افغانستان: داڑھی، برقعہ، موسیقی۔۔۔ کیا طالبان دوبارہ نوے کی دہائی کے سخت گیر قوانین کا نفاذ کریں گے؟


طالب

زرمینہ سات بچوں کی والدہ ہیں۔ انھوں نے ایک نیلے رنگ کا برقعہ پہن رکھا ہے اور دو خواتین انھیں کابل کے ایک فٹبال سٹیڈیم کے وسط میں لے جا رہی ہیں۔ انھیں لے جانے والی خواتین نے بھی اُن سے مِلتے جُلتے رنگ کے برقعے پہن رکھے ہیں۔

سٹیڈیم کے وسط میں پہنچ کر زرمینہ کو زمین پر بیٹھنے کو کہا جاتا ہے۔ وہ بھاگنے کی کوشش کرتی ہیں مگر ناکام رہتی ہیں۔ چند لمحوں بعد ایک شخص کلاشنکوف اُن کے سر پر رکھتا ہے اور تین گولیاں ان کے سر میں اُتار دیتا ہے۔

اس سے پہلے کہ زرمینہ کا جسم زمین پر گر کر بے جان ہو، اس منظر کو دیکھنے کے لیے سٹیڈیم میں موجود افراد ‘اللہ اکبر’ کے نعرے بلند کرتے ہیں۔

یہ واقعہ نومبر 1999 کا ہے۔

طالبان کو افغانستان میں برِسراقتدار آئے ہوئے تین سال ہو چکے تھے۔ زرمینہ کو طالبان کی ایک عدالت نے اپنے شوہر کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے موت کی سزا تجویز کی تھی۔

آج زرمینہ کی بہیمانہ موت کے لگ بھگ 22 سال بعد طالبان ایک مرتبہ پھر تیزی سے افغانستان پر قابض ہو رہے ہیں۔ ہر روز تیزی سے بدلتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بہت سے ماہرین اس بات کی پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر 90 کی دہائی میں واپس لوٹ رہا ہے اور یہ کہ ملک میں خانہ جنگی کا امکان ہے۔

سنہ 1996 سے سنہ 2001 وہ دور ہے جب دنیا نے طالبان کا انداز حکمرانی اور طرز انصاف بہت قریب سے دیکھا۔ طالبان کے گذشتہ دور حکومت میں بہت سی خواتین کو بالکل ویسے ہی انصاف ملا جیسا زرمینہ کو ملا۔

دنیا کے بیشتر ممالک اور انسانی و خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے طالبان دور میں دی جانے والی سخت سزاؤں کو ‘غیر انسانی’ اور ‘ظالمانہ’ قرار دیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ مٹھی بھر ممالک کے علاوہ کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو سرے سے نہ تو تسلیم کیا اور نہ ہی اُس حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔

ہم ناتجربہ کار تھے

افغانستان

طالبان کی حکومت کو دنیا بھر میں تسلیم نہ کیے جانے کی کسی حد تک وجہ چند سخت گیر قوانین تھے جن کی وجہ سے بہت سے ممالک کے لیے انھیں تسلیم کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ طالبان کا اُس وقت کہنا تھا کہ ان کے یہ قوانین اسلامی شرعی نظام کے تحت ہیں تاہم عالمِ اسلام پر اگر نظر دوڑائی جائے تو شاید ہی کوئی ملک ہو جو اسلامی شریعت کی اس قدر قدامت پسند تشریح کرتا ہو جتنی کے طالبان نے نوے کی دہائی میں اپنے دور میں کی۔

اس حوالے سے طالبان کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’نوے کی دہائی میں ہم نئے تھے، ہمارے پاس حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اب ہم تجربہ کار ہیں اور ہمارے کئی ممالک کے ساتھ روابط ہیں، اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کوئی بھی پارٹی اکیلے حکومت نہیں چلا سکتی اور کوئی بھی پارٹی اگر طاقت پر اجارہ داری بناتی ہے تو وہ بہتر انداز میں حکومت نہیں چلا سکتی۔‘

’اسی لیے ہم مذاکرات کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک ایسی حکومت ہو جس میں تمام افغانوں کی نمائندگی ہو۔ صرف ملک کو آزاد کروانا ہی اہم نہیں، بلکہ ملک کی معیشت کو چلانا اور لوگوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنا بھی اہم ہے۔ یہ سب ہماری ترجیحات میں ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا طالبان افغانستان میں شرعی قوانین کو واپس لائیں گے، سہیل شاہین نے دعویٰ کیا کہ اس حوالے سے نوے کی دہائی میں شائع ہونے والی کچھ رپورٹس زمینی حقائق کی درست عکاسی نہیں کرتی تھیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’مگر ہم نے سیکھا ہے۔ اگر نوے کی دہائی میں کچھ غلطیاں تھیں ہم انھیں نہیں دہرائیں گے۔ جہاں تک اسلامی قوانین کا تعلق ہے، اس پر یہ واضح ہے کہ افغان لوگ اسلامی قوانین چاہتے ہیں۔ مگر اگر ماضی میں لوگوں کے ساتھ بُرا رویہ روا رکھا گیا یا لوگوں کے ساتھ بُرا برتاؤ کیا گیا، تو اس بار اسے روکا جائے گا اور اس کی اجازت نہیں ہو گی۔‘

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ جنوبی صوبے ہلمند میں طالبان نے بچوں کو اغوا کرنے کے الزام میں دو افراد کو ایک پل پر سرعام پھانسی کی سزا یہ کہہ کر دی تھی کہ اُن کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔

چند روز قبل نمائندہ بی بی سی سکندر کرمانی نے افغانستان میں ایک طالبان عدالت کے جج حاجی بدرالدین سے گفتگو کی تھی۔ اس گفتگو میں حاجی بدرالدین نے سخت سزاؤں کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ہماری شریعت میں یہ واضح ہے کہ جن لوگوں نے جنسی تعلقات قائم کیے ہیں اور وہ غیر شادی شدہ ہیں، چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا، اُن کی سزا سرعام 100 کوڑے لگانا ہے۔‘

حاجی بدرالدین کا مزید کہنا تھا کہ ’مگر کوئی ایسا شخص جو شادی شدہ ہے اور اس کے باوجود ناجائز جنسی تعلقات قائم کرتا ہے تو شریعت میں اس کی سزا سنگسار کرنا ہے یہاں تک کہ مجرم کی موت واقع ہو جائے اور اگر کسی پر چوری کا الزام ثابت ہو جائے تو شریعت کے مطابق اس کا ہاتھ ضرور کاٹا جانا چاہیے۔‘

انھوں نے اس تنقید کو بھی مسترد کیا کہ ایسی سخت سزائیں آج کی ماڈرن دنیا کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

ان کا موقف تھا کہ ’لوگوں کے بچے اغوا کیے جاتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ یا یہ کرنا ٹھیک ہے کہ ایک شخص کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور اس کے ذریعے معاشرے میں استحکام لایا جائے؟‘

مردوں کی داڑھی

افغانستان

اپنے گذشتہ دورِ حکومت نے طالبان نے ملک بھر میں تمام مردوں کے لیے داڑھی رکھنا لازمی قرار دیا تھا۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اکثر مقامی حکام کی جانب سے مارا پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ طالبان کے اس اقدام کا ذکر 1997 کی اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ میں بھی کیا گیا تھا۔

تاہم 2014 میں حامد کرزئی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دوران ایسی اطلاعات سامنے آ رہی تھیں کہ طالبان نے اس حوالے سے اپنا موقف نرم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ مگر اس معاملے میں آخر ان کے مؤقف میں اب کتنی تبدیلی آئی ہے؟

سہیل شاہین کہتے ہیں ’داڑھی رکھنا سُنت ہے اور ایک اسلامی معاشرے میں لوگ اپنی مرضی سے داڑھی رکھتے ہیں۔ اس وقت بھی افغانستان میں اگر آپ جائیں تو آپ کو لوگوں کی اکثریت داڑھی والی ہی ملے گی، مگر گذشتہ تین ماہ میں ہم نے جن دو سو اضلاع پر قبضہ کیا ہے وہاں پر کچھ لوگوں نے داڑھیاں رکھی ہیں اور کچھ لوگوں نے داڑھیاں نہیں رکھی ہیں۔ وہاں پر کوئی پابندیاں نہیں ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہماری قیادت کی طرف سے یہی ہدایت ہے کہ لوگ اپنی زندگی ایسے ہی گزار سکتے ہیں جیسے وہ ماضی سے گزار رہے تھے۔ ابھی ہمیں یہی ہدایت ہے۔ مگر میرے خیال میں یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ایک دن میں نافذ کرنے کے بجائے مرحلے وار کیا جانا چاہیے۔‘

یہ واضح ہے کہ طالبان بیرونی دنیا کے سامنے اپنا ایک نسبتاً نرم تشخص پیش کرنا چاہتے ہیں مگر بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کے دیگر حصوں میں اطلاعات کے مطابق طالبان زیادہ سختی سے پیش آ رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ فرق مقامی کمانڈروں کے رویّوں کی وجہ سے ہو۔

پاکستانی چینل خیبر ٹی وی سے وابستہ صحافی حنیف الرحمان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے افغانستان کے چند ہی علاقوں میں تشویش ہے۔ ’افغانستان کے بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے افغانوں میں اس حوالے سے خوف پایا جاتا ہے۔ جن لوگوں کا طرزِ زندگی بیرونِ ملک سے کسی طرح منسلک ہے ان لوگوں کو یہ خوف ضرور ہے کہ کہیں داڑھی رکھنے کی شرط دوبارہ نہ لگا دی جائے۔‘

تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے دیہی علاقوں میں لوگوں کو اس حوالے سے پریشانی نہیں ہے۔ ’داڑھی افغانستان میں مذہب کے علاوہ یہاں کی ثقافت کا حصہ بھی ہے۔ دیہی علاقوں کے لوگ تو پہلے ہی وہ کام کر رہے ہیں جو کہ طالبان کروانا چاہتے ہیں، اس لیے انھیں اس سے پریشانی نہیں ہے۔‘

خواتین اور برقعہ

برقعہ

طالبان کے گذشتہ دور کو افغانستان کی خواتین کے حوالے سے انتہائی مشکل دور تصور کیا جاتا ہے۔ کئی علاقوں میں خواتین کے لیے عوامی مقامات پر برقع پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ لڑکیوں کے سکولوں کو بند کر دیا گیا تھا اور ہسپتالوں تک میں خواتین اور مرد عملے کے ساتھ ساتھ کام کرنے پر پابندی تھی۔

نومبر 2001 میں امریکی وزارتِ خارجہ کی افغانستان میں خواتین کی صورتحال کی ایک رپورٹ میں کابل کی رہائشی 35 سالہ بیوہ خاتون نغیبہ کے حوالے سے کہا گیا کہ ’افغانستان میں خواتین کی صورتحال انتہائی بری ہے۔ ہمیں گھروں میں بند کر دیا گیا ہے اور ہمیں سورج دیکھنے کی بھی اجازت نہیں۔‘

اسی رپورٹ میں ایک اور جگہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کچھ علاقوں میں طالبان نے لوگوں سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنے گھروں کی کھڑکیاں پینٹ کروا لیں تاکہ کوئی باہر سے اندر بیٹھی خواتین کو دیکھ نہ لے۔

مگر کیا اس معاملے پر طالبان کا موقف کچھ بدلا ہے۔

سہیل شاہین دعویٰ کرتے ہیں ’برقعہ لازمی نہیں ہو گا۔ مگر حجاب ہو گا۔ مسلم خواتین کے لیے اہم ہے کہ وہ حجاب ضرور کریں۔ برقعہ ہی واحد قسم کا حجاب نہیں ہے، مختلف قسم کے حجاب کی اجازت ہو گی۔‘

بی بی سی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں مقامی ذرائع کو کوٹ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ طالبان کے زیر کنٹرول چند علاقوں میں طالبان کمانڈرز کی جانب سے ٹیکسی ڈرائیورز کو کہا گیا ہے کہ جب تک خواتین مکمل طور پر برقع پوش نہ ہوں، تب تک اُنھیں اپنی گاڑی میں سوار نہ کیا جائے۔

وائس آف امریکہ کی صحافی اور افغانستان پر رپورٹنگ کرنے والی عائشہ تنزیم کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ طالبان کی سیاسی قیادت کہہ رہی ہے کہ خواتین کے حوالے سے سخت گیر قوانین نہیں لائے جائیں گے اور انھیں کم از کم تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ کچھ علاقوں میں تو طالبان کے لڑکیوں کے سکولوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بھی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

’مگر اس کے ساتھ ساتھ طالبان ایک شرط اور لگاتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوگا وہ اسلامی شریعت کے مطابق ہوگا۔ طالبان کا ٹریک ریکارڈ اگر دیکھا جائے تو وہ افغان معاشرے میں اسلامی قوانین کی قدامت پسند ترین تشریح کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک میں خواتین انتہائی شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔‘

’انھیں ڈر ہے کہ جہاں طالبان کی مرکزی قیادت وہ باتیں کر رہی ہے جو انھیں عالمی سطح پر ایک ذمہ دار تنظیم کے طور پر تسلیم کرنے میں مدد ملے وہیں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ مقامی سطح پر کون سا عسکری کمانڈر کیا قانون لاگو کرتا ہے، یہ اس کی صوابدید ہے۔‘

بی بی سی کے کابل بیورو کے ایڈیٹر عنایت الحق یٰسینی کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ایک اہم چیز یہ ہے کہ اب تک جن علاقوں پر طالبان نے قبضہ کیا ہے، ان علاقوں میں انھوں نے ایسے قوانین کا اعلان نہیں کیا ہے۔

’حال ہی میں کچھ (اس حوالے سے قابلِ اعتراض) پوسٹرز لگائے گئے تھے تو طالبان نے خود آگے بڑھ کر کہا کہ یہ کام ان کا نہیں بلکہ ان کے مخالفین کا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ طالبان شہروں پر قابض ہو بھی سکیں گے یا نہیں اور اگر ہوں گے بھی تو شہروں میں حالات کا بہت زیادہ تیزی سے تبدیل ہونے کا امکان کم ہے۔ طالبان کی بھی خواتین کے حوالے سے موقف میں نرمی آ سکتی ہے۔

’ایک دہائی قبل بھی میرے ایک سینیئر طالبان اہلکار کے ساتھ انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ اصولی طور پر وہ خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں مگر اس وقت وہ ایسی سہولیات مہیا نہیں کر سکتے جہاں لڑکے اور لڑکیاں علیحدہ علیحدہ تعلیم حاصل کر سکیں۔‘

عنایت الحق یٰسینی نے یہ بھی کہا کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت اب عوامی رائے کے بارے میں کافی فکرمند ہے۔ ’اگر ان پر کوئی الزام لگتا ہے تو سوشل میڈیا کے ذریعے وہ فوراً اس کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا ہدف ہے کہ عوامی رائے ان کے ساتھ رہے۔ مگر جو طالبان کے نچلے عہدوں کے اہلکار ہیں، وہ کیا کرتے ہیں، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اور یہ طالبان کے لیے خود ایک چیلنج ہوگا کہ وہ ان عہدیداروں کو کس طرح مینیج کرتے ہیں۔‘

موسیقی کی ممانعت

میوزک

یہ وہ معاملہ ہے جس پر لوگوں کو بہت زیادہ تشویش ہے۔

90 کی دہائی میں بھی طالبان نے کئی مقامات پر موسیقی کو ممنوع کر دیا تھا اور بظاہر اس حوالے سے آج بھی طالبان کا موقف وہی ہے۔

حال ہی میں غزنی صوبے میں اندار، دھیاک، اور گیرو اضلاع سے یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ طالبان نے موسیقی پر پابندی لگا دی ہے۔ اگرچہ طالبان کی مرکزی قیادت نے اس الزام کو رد کیا، وہاں کے مقامی لوگوں نے ریڈیو فری افغانستان کو بتایا کہ مقامی سطح پر طالبان نے موسیقی اور لاؤڈ سپیکروں پر پابندی عائد کر دی ہے۔

بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ طالبان اپنے زیر قبضہ علاقوں اسلام کی سخت گیر تشریح میں دوبارہ مصروف ہیں اور چند مقامی ریڈیو سٹیشن جہاں سے پہلے مشہور موسیقی نشر ہوتی تھی اب وہاں صرف مذہبی نغمے ہی چلائے جاتے ہیں۔

اس حوالے سے سہیل شاہین کا دعویٰ ہے کہ وہ دوسرے اسلامی ممالک کے تجربے سے سیکھیں گے۔

’ہم دیگر اسلامی ممالک سے سیکھیں گے کہ وہ کس طرح کے پروگرام نشر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارا ہمسایہ ملک ایران، جب وہاں پر اسلامی انقلاب آیا تو انھوں نے اس معاملے سے کیسے نمٹا۔ اس کو جانچنے کی ضرورت ہے کہ کون سے پروگرام اسلامی قوانین کے مطابق ہیں، اور ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے تفریح فراہم کرتے ہیں۔‘

’مگر موسیقی کے بارے میں اسلام کے قوانین واضح ہیں۔ اس کی اجازت نہیں ہے۔ ہم ایک مغربی معاشرہ نہیں ہیں مگر ساتھ میں یہ بھی اہم ہے لوگوں کو وہ پیش کیا جائے جو لوگ چاہتے ہیں جہاں تک وہ اسلامک قوانین کے مطابق ہوں، چاہے وہ فلمیں ہیں یا کچھ اور۔‘

عنایت الحق یٰسینی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ موسیقی کے تو طالبان سخت خلاف ہیں اور اس موضوع پر کوئی بات چیت نہیں ہو رہی۔ ان کا کہنا تھا اس لیے کابل میں بہت سے فنکار مستقبل میں شہر میں اقتدار کی تبدیلی سے پریشان ہیں۔ ’کچھ فنکار تو خود کو اتنا غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں کہ انھیں کابل سے باہر جاتے ہوئے خوف آنے لگا ہے۔‘

افغانستان میں طالبان کے تیزی سے بڑھتے ہوئے کنٹرول کے باوجود کئی ممالک یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اگر طالبان مذاکرات کی بجائے طاقت کے بل پر حکومت بناتے ہیں تو اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ نوے کی دہائی میں بھی صرف پاکستان، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ کیا اس مرتبہ اپنے آپ کو دنیا میں قابل قبول بنانے کی غرض سے طالبان نوے کی دہائی کے سخت گیر قوانین لاگو کرنے سے باز رہیں گے؟

عائشہ تنزیم کا کہنا ہے کہ طالبان کون سے قوانین واپس لاتے ہیں اس کا انحصار اس چیز پر ہوگا کہ افغانستان میں ان کی حکومت کس راستے سے آتی ہے۔ اگر ان کی حکومت ایک مذاکراتی عمل کے بعد آئی تو انھیں اپنے ان وعدوں کا پاس رکھنا ہوگا جو انھوں نے دنیا سے کیے ہیں۔

‘انھیں اگر مالی امداد فراہم کی جائے گی تو اس اپنی شرائط ہوں گی۔ مگر اگر وہ افغان حکومت سے عسکری محاذ پر کامیابی حاصل کر کے آتے ہیں تو پھر شاید وہ پرانے قوانین واپس لائیں، مگر ایسی صورت میں بھی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ قوانین اس قدر سخت گیر نہیں ہوں گے۔’

وہ کہتی ہیں کہ اگر ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے تو پھر ملک کے مختلف حصوں میں مختلف قوانین آ سکتے ہیں اور ان کا انحصار وہاں موجود ضلعی ملٹری کمانڈر پر ہوگا کہ وہ کون سے قوانین لاگو کرتا ہے۔

مردوں کو فٹبال کھیلنے کی اجازت نہ دینا

طالب

جولائی 2000 میں پاکستان کے ضلع چمن سے ایک فٹبال ٹیم افغانستان کے شہر قندھار میں تین دوستانہ میچوں کی سیریز کھیلنے کے لیے گئی تھی۔ پہلے دو میچ تو مکمل ہوگئے مگر تیسرے میچ کے نصف پر سٹیڈیم میں طالبان کی مذہبی پولیس کے اہلکار آ گئے۔ اگرچہ کچھ پاکستانی کھلاڑی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے مگر لگ بھگ 12 کھلاڑیوں کو ایک رات جیل میں گزارنی پڑی اور بطور سزا اُن کے سر منڈوا دیے گئے۔

ان کھلاڑیوں کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے فٹبال کی یونیفارم پہنی ہوئی تھی جس میں شارٹس (نیکر) ہوتی ہیں اور طالبان کے خیال میں یہ لباس ’غیر اسلامی‘ تھا۔

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں۔ ’فٹبال کا یونیفارم اہم نہیں ہے۔ اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ہم کھیلوں کی حمایت کرتے ہیں یہ ہمارے نوجوانوں کی صحت کے لیے اہم ہے۔ نہ صرف فٹبال ہم دیگر کھیلوں کی بھی حمایت کرتے ہیں۔‘

مگر کیا مستقبل کے افغانستان میں ایسے واقعات کا امکان ہے؟ اس حوالے سے ایک اشارہ ہمیں اس بات سے ملتا ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں طالبان کے زیرِ اثر علاقوں میں کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد کیے جا رہے ہیں۔ کچھ فٹبال میچوں میں تو طالبان اہلکاروں کے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی بھی خبریں سامنے آئی ہیں۔

دو سال قبل اپنے ایک انٹرویو میں افغانستان کے سابق کھلاڑی کریم صادق نے بتایا کہ جب وہ طالبان کے زیرِ کنٹرول ایک علاقے میں گئے تو وہاں پر موجود جنگجوؤں نے انھیں گھیر لیا اور کرکٹ کے کھیل اور اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کے بارے میں سوالات شروع کر دیے۔

اس موقع پر کریم صادق نے اپنے موبائل سے جو ویڈیو بنائی اس میں کلاشنکوف کندھوں پر لٹکائے طالبان جنگجو ایک کھلاڑی کے مداح بنے نظر آئے۔ صحافی حنیف الرحمان بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے یہی اشارے مل رہے ہیں کہ اب وہ کھیلوں جیسی چیزوں کو روکیں گے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp