کردیا گیا اور اب یہ خسارہ سرپلس ہوچکا ہے۔ اب تک موجودہ حکومت دس ہزار ارب ڈالر کا قرضہ بھی اتار چکی ہے۔ اکنامک انڈیکیٹر بہت ہی مثبت ہیں اور یہ سب عمران خان کی محنتوں کا ثمر ہے۔

اب اپوزیشن کے پیٹ میں بہت مروڑ اٹھ رھے ہیں کہ کوئی ایسی تدبیر کی جائے اگر یہ حکومت ہانچ سال پورے کر گئی تو ہھر ہمارا نسل در نسل حکومت کرنے کا خواب چکنا چور ہو جائے گا اب ان اپوزہشن والوں کی بھر پور کوشش ہے کہ عمران کی حکومت گرا دی جائے اور ہم پھر سے مسند اقتدار پر بیٹھ جائیں۔

عمران خان کوئی حادثاتی لیڈر نہیں اسکے پیچھے اس لیڈرکی 22 سالہ جدوجہد کارفرما ہے۔ ہم سوال کرتے ہیں کیا قائداعظم ؒ کے بعد کوئی ایسا لیڈر ہے جو اپنے ذاتی گھر میں رہ رہا ہو اور اس گھر کے سارے اخراجات اپنی جیب سے اٹھا رہا ہو۔ اس بات کی نظیر نہیں ملتی اور نہ ملے گی۔

اب حال یہ ہے 35 سال تک ایک دوسرے پر تھوکنے والے آج شیروشکر ہو چکے ہیں۔ کل تک ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر پیسہ نکالنے والے ایک ہی کنٹینر پر آوازے کس رھے ہوتے ہیں۔ عمران کا ماضی نہایت صاف اور شاندار ہے اور ان شاء اللہ مستقبل بھی بہت شاندار ہو گا جس کوئی مثال نہیں ملے گی۔

یہ دو نمبر لیڈر امریکہ میں جا کر خان کو بنیاد پرست اور پاکستان میں آکر یہودی ایجنٹ کہتے ہیں۔ ہم یہ بات پورے وثوق سے کہ سکتے ہیں کہ ہر وہ بندہ جو بد دیانت اور کرپٹ ہوگا جانچنے پر یقیناً نون لیگ یا پی پی پی کا ہی نکلے گا۔  کوئی دیانتدار اور سمجھدار بندہ نونی اور جیالا نہیں ہوگا یہ سب کچرا ان ہی دو پارٹیوں کا ہے۔

 ان دونوں پارٹیوں نےاس نظام کو اس قدر گندہ کر دیا ہے کہ ہر بندہ آج کے دور میں بددیانتی کو رزق حلال تصور کرنے لگ پڑا ہے۔ اب یہ وبا اتنی خوفناک شکل اختیار کرچکی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ ہر ادارے کے اندر ان کے سفارش زدہ بھرتی شدہ افراد اس وقت موجود ہیں جو ترقی کرتے کرتے اہم حثیت اختیار کر گئے ہیں۔

لیکن قربان جائیں اس مرد آہن کی استقامت پر جو ڈٹ کر کھڑا ہے اور اس کے ایمان میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ تنہا ہر طرح کے مافیا کے خلاف جنگ کو تیار ہے۔

میاں نواز شریف جو سیاسی تو نہیں البتہ کرپٹ اور جھوٹے ضرور ہیں، پیسے کا استعمال ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا، اس دفعہ بھی جعلی بیماری کا ڈھونگ رچا کر عدالت کی ساتھ ملی بھگت کرکے لندن بھاگ گئے ہیں۔ ہم انکے حمایتیوں سے ایک سوال کرتے ہیں کیا لیڈر جھوٹے اور بزدل ہوتے ہیں۔

 ہماری دانست میں میاں صاحبان کو نہ تو اس ملک سے محبت ہے اور نہ ہی عوام سے ان کے لیے پاکستان ایک شکار گاہ جہاں آ کر شکار کھیلا، مال بنایا اور جب مشکل وقت آیا تو دوڑ لگا دی ۔ہمیں ان لوگوں پر ترس آتا ہے جو اب بھی کہتے ہیں۔ میاں دے نعرے وجن گے۔

 اگر احباب ایک مفاد پرست اور بھگوڑے کی حمایت نہیں چھوڑ سکتے تو ہم ایک اچھے اور ایماندار انسان کا ساتھ کیوں چھوڑیں۔

عمران خان ان شاء اللہ اس ملک کی تقدیر بدلے گا۔ جتنا زور لگانا ہے لگا لو۔ عدلیہ خرید لو۔ ادارے خرید لو لیکن یاد رکھنا بچو گے نہیں۔ ہماری ساری دعایں خان کے ساتھ ہیں، وہ ایک عظیم لیڈر ہے۔ ان جوتی چور لیڈروں میں کوئی بھی اس کے پائے کا نہیں۔ عمران زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments