باپ بیٹی کی انوکھی کہانی: جب رومانوی مناظر پر ٹی وی بند کر دینے والا شخص سیکس کی مشہور کتابوں کا مصنف نکلا

جون کیلی اور ماریانا ڈیس فورگز - بی بی سی ورلڈ سروس


سارہ فیتھ آلٹرمین اپنے والد کے بہت قریب تھیں جو ظاہری طور پر ایک معقول اور عقل مند انسان لگتے تھے۔ پھر ایک دن سارہ کو معلوم ہوا کہ وہ ان سے ایک راز چھپا رہے تھے۔

1980 کی دہائی کے دوران امریکی شہر بوسٹن کے قریب پرورش پانے والی سارہ کا ہمیشہ اپنے والد ایرا کے ساتھ ایک خاص اور مضبوط رشتہ تھا۔

سارہ کہتی ہیں ’میں اور میرے والد ایک جیسے تھے یہاں تک کہ ہماری شکل بھی بہت ملتی تھی۔ جو اب میرے لیے مضحکہ خیز بات تھی کہ ایک چھوٹی سی لڑکی ایک چالیس سالہ یہودی مرد کی طرح ہو بہو نظر آتی تھی۔ ہمارے چہرے کے خد و خال اور بال تک ایک جیسے تھے اور اسی لیے میں ہمیشہ ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتی تھی۔‘

سارہ کسی بھی پریشانی یا مسئلے کے حل کے لیے سیدھا ایرا کے پاس جاتی تھیں۔ ایرا نے زبان اور لفاظی سے اپنی محبت اپنے بچوں سارہ اوران کے بھائی کو ورثے میں دی۔ مارکیٹنگ میں جانے سے پہلے وہ ایک صحافی کی حیثیت سے کام کرتے تھے اور تفریح کے لیے جاتے وقت سفر کے دوران وہ اپنے بچوں کے ساتھ ورڈ گیمز یعنی لفظوں کے کھیل کھیلتے یا گانے اور نظمیں پڑھنے کے مقابلے کرتے۔

وہ کہتی ہیں ’میں کئی طرح سے ان کی طرح بننا چاہتی تھی لہٰذا میں نے ان کھیلوں سے بہت کچھ سیکھا جو ہم نے سفر کے دوران کار میں کھیلے تھے۔ مجھے لفظوں کو مروڑنا اور نئے نئے جملے یا الفاظ ڈھونڈنے میں واقعی مزہ آتا تھا۔ میرے والد کے پاس یہ ایک ایسی مہارت تھی جو میرے دوستوں کے والد کے پاس نہیں تھی۔‘

سارہ کے والدین پہیلیاں اور دیگر کھیل کھیلتے تھے تاہم وہ ایسا کوئی کھیل نہیں کھیلتے تھے جس سے ان کے بچوں کی معصومیت ختم ہو۔ اس لیے بالغوں سے متعلق تمام موضوعات پر پابندی تھی یا ممنوع تھے، خاص طور پر سیکس سے متعلق باتیں۔

سارہ کہتی ہیں ’میرے والدین کا برتاؤ ایسا تھا کہ جیسے یہ فعل موجود ہی نہیں ہیں۔ میری تیس سال کی عمر تک مجھے نہیں لگتا کہ میں نے کبھی اپنے والد کو ’سیکس کا لفظ استعمال کرتے ہوئے سنا ہو۔‘

سارہ کہتی ہیں ’اس وقت اور بھی برا ہوتا جب اگر وہ کوئی ایسا ٹی وی شو یا کوئی فلم دیکھ رہے ہوتے جس میں رومانوی منظر ہو۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا سیکس کی لت کوئی بیماری ہے؟

مور کبھی سیکس نہیں کرتا: انڈین جج

سیکس کے نشے میں مبتلا افراد پر کیا گزرتی ہے؟

سارہ کہتی ہیں ‘میرے والد کہا کرتے تھے ‘اخ’ اور فوراً اس چینل کو تبدیل کر دیا کرتے تھے یا ٹیپ کو بند کر دیا کرتے تھے اور اگر وہ جلدی سے چینل تبدیل نہ کر سکتے تو پلگ ہی نکال دیا کرتے تھے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں وہ اس سے متعلق سوالوں کے جواب نہیں دینا چاہتے تھے اور اس کمرے میں اپنے بچوں کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے تھے جہاں کوئی ذرا بھی سیکس کی بات ہو رہی ہو یا منظر دکھایا جا رہا ہو۔‘

لیکن ایک دن جب سارہ کی عمر آٹھ سال تھی، انھیں ایسی بات معلوم ہوئی جس نے سارہ کے اپنے والد کے بارے میں تاثرات کو چیلنج کیا۔

اپنے گھر کے ایک کمرے میں سارہ کتاب پڑھ رہی تھیں۔ اس کتاب سے بور ہو کر سارہ نے کتابوں کی الماری ٹٹولنا شروع کر دی۔ پہلے سارہ کتابوں کے اوپر والے شیلف تک نہیں پہنچ پاتی تھی لیکن اب ان کا ہاتھ اوپر والے شیلف تک پہنچ رہا تھا۔

بالکل اوپر دائیں کونے میں اس نے دیکھا کہ کچھ دوسری کتابوں کے پیچھے رنگ برنگے اور چمکدار کاغذوں اور کور والی کتابیں رکھی ہیں، انھیں دوسری کتابوں کے پیچھے چھپا کر رکھا گیا تھا۔

سارہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچا کیوں نہ یہ کتابیں دیکھی جائیں۔ وہ ان تمام کتابوں کے برعکس تھیں جو سارہ نے پہلے دیکھی تھیں۔‘

ان کے کور پر بھاری جسامت والی خواتین اور بہت خوبرو نظر آنے والے مردوں کی ایک دوسرے کی گودوں پر بیٹھے اور بوسے لیتے ہوئے تصاویر تھیں۔

سارہ کہتی ہیں کہ اگر ایسا منظر کسی فلم یا ٹی وی پر آتا تو ان کے والد نے فوری طور پر چینل بدل دیا ہوتا۔ بہت سے عنوانات میں لفظ ‘سیکس’ تھا۔ اس میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ لڑکی کا انتخاب کیسے کیا جائے اور 30 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے جنسی تجاویز شامل تھیں۔

اسی وقت سارہ نے اپنے والدین کے آنے کی آہٹ سنی۔ وہ جانتی تھیں انھیں یہ کتابیں نہیں دیکھنی چاہییں اس لیے وہ انھیں واپس رکھنے گئیں لیکن پھر انھوں نے کچھ ایسا دیکھا جس نے انھیں مکمل طور پر ہلا کرر رکھ دیا۔

‘میں نے ان میں سے ایک کتاب کے سر ورق پر ایرا الٹر مین چھپا دیکھا جو میرے والد کا نام تھا۔ میں نے سوچا، ایک منٹ اس کا کیا مطلب ہے؟ میرے والد تو کتابیں نہیں لکھتے۔‘

لیکن سارہ نے دیکھا کہ ان تمام کتابوں پر ایرا کا نام بطور مصنف لکھا ہوا تھا۔ سارہ کا کہنا تھا کہ وہ بری طرح کنفیوز تھیں لیکن یہ سب سمجھنے کا وقت نہیں تھا کیونکہ انھیں فوراً ہی یہ کتابیں واپس اسی جگہ پر رکھنی تھیں۔

’مجھے یہ سمجھنے میں کافی وقت لگا کہ میرے والد ایسی سیکسی کتابیں لکھتے ہیں۔‘

1970 کی دہائی میں ایرا کی سیکس سے متعلق کتابوں کی دنیا بھر میں لاکھوں کاپیاں فروخت ہو چکی تھیں اور ان کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا تھا۔

لیکن وہ یقینی طور پر اس کے بارے میں براہ راست ایرا سے نہیں پوچھ سکتی تھیں۔

جب سارہ سکول میں سیکس ایجوکیشن کی کلاس میں حصہ لینے سے متعلق اجازت نامہ گھر لے کر آئیں تو یہ بہت ہی عجیب تھا۔ ایرا اس پر دستخط کرتے وقت سارہ سے آنکھیں نہیں ملا رہے تھے۔ لہٰذا ان کی تحریر پر ان کے ساتھ بحث یا بات بھی کرنا ناقابل تصور تھا۔

سارہ کہتی ہیں کہ ‘میرے خیال میں زیادہ تر بچوں کی زندگی میں یہ لمحہ آتا ہے جہاں انھیں احساس ہوتا ہے کہ ان کے والدین اچھوت نہیں ہیں، وہ سپر ہیرو نہیں ہیں، وہ سب کچھ نہیں جانتے۔ یہ احساس اسی وقت آتا ہے جب بچے سمجھتے ہیں، اوہ ہمارے والدین سیکس کرتے ہیں، ہمیں پیدا کرنے کے لیے بھی انھوں نے سیکس کیا تھا اور اب بھی کرتے ہوں گے وغیرہ۔‘

اپنے والد کے ساتھ سارہ کا رشتہ بھی متاثر ہوا۔ اس کی وجہ تھی ان کی تحریریں اور گھر میں ان کی بالکل مختلف یا ان کی تحریروں کے برعکس شخصیت۔‘

وہ کہتی ہیں ’میں نے ایک طرح سے ان پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا کیونکہ میں والد کو جانتی تھی کہ میرے والد ہمیں جو اپنی شخصیت دکھا رہے ہیں وہ ان کی اصل شخصیت کی نمائندگی نہیں کرتی تھی۔‘

تاہم جیسے ہی وہ ہائی سکول گئیں، اپنی نو عمری میں وہ خفیہ طور پر ان چُھپی ہوئی کتابوں کی الماری تک پہنچ جاتیں اور اپنے بوائے فرینڈ سے بھی ملتی تھیں لیکن اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں، اس بارے میں بچوں کو کوئی معلومات نہیں ہوتی تھیں کیونکہ یہ 1990 کی دہائی تھی معلومات محدود تھیں۔

لیکن اس عمر میں سارہ کو اپنے والد کی کتابیں بہت اچھی لگتی تھیں۔ لیکن ان کا ایک منفی پہلو بھی تھا۔ ایرا کے لکھے ہوئے عنوانات کتابوں کی ایک وسیع سیریز کا حصہ تھے، جس میں برجیٹ نامی ایک کردار تھا۔

سارہ کہتی ہیں ‘بریجٹ ایک بھاری جسامت والی خاتون تھی اور اس کا کردار ایک فربہ جسامت کی عورت کے سیکسی ہونے کے تصور کے بارے میں لطیفوں کا مجموعہ تھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے سارہ کو اب احساس ہوتا ہے کہ اس کردار نے ان میں یہ خیال پیدا کیا کہ زیادہ وزن والی خواتین کسی کی خواہش بننے کی مستحق نہیں ہیں، جس سے ان کے اپنے ہی جسم کے بارے میں خود کے تاثرات پر منفی اثر پڑا۔

سارہ کہتی ہیں ‘یہ جان کر بہت تکلیف ہوئی کہ میرے والد نے یہ لطیفے بنائے اور میرے والد کا خیال تھا کہ فربہ جسامت والی خواتین جنسی خواہشات اور محبت کی اہل نہیں ہوتیں۔‘

لہذا اگلی دو دہائیوں میں اگرچہ سارہ کا اپنے والد کے ساتھ رشتہ مضبوط رہا لیکن ایرا کی کتابیں ایک ممنوعہ موضوع بنی رہیں جس پر سارہ ان کے ساتھ بحث نہیں کر سکیں۔

دریں اثنا سارہ سیم نامی شخص سے ملیں اور اس سے شادی کی اور ملک کے مغربی ساحل کے نزدیک منتقل ہوگئیں جہاں وہ خود ایک کامیاب مصنف بن گئیں۔ لیکن جب سارہ اپنی نئی زندگی میں آگے کی جانب بڑھ رہی تھیں ایسا لگتا تھا کہ ان کے والد مخالف سمت میں جا رہے تھے۔

60 سال سے زیادہ عمر میں ایرا نے مارکیٹنگ کی اپنی تیس سال پرانی نوکری کھو دی۔ سارہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ’ یہ دیکھنا بہت تکلیف دہ تھا کہ ایک ایسا انسان جسے میں ہمیشہ سپر ہیرو سمجھتی تھی اور جو اپنی زندگی میں بہت سی چیزوں کے لیے میرے آئیڈیل تھے اچانک اس طرح جدو جہد کر رہے تھے۔‘

جب سارہ نے نوکری کی تلاش میں ان کی مدد کی تو اس نے محسوس کیا کہ کہیں کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

سارہ کہتی ہیں ’والد مجھ سے بار بار وہی سوالات کرتے اور وہ جھنجلا جاتے۔ پہلے میں نے سوچا کہ یہ صرف بڑھاپے کی علامت ہے۔ پھر ایک دن میں ان سے ملنے آئی اور انہیں بری طرح ڈرائیونگ کرتے دیکھ کر گھبرا گئی۔ یہ بہت خوفناک تھا لیکن پھر میں نے ان کا یہ رویہ بڑھاپے سے منسوب کردیا۔‘

ان کے رویے میں سب سے چونکا دینے والی تبدیلی ایرا کے اعلان کے بعد آئی کہ انھوں نے نوکری کی تلاش بند کر دی ہے۔ سارہ کو پہلے تو یہ سوچ کر سکون ملا کہ اس کا مطلب ہے کہ اب ایرا ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن پھر انھوں نے کہا کہ ان کے ذہن میں ایک کاروبار کا آئیڈیا ہے۔

ایرا نے کہا کہ وہ دوبارہ کتابیں لکھنا شروع کرنے والے ہیں۔ سارہ حیران رہ گئیں۔ اس کا کیا مطلب تھا سارہ نے پوچھا کتابیں لکھنا؟ انھوں نے ابھی تک مصنف کی حیثیت سے ان کے کریئر پر کبھی بات نہیں کی تھی۔

ایرا نے کہا کہ ان کے پاس بچوں کی کتاب کے لیے ایک آئیڈیا ہے جو کہ ایک بہت ہی پیارے پالتو کتے پر مبنی ہے۔

ایرا نے کہا ’میں بھی کتابیں لکھنا شروع کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ میں پہلے کرتا تھا، کیونکہ وہ واقعی مقبول تھیں اور میں اس میں تمہاری مدد چاہتا ہوں۔‘

سارہ جانتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں لیکن پھر بھی اس نے ایرا کے منھ سے سننے کے لیے کہا کہ آخر اس سے ان کا کیا مطلب ہے۔

ایرا نے اسے بتایا کہ وہ اس کی حالیہ شادی سے متاثر ہو کر ایک کتاب لکھنے کی تیاری کر رہے ہیں ہے۔ ’دی ناٹی برائیڈ‘ جو بیچلوریٹس اور دلہنوں کے لیے ہو گی کہ جو ان کی رہنمائی کرے گی کہ شادی کی پہلی رات وہ اپنے شوہر کو کیسے خوش کریں۔

سارہ کا کہنا تھا کہ ‘یہ میرے لیے چونکا دینے والا تھا کیونکہ یہ پہلی بار تھا جب ہم نے کبھی ان کی کتابوں کے بارے میں بات کی تھی اور یہ بھی کہ میں نے اپنے والد کو پہلے کبھی سیکس کا لفظ کہتے ہوئے یا جنسی موضوع پر بات کرتے نہیں سنا تھا۔’

پہلے تو سارہ نے اپنے والد کی اس عجیب و غریب درخواست پر مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن جلد ہی ایرا کے رویے میں ڈرامائی تبدیلی کی وجہ سامنے آ گئی۔

اپریل 2014 میں انھیں اپنی والدہ کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی۔ جس میں لکھا تھا کہ وہ اور ان کے شوہر ایک نیورولوجسٹ سے ملنے گئے تھے جس نے انھیں بتایا تھا کہ ایرا کو الزائمر کی بیماری ہے۔

سارہ کو ابھی معلوم ہوا تھا کہ وہ حاملہ ہیں اور یہ خبر اس کے لیے تباہ کن تھی۔ وہ اپنے لیے ایرا کے نیورولوجسٹ سے بات کرنے کے لیے واپس میساچوسٹس گئیں۔ اس نے انھیں بتایا کہ الزائمر ایک دماغی مرض ہے جو آہستہ آہستہ یادداشت اور سوچنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتا ہے اور آسان ترین کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔

سارہ کہتی ہیں ’ڈاکٹروں کے مطابق الزائمر کے شکار لوگوں میں سماجی احساس یا رشتوں کا وقار ختم ہو جاتا ہے لہٰذا اگر آپ کے والد کچھ طریقوں سے نامناسب حرکتیں شروع کر دیں، یا ایسا برتاؤ کریں جو آپ کے لیے نیا ہو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کے والد بدتر شخص ہیں یہ صرف بیماری کی ایک علامت ہے۔‘

تو سارہ نے ایرا کی مدد کرنے کا عزم کیا کہ وہ جانتی تھی کہ وہ یہ کر سکتی ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو وہ کتابیں لکھنے میں ایرا کی مدد کرنے پر راضی ہوگئی۔

یہ اب بھی اس کے لیے آسان نہیں تھا۔ اپنے والد کے ساتھ جنسی گفتگو کرنا اب بھی بہت عجیب لگتا تھا لیکن سارہ نے ان سب جذبات کو ایک طرف رکھنے کا راستہ تلاش کیا۔ سارہ کا کہنا تھا میں زیادہ تر سکرپٹ میں ترمیم کرتی اور انہیں مشورہ دیتی تھی وہ مجھے نئی کتابوں یا ابواب کے لیے جنسی رجحان یا پوزیشن یا اس وقت جو کچھ بھی سوچ ہوتی تھی اس کے بارے میں آئیڈیا دے کر فون کرتے تھے۔‘

’کئی بار وہ مجھے اپنی کتابوں کے پرنٹ آؤٹ بھیج دیتے اور میں ان میں ترمیم یا ایڈٹنگ کردیتی تھی۔‘

اس کے فوراً بعد ایرا نے اعلان کیا کہ وہ پنسلوانیا میں اپنے آبائی شہر پرکاسی واپس جانا چاہتے ہیں تاکہ سب کچھ بھولنے سے پہلے وہ اپنے خوشگوار بچپن سے وابستہ تمام مقامات کو دیکھ سکیں۔

سارہ کہتی ہیں ’انھیں معلوم تھا کہ ان کی زندگی اب ختم ہو رہی ہے اور یہ سفر ان کے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارنے کا بہترین موقع ہے۔‘ سارہ چھ ماہ کی حاملہ تھیں ایرا نے اپنا نواسا دیکھا ضرور لیکن وہ جانتے تھے کہ وہ اسے بڑا ہوتا نہیں دیکھ پائیں گے۔

ایرا آلٹرمین 6 جولائی 2015 کو ستر سال کی عمر میں وفات پا گئے اور جو کتاب انھوں نے سارہ کی مدد سے لکھی تھی وہ شائع ہوئی اور اسے تھوڑی بہت کامیابی ملی۔

لیکن ایک اور پروجیکٹ تھا جس میں انھوں نے سارہ کی مدد طلب کی تھی۔

سارہ کا کہنا ہے کہ ایرا نے ہمیشہ انھیں اور ان کے بھائی کو سونے سے پہلے کہانیاں سنائی تھیں جو انھیں یاد تھیں سارہ اور ان کی والدہ نے ان کہانیوں کا مجموعہ لکھنے میں ان کی مدد کی تاکہ ان کے پوتے پوتیاں ان سے لطف اندوز ہو سکیں۔

سارہ نے اپنے والد کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں ‘لیٹس نیور ٹاک اباؤٹ اِٹ اگین’ کے عنوان سے ایک یادداشت لکھی۔ اس کے بالکل آخر میں ایرا کی سونے کے وقت کی کہانیوں میں سے ایک جسے ‘دی بوائے ود دی اگلی سویٹر’ کہا جاتا ہے کا ذکر کیا۔

سارہ کا کہنا ہے ‘میرا اپنا بیٹا واقعی اس کہانی سے محبت کرتا ہے اور اس طرح ہم اپنے والد کی ان کے نواسے نواسیوں کے ساتھ تعلق رکھنے کی خواہشات کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp