محبت بھری مغربی طرز کی منگنی جو ٹوٹ گئی


”چند ماہ پہلے لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں ایک ایک طالبہ نے سب کے سامنے ایک لڑکے کو پروپوز کرتے ہوئے اسے خالص فلمی انداز میں ایک گھٹنا زمین پر ٹیک کر گلاب کے پھول پیش کیے ۔ لڑکے نے پھول لئے اور پھر لڑکی کو گویا قبولیت بخشتے ہوئے ساتھ لپٹا لیا۔“ سوشل میڈیا میں اس وائرل وڈیو پر بحث چھڑی تو اکثریت لوگوں نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا اور اسے شرعی احکام اور معاشرتی اقدار کے خلاف گردانا جبکہ ایک مخصوص اور اقلیتی طبقے نے اس جوڑے کو سرخاب کے پر لگوا دیے اور انھیں داد دیتے ہوئے آزادی، خود مختاری اور اپنے حق کا بہترین اظہار قرار دیا اور اس اڑ میں نہ صرف دیگر نوجوانوں کو ”گھٹن زدہ“ ماحول سے بغاوت پر آمادہ کرنے کی دہائیاں دیں بلکہ اس غیر ذمہ دارانہ، بیباکانہ اور بے شرمانہ طرزعمل پر تشویش کا اظہار کرنے والوں پر پھبتیاں کستے ہوئے انھیں رجعت پسند، دقیانوس اور جاہل تک کہنے میں بھی باک محسوس نہیں کیا گیا۔

وقت گزرتا گیا اور حسب روایت جدیدیت کے دلدادہ حضرات کسی اور ”انقلابی قدم“ اور جرات رندانہ کے منتظر ہی تھے کہ ”سماجی دقیانوسیت“ کی بیڑیاں توڑ ڈالنے والے ان انقلابیوں یعنی دنیا کے سامنے ایک دوسرے سے لپٹنے اور ایک ساتھ جینے کی قسمیں کھانے والے نوجوان جوڑے نے ”رنگ میں بھنگ“ ڈالتے ہوئے ”توبہ تائب“ ہو کر بروقت حقیقت کے ادراک کرنے پر رب کا شکر ادا کیا اور خوابوں کی دنیا سے نکل کر نوجوان نسل کو اپنے اقدار کی قدر دانی کرنے کی جانب متوجہ کرایا۔

”چند دن پہلے اس لڑکے کی ایک ویڈیو سامنے آئی، جس میں اس نے صاف کہا کہ میری اس لڑکی کے ساتھ شادی نہیں ہوئی اور ایسا ہوگا بھی نہیں۔ کمال سادگی اور حیران کن ،،معصومیت“ ’سے اس نے کہا، ”مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا، اچانک اس نے پروپوز کیا، پھول دیے، میں نے لے لئے۔ بعد میں یونیورسٹی نے ہمیں نکال دیا تو والدین کو پتہ چلا، وہ سخت ناراض ہوئے۔ انٹرویو کرنے والے نے پوچھا کہ کیا آپ اسی لڑکی سے شادی کریں گے۔ نوجوان نے فلسفیانہ انداز میں کیمرے کو دیکھا، فضا میں گھورا اور پھر بولا، دیکھیں دنیا فانی ہے، میں نے تو ابھی ڈگری کرنی ہے، دو سال لگیں گے، اس دوران نجانے میں کہاں ہوں، وہ کہاں ہو، جب ڈگری مکمل کر کے اپنا کیریر بناؤں گا پھر شادی کے لئے سوچوں گا۔ ساتھ یہ اشارہ بھی دیا کہ والدہ کی مرضی سے شادی ہو گی۔“

اس وڈیو کے بعد شاید ردعمل میں اس لڑکی کی وڈیو بھی منظر عام پر آئی۔ ”لڑکی نے تصدیق کی کہ شادی نہیں ہوئی اور چونکہ ہم دونوں کے والدین نے کچھ طے ہی نہیں کیا تو شادی نہیں ہو سکتی۔ اس نے تسلیم کیا کہ میں صرف چھ ماہ سے اسے جانتی تھی۔ مجھے اس کے خاندانی بیک گراؤنڈ کا نہیں پتا تھا اور نہ یہ کہ اس کا تعلق کسی دیہاتی علاقے سے ہے (لڑکا کوٹ مومن کے قریب کسی پنڈ کا رہائشی ہے)، ان تمام چیزوں کا مجھے علم نہیں تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ ایسا کرنا غلط تھا، مجھے کم از کم اپنے والد کو درمیان میں لانا چاہیے تھا تاکہ وہ رشتے سے پہلے یہ سب چیزیں، لڑکے کا خاندانی پس منظر وغیرہ دیکھ لیتے“

لڑکی نے دو اہم باتیں بھی بتائیں جو قابل غور ہیں۔
پہلی بات۔

”سولہ سے بائیس سال کی عمر میں، نوجوان بہت سی فینٹسیز میں رہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں شاید دنیا بہت رنگین ہے، اس طرح ہے، اس طرح ہے، مگر زندگی ان کے خیالوں، خوابوں جیسی نہیں ہوتی۔ زندگی کے حقائق ایسے نہیں ہوتے۔ آپ اگر ڈراموں، فلموں میں ہمیں یہ سب دکھائیں گے کہ اسی طرح یونیورسٹی لائف ہوتی ہے، اس طرح کرنا چاہیے، لیکن اگر ہم عملی زندگی میں ایسا کریں تو مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے۔ رومانی ناولوں میں بھی یہی سب کچھ ہے۔ ہم تو اسے فینٹسی بنا لیتے ہیں کہ یوں پروپوز کیا جائے، پھر شادی ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ بعد میں زندگی کی حقیقتیں پتہ چلتی ہیں اور یہ بھی کہ ٹی وی ڈرامے حقیقت نہیں ہوتے۔“

دوسری بات:

”وہ بار بار ایک لفظ دہراتی رہی کہ ہم ریلیشن میں تو پہلے سے تھے، ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے“ یہ بذات خود ظاہر کرتا ہے کہ نامحرم مرد و عورت کے درمیان جو فاصلہ شریعت نے لازم قرار دیا ہے، جو بیرئر بنایا ہے اسے کتنی آسانی کے ساتھ ”ریلیشن“ کے نام پر توڑا جا چکا ہے ”

تہذیب مغرب کے متاثرین جو اسلامی تہذیب اور اس کی اقدار سے پرخاش رکھنے میں اندھے ہو کر خاندانی نظام کی تباہی اور خواتین کو سراب کے پیچھے لگا کر ان سے ان کا اصل جوہر یعنی ان کی نسوانیت، نزاکت، عزت، عفت، عصمت اور حیا و وقار چھیننے کی درپے ہیں، ہزار بھی تاویلات پیش کر لیا کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ بیچاری لڑکیاں جو ایک مرتبہ محبتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتی ہیں تو ریلیشن شپ سے بات اگے بڑھ کر لیو ان ریلیشن ( بغیر شادی کے ساتھ رہنے ) تک بات پہنچ جاتی ہے جس کا منطقی انجام پچھتاوا ہی ہوتا ہے۔

عاجلانہ، اندھا، ناپختہ، فلمی سٹائل کی محبتوں کا یہی حشر ہوتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ایک نہیں بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ ”افسانوی محبت“ کا انجام شادیاں عموماً ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں۔ بعض نہیں اکثر اوقات چاہتوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ لڑکیاں بیچاری دل ہی کیا اپنے پورے کے پورے وجود کو کسی بدبخت کی جھولی میں ڈال کر اپنی عزت، عفت، عصمت اور وقار کو داو پہ لگا کر ہی کیا اس سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتی ہیں لیکن ان کی ارمانوں کا خون ہوجاتا ہے اور بے ضمیر، لچے لفنگوں کا دل جیتنے اور رشتہ ازواج میں آنے کا سپنا پورا نہیں ہو پاتا۔

اگر بادل ناخواستہ اور حالات کی جبر کی وجہ سے مرد راضی بھی ہو جائے تو محبت اور اعتماد کی وہ گرمی باقی نہیں رہ جاتی اور شکوک و شبہات اور عدم اعتماد کے گہرے سائے تلے زندگی عذاب بن کے رہ جاتی ہے جبکہ گھر اور خاندان میں اسے کبھی بھی عزت ملتی ہی نہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ناپسندیدہ ہی رہ کر طعنے سہ کر جینے کی جتن میں لگی رہتی ہیں۔

مغربی معاشروں میں نکاح کا بنیادی تصور اور اس کا اصل روح ختم ہو چکا ہے۔ گھر بسانے، خاندان تخلیق کرنے اور معاشرہ مستحکم کرنے کی کوئی سوچ باقی بچی ہی نہیں۔ جتنا بھی ہو سکے ذمہ داریوں کو بوجھ سمجھ کر اسے دور پھینکا جاتا ہے اور محض لذت پانے اور وقت گزاری کے لئے لیونگ پارٹنرشپ پہ ہی گزارا کیا جاتا ہے جبکہ رسمی نکاح کرنے کی شرح میں مسلسل کمی آتی جا رہی ہیں لیکن شومئی قسمت کے تار عنکبوت کی طرح اس قسم کے رشتے بھی کمزور ترین ہوتے ہیں اور اس کا ٹوٹنا بھی کوئی معنی رکھتا ہی نہیں۔

ان معاشروں کے خود اپنے جائزے دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں کہ اس سے اگے ان معاشروں کا انجام اور کیا ہو پائے گا۔ ”مغربی اور خصوصاً یورپی ممالک میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح تشویشناک صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کی شائع کردہ معلوماتی کتاب پاکٹ ورلڈ 2016 ء میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق طلاق کی شرح کے لحاظ سے مشرقی یورپ کے ممالک سب سے آگے ہیں، لیکن مغربی بحرالکاہل میں واقع چھوٹا سے ملک گوام طلاق کی شرح میں سب پر سبقت لے گیا ہے۔

اس ملک میں ہر ایک ہزار افراد میں اوسطاً 4.6 طلاقیں واقعہ ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد روس کا نمبر ہے جس میں فی ایک ہزار آبادی کے لئے طلاق کی شرح 4.5 ہے۔ اسی طرح بیلاروس، لیٹویا، لتھوینیا اور مالدووا بھی طلاق کی شرح کی لحاظ سے فہرست میں نمایاں ترین ہیں۔ ان تمام ممالک کا تعلق مشرقی یورپ سے ہے۔ ڈنمارک میں فی ایک ہزار لوگوں میں طلاق کی شرح 2.8 جبکہ امریکا میں بھی 2.8 ہے“

ہمیں اپنے معاشرے کو اس تباہی سے بچانے کی فکر کرنی ہے۔ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری اپنی جگہ لیکن والدین کو بھی سنجیدگی کے ساتھ ان معاملات کو دیکھنے کی ضرورت پہلے سے بہت ہی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ شادیوں کے معاملے میں جہاں یہ تصور انتہائی غلط ہے کہ لڑکا، لڑکی جہاں چاہیے، جس سے چاہیے، جس طرح بھی چاہیے اور جب بھی چاہیے کسی کے ساتھ شادی رچائے عین اسی طرح یہ بھی بڑی جاہلانہ سوچ اور طرزعمل ہے کہ لڑکا، لڑکی اور خصوصاً لڑکی کی مرضی معلوم کیے بغیر اور اسے آگاہ کیے بغیر جس سے بھی چاہیے، جہاں چاہیے اور جب چاہے ان کی زندگی کا سودا کر لیا جائے۔

اسلام میں اس حوالے سے جامع اور فطرت کے عین مطابق تعلیمات اور ہدایات موجود ہیں کہ کس طرح لڑکی اور ولی کے باہمی اعتماد اور مشاورت کے ساتھ نکاح جیسا پاکیزہ اور مقدس رشتہ طے پائے گا۔

اس ضمن میں سید ابولاعلی مودودی رحمہ اللہ نے نہایت متوازن اور معتدل موقف پیش کیا ہے جس پہ عمل کر کے بہت ساری الجھنوں کو سلجھا جاسکتا ہے۔

”1۔ نکاح کے معاملے میں اصل فریقین مرد اور عورت ہیں نہ کہ مرد اور اولیائے عورت۔ اسی بنا پر ایجاب و قبول ناکح اور منکوحہ کے درمیان ہوتا ہے۔

2۔ بالغہ عورت (باکرہ ہو یا ثیبہ) کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر یا اس کی مرضی کے خلاف منعقد نہیں ہو سکتا ، خواہ نکاح کرنے والا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ جس نکاح میں عورت کی طرف سے رضامندی نہ ہو، اس میں سرے سے ایجاب ہی موجود نہیں ہوتا کہ ایسا نکاح منعقد ہو سکے۔

3۔ مگر شارع اس کو بھی جائز نہیں رکھتا کہ عورتیں اپنے نکاح کے معاملے میں بالکل ہی خود مختار ہوجائیں اور جس قسم کے مرد کو چاہیں، اپنے اولیا کی مرضی کے خلاف اپنے خاندان میں داماد کی حیثیت سے گھسا لائیں۔ اس لیے جہاں تک عورت کا تعلق ہے، شارع نے اس کے نکاح کے لیے اس کی اپنی مرضی کے ساتھ اس کے ولی کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔ نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جہاں چاہے اپنا نکاح خود کر لے، اور نہ ولی کے لیے جائز ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح جہاں چاہے کردے۔

4۔ اگر کوئی ولی کسی عورت کا نکاح بطور خود کرے تو وہ عورت کی مرضی پر معلق ہوگا، وہ منظور کرے تو نکاح قائم رہے گا، نامنظور کرے تو معاملہ عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ نکاح عورت کو منظور ہے یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ عورت کو نکاح نا منظور ہے تو عدالت اسے باطل قرار دے گی۔

5۔ اگر کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کر لے تو اس کا نکاح ولی کی اجازت پر معلق ہوگا۔ ولی منظور کر لے تو نکاح برقرار رہے گا، نا منظور کرے تو یہ معاملہ بھی عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ ولی کے اعتراض و انکار کی بنیاد کیا ہے۔ اگر وہ فی الواقع معقول وجوہ کی بنا پر اس مرد کے ساتھ اپنے گھر کی لڑکی کا جوڑ پسند نہ کرتا ہو تو یہ نکاح فسخ کر دیا جائے گا اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس عورت کا نکاح کرنے میں اس کا ولی دانستہ تساہل کرتا رہا، یا کسی ناجائز غرض سے اس کو ٹالتا رہا اور عورت نے تنگ آ کر اپنا نکاح خود کر لیا تو پھر ایسے ولی کو سئی الاختیار ٹھہرا دیا جائے گا اور نکاح کو عدالت کی طرف سے سند جواز دے دی جائے گی ”۔

نفس مسئلہ کفاوت تو عقل اور نقل دونوں سے ہے۔ نکاح میں اس کے معتبر ہونے پر آئمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔
اس مسئلے کا ماخذ متعدد احادیث ہیں مثلاً:
”عورتوں کی شادیاں نہ کرو مگر ان کے لوگوں کے ساتھ جو کفو ہوں۔“

اپنی نسل پیدا کرنے کے لیے اچھی عورتیں تلاش کرو، اور اپنی عورتوں کے نکاح ایسے لوگوں سے کرو جو ان کے کفو ہوں۔

حضرت عمرؓ کا یہ قول بھی نقل ہے :
”میں شریف گھرانوں کی عورتوں کے نکاح کفو کے سوا اور کہیں نہ کرنے دوں گا۔“

یہ تو ہے کہ اس مسئلے کی نقلی دلیل۔ رہی عقلی دلیل تو عقل کا صریح تقاضا یہ ہے کہ کسی لڑکی کو کسی شخص کے نکاح میں دیتے وقت یہ دیکھا جائے کہ وہ شخص اس کے جوڑ کا ہے یا نہیں۔ اگر جوڑ کا نہیں ہے تو یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ان دونوں کا نباہ ہو سکے گا۔ نکاح سے مقصود تو عقلاً بھی اور نقلاً بھی یہی ہے کہ زوجین کے درمیان مودت و رحمت ہو اور وہ ایک دوسرے کے پاس سکون حاصل کرسکیں۔ آپ خود سوچ لیں کہ بے جوڑ نکاحوں سے اس مقصود کے حاصل ہونے کی کہاں تک توقع کی جا سکتی ہے؟ اور کون سا معقول انسان ایسا ہے جو اپنے لڑکے یا لڑکی کا بیاہ کرنے میں جوڑ کا لحاظ نہ کرتا ہو۔ کیا آپ اسلامی مساوات کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ ہر مرد کا ہر عورت سے اور ہر عورت کا ہر مرد سے صرف اس بنا پر نکاح کر دیا جائے کہ دونوں مسلمان ہیں، بلا اس لحاظ کے کہ ان میں کوئی مناسبت پائی جاتی ہے یا نہیں؟

عقل عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ زندگی بھر کی شرکت و رفاقت کے لیے جن دو ہستیوں کا ایک دوسرے سے جوڑ ملایا جائے، ان کے درمیان اخلاق، دین، خاندان، معاشرتی طور طریق، معاشرتی عزت و حیثیت، مالی حالات، ساری ہی چیزوں کی مماثلت دیکھی جانی چاہیے۔ ان امور میں اگر پوری یکسانی نہ ہو تو کم از کم اتنا تفاوت بھی نہ ہو کہ زوجین اس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور رفاقت نہ کرسکیں۔ یہ انسانی معاشرت کا ایک عملی مسئلہ ہے جس میں حکمت عملی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments