تین شوہروں کےتین بچے اور ایک اکیلی امریکی ماں


یہ کہانی ایک ایسی ماں کے گرد گھومتی ہے جو اپنے ایسے تین بچوں کو پال رہی تھی جن کے باپ الگ الگ ہیں۔ امریکہ میں لاکھوں عورتیں، اپنے دو یا اس سے زیادہ شوہروں کے بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ امریکہ میں ازدواجی ناچاقی، بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے جھگڑوں سے سوتیلا پن پروان چڑھ رہا ہے۔ وہاں ایک بچے کو اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں کئی سوتیلے رشتوں سے نباہ کرنا پڑتا ہے۔ سوتیلا باپ یا سو تیلی ماں اور کئی سوتیلے بہن بھائی، جن کے ساتھ ایک امریکی بچے کو گزارا کرنا پڑتا ہے۔ سوتیلے رشتوں کا تلخ تجربہ رکھنے والے لوگ بڑے ہو کر شادی کے بندھن میں بندھنے سے ڈرتے ہیں، شاید اسی لیے امریکہ میں خاندانی نظام تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

امریکہ میں شادی کے بندھن کو قدرے آزاد رکھا گیا ہے۔ اگر مرد اور عورت چاہیں تو شادی کے بغیر بھی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ امریکہ میں ازدواجی رشتوں کو قائم رکھنے کے لیے کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ امریکی جوڑوں کی طلاق سے متعلق ہے۔ امریکہ میں اکثر مردوں کو اپنی بیوی سے طلاق حاصل کرنے کے لیے بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے اور اپنی کمائی اور جائیداد کا کچھ حصہ عورت اور بچوں کے نام وقف کرنا پڑتا ہے۔

طلاق کے مسائل اور ممکنہ نتائج سے بچنے کے لیے بہت سے امریکی جوڑے نکاح کیے گئے بغیر، بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے طور اکٹھے رہتے ہیں۔ ان دونوں ہاں بچے پیدا ہونے کی صورت میں، بچوں کو پالنے کی بنیادی ذمہ داری ماں پر عائد کی جاتی ہے اور بچے اپنی ماں کے پاس ہی رہتے ہیں۔ امریکہ میں مادر سری معاشرہ تشکیل پا رہا ہے اور شاید اسی لیے امریکہ میں بچوں کی شناخت کے لیے ماں کے نام کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ امریکہ میں باقاعدہ شادی کے بغیر بچے پیدا کرنے کا رجحان بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی قیمت ان لاکھوں معصوم بچوں کو چکانی پڑ رہی ہے جو علیحدگی کی صورت میں اپنے والدین کے سائے سے محروم رہتے یا وہ اپنی سوتیلی ماں یا سوتیلے باپ کے زیر سایہ پلتے ہیں۔

کیتھرین ایک مہربان دل رکھنے والی امریکی خاتون ہے۔ اس نے اپنی ازدواجی زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے۔ اس کا پہلا بوائے فرینڈ ایک کار حادثے میں جاں بحق ہو گیا جس سے اس کی ایک اولاد تھی اور وہ بہت ہی پیارا، نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والا خوبصورت لڑکا تھا۔ کیتھرین نے اپنے پہلے بوائے فرینڈ کی وفات کے بعد ایک افریقن امریکن لڑکے سے تعلقات استوار کیے۔ کئی ڈیٹس کے بعد ان دونوں نے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ دونوں کے ہاں گھنگریالے بالوں اور چمکتی آنکھوں والی ایک خوبصورت لڑکی پیدا ہوئی۔

کیتھرین اور اس کا بلیک بوائے فرینڈ کچھ عرصہ ساتھ رہے مگر پھر دونوں کے درمیان معاشی بنیادوں پر گھریلو جھگڑے ہونا شروع ہو گئے۔ لڑکا بے روز گار تھا اور کیتھرین اسے گھر کی ذمہ داریاں نبھانے میں مدد کر نے کا مطالبہ کرتی تھی۔ آخر ایک دن کیتھرین کا بوائے فرینڈ اسے بن بتائے گھر سے چلا گیا اور کبھی مڑ کر اپنی بچی اور سابقہ گرل فرینڈ کی جانب مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ کیتھرین فل ٹائم جاب کرتی تھی اور اب دو بچوں کو پالنے کی ذمہ داری بھی اس کے کندھوں پر آن پڑی۔ دن کے وقت وہ اپنے بچوں کو ڈے کیئر سنٹر چھوڑتی جو شام تک وہیں کسی اور کی نگرانی میں پرورش پاتے۔

کیتھرین کی زندگی میں سکون نام کی چیز ختم ہو کر رہ گئی۔ وہ اپنے بچوں کے لیے اجنبی بنتی جا رہی تھی۔ وہ پریشان تھی کہ بچے تیزی سے بڑے ہو رہے ہیں اور ان کے سکول میں داخلے کا وقت بھی قریب آ رہا تھا۔ جس کا مطلب تھا، کیتھرین کی مجبوریوں اور بچوں کے اخراجات میں اور اضافہ۔ سکول میں داخل ہونے کی صورت میں وہ بچوں کو سکول چھوڑنے اور وہاں سے لے آنے کی بھی ذمہ دار تھی اور پھر انہیں شام تک کسی چائلڈ کیئر سنٹر میں بھی چھوڑنا پڑتا۔ اگرچہ امریکی سرکار کی طرف سے بچوں کی ماؤں کو کچھ امدادی فنڈ ملتا ہے لیکن بڑھتی مہنگائی اور گھر کے اخراجات دیکھیں تو یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر معلوم ہوتی ہے۔

آخر کار کیتھرین نے بڑی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ کسی بوائے فرینڈ کو اپنے ساتھ رکھنے کی بجائے، باضابطہ شادی کر کے اپنا گھر بسائے گی تاکہ اس کا شوہر، بچے پالنے میں اس کی مدد کر سکے اور یوں اسے اکیلا چھوڑ کر جانے کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ بھی نہ کرے۔ اپنی نوکری اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ اس نے ڈیٹنگ سائٹس پر اپنے لیے ایک شوہر کی تلاش بھی شروع کر دی۔ کیتھرین نے بڑی دیانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تعارف میں لکھا کہ وہ ایک سنگل مام ہے، دو بچوں کی ماں، ایک بچہ گورے رنگ کا اور دوسرا افریقی باپ سے ہے، وہ فل ٹائم کام کرتی ہے اور اسے ایسے شوہر کی تلاش ہے جو ازدواجی تعلق نبھانے میں سنجیدہ ہو اور اس کے بچوں کو ایک باپ کا پیار بھی دے سکے۔

کیتھرین درمیانے قد اور واجبی سی شکل و صورت رکھنے والی تیس سالہ ایشین خاتون تھی۔ بہت سے نوجوانوں نے اسے محبت کے پیغام بھیجے لیکن کوئی بھی اسے سنجیدہ امیدوار نظر نہ آیا۔ آخر کار ایک ادھیڑ عمر میکسیکن، کیتھرین کا دل جیتنے میں کامیاب رہا۔ وہ امریکہ میں مہاجر تھا اور اکیلا زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے۔ وہ چھتوں پر ٹائیل فٹنگ کا کام کرتا تھا اور اس کی آمدنی بھی اچھی تھی۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ امریکہ میں فیملی لائف شروع کرنے اور اپنے بچے پیدا کرنے اور انہیں کامیاب امریکی بنانے میں سنجیدہ تھا۔

کیتھرین اور میکسیکن امریکی نے شادی سے پہلے کچھ وقت ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا اور وہ دونوں کئی ڈیٹس پر بھی گئے۔ آخر دونوں نے باہمی رضا مندی سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ دونوں کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کی آنکھیں اور ناک ایشین لوگوں جیسے تھے اور رنگت گندمی، یعنی اپنے باپ پر گئی تھی۔ یوں کیتھیرین کا گھر ایک خوبصورت گلدستے کی طرح سجا ہوا نظر آنے لگا۔ اس میں یورپ، ایشاء، افریقہ اور نارتھ امریکہ کے لوگوں، رنگ و نسل اور پس منظر کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔

شادی کے بعد کیتھرین کی زندگی میں کچھ سکون آیا۔ اس نے اپنی فل ٹائم جاب چھوڑ کر پارٹ ٹائم کام کرنا شروع کر دیا۔ ہفتے میں پانچ دن وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتی۔ ویک اینڈ پر جب اس کا شوہر گھر ہوتا تو وہ جاب کرنے چلی جاتی۔ اس کی ازدواجی زندگی میں کچھ سال سکون سے گزرے لیکن پھر ایک اضافی مسئلے نے سر اٹھا نا شروع کر دیا۔ دونوں میاں بیوی میں توتکار رہنے لگی۔ شوہر کو ناراضگی رہتی کہ کیتھرین اس کے بیٹے کو نظر انداز کرتی ہے اور اپنے سابقہ شوہروں کے بچوں پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔ کیتھرین کو بھی اپنے شوہر سے شکوہ رہتا کہ وہ اپنے سوتیلے بچوں کو باپ کا پیار نہیں دیتا۔

جب دلوں میں فاصلے بڑھنے لگیں تو انسان کو دوسروں میں کئی عیب نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کیتھرین کے شوہر کو ہفتے میں دو دن بے بی سٹنگ کرنا پڑتی کیونکہ وہ ہفتے اور اتوار کو دو دو شفٹ میں لگاتار کام کرتی تھی۔ کیتھرین تھکی ہاری کام سے واپس آتی اور گھر آتے ہی کھانا کھا کر سو جاتی تھی۔ ویسے بھی کام کرنے والی عورت کے لیے اپنے شوہر اور بچوں کو ٹائم دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ بھی انسان ہے اور ہر انسان کو آرام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہفتے کے پانچ دن وہ بچوں کا خوب خیال رکھتی لیکن اس کا شوہر دن بھر کام کرتا اور وہ شام کو جلدی سونے کا عادی تھا۔ یوں کیتھرین کے شوہر نے ماں اور بچوں کو اکٹھا وقت گزارتے کم ہی دیکھا اور وہ غلط فہمیوں کا شکار ہوتا گیا۔

میاں بیوی کی زندگی میں اتنے مغالطوں نے جنم لے لیا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے کھچے کھچے رہنے لگے۔ یہاں تک کہ کیتھرین کے شوہر نے اپنی سوتیلی اولاد کو بالکل بلانا اور ان کی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا۔ اپنے شوہر کے ناشکرے رویے کو دیکھ کر کبھی کبھی کیتھرین کا دل چاہتا کہ وہ اپنے اس شوہر سے طلاق حاصل کر لے لیکن وہ تیسری مرتبہ تلخ تجربے سے نہیں گزرنا چاہتی تھی۔ وہ جان چکی تھی کہ ایک نئے شوہر کے ساتھ پچھلے شوہروں کے بچے پالنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ سوتیلے بچوں کے مسائل سمجھ چکی تھی۔ اس نے کوئی بھی بڑا فیصلہ لینے سے پہلے اپنے شوہر سے ڈائیلاگ کرنے کا فیصلہ کیا۔

کیتھرین نے اپنی جاب سے چھٹی لے کر ہفتے اور اتوار کا دن شوہر اور بچوں کے ساتھ گزارا۔ اس نے زیادہ توجہ اپنے شوہر پر دی، اس کی پسند کا کھانا بنایا، تمام فیملی نے مل کر بچوں کی پسند کی ایک مووی دیکھی اور اس کے بعد بچوں کو سلا کر میاں بیوی اپنے بستر پر چلے گئے۔ وہ دونوں خوشگوار موڈ میں تھے۔ کیتھرین نے شوہر کے سینے پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی شادی سے پہلے کے دنوں کی باتیں کرنا شروع کردیں۔ اس کی شیرو شکر سے بھری باتوں سے شوہر کے کانوں میں رس گھلنے لگا۔

کیتھرین کا میاں، اپنی بیوی کے منہ سے تعریف سن کر خوش ہوا۔ جواب میں اس نے بھی کیتھرین کو اپنی بانہوں میں بھینچا۔ دونوں کی سانسوں کی حرارت بڑھنے لگی اور دلوں کے بند دریچے وا ہوئے۔ لوہے کو گرم دیکھ کر کیتھرین نے چوٹ لگا نے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے شوہر کو شادی سے پہلے کیے گئے عہد و پیماں یاد دلائے۔ شوہر بھی سمجھ گیا کہ اب بات بچوں کے ساتھ اس کے سلوک کی آئے گی۔

شادی سے پہلے کیتھرین کے خاوند نے اسے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اس کے بچوں کو اپنے بچے سمجھے گا اور کسی قسم کے سوتیلے پن کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ کیتھرین کے بات شروع کرنے سے پہلے ہی اس کے میاں نے اپنے گلے شکوے بیان کرنا شروع کر دیے۔ شوہر کو گلہ تھا کیتھرین اسے اور اس کے بچے کو مناسب وقت نہیں دیتی۔ کیتھرین نے بڑے تحمل سے اپنے لائف پارٹنر کی باتیں سنیں اور اس سے مسئلے کا حل پوچھا۔ کیتھرین نے اپنے خاوند سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی نوکری چھوڑ دے، شوہر نے ہاں میں جواب دیا۔

کیتھرین کا اگلا سوال تھا، مگر گھرکا نظام کیسے چلے گا۔ اس کے میاں نے قربانی دینے کا فیصلہ کیا کہ وہ اوور ٹائم جاب کر کے گھر کے خرچے پورے کرے گا۔ اس کا خیال تھا کہ ماں کو اپنے بچوں اور بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہیے۔ کیتھرین کو کوئی اور بات کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی، اس نے اپنی کمپنی کو دو ہفتے کا نوٹس دیا اور نوکری چھوڑ کر اپنی فیملی کے معاملات پر توجہ دینا شروع کر دی۔

میاں بیوی کے درمیان ایک کھلے اور دیانت دارانہ مکالمے نے سارے ازدواجی مسائل کی گتھیاں سلجھا دیں۔ دلوں میں پلتی کدورتیں اور رویوں میں بڑھتی سختیاں رفو چکر ہو گئیں۔ گھر کا آنگن خوشیوں سے بھرنے لگا۔ رنگا رنگ پھولوں سے سجا گلدستہ پھر سے ہرا بھرا نظر آنے لگا۔ جلد ہی کیتھرین کے شوہر کی ملازمت میں ترقی ہو گئی۔ اب اسے اوور ٹائم جاب کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ یوں کیتھرین کے ایک درست فیصلے سے گھر کے حالات بدلنے لگے اور ان کے بچوں کے رویوں میں مثبت تبدیلی نظر آنا شروع ہو گئی۔ سچ کہتے ہیں ایک عورت گھر کی ملکہ ہوتی ہے اور دانشمند ملکہ کی سلطنت ہمیشہ شاد اور آباد رہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments