داعش کی بیٹی



لیلیٰ کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ٹیلیفون اس کے ہاتھ سے گرا گرا جا رہا تھا۔
’ہیلو۔‘ یہ تو جانی پہچانی آواز تھی۔ ’ہیلو، ہیلو!‘

’میں ہوں لیلیٰ۔‘ آنسو فون پہ ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ ’ماں ماں میں بچ گئی ہوں میں زندہ ہوں، فوج نے ہمیں آزاد۔‘

’ لیلیٰ۔ لیلیٰ۔ میری بچی۔ تو زندہ ہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے تو زندہ ہے۔ ہم تو بالکل نا امید ہو گئے تھے۔ ‘ ماں کی سانس اکھڑ رہی تھی۔ ’لیلیٰ۔ لیلیٰ۔ میری بچی۔‘

’آپ سب لوگ ٹھیک ہیں، بابا، سادات، حسن؟‘

’ہاں! ہاں! ہم سب لوگ ٹھیک ہیں۔ ہم رقہ سے بھاگ کر کردوں کے شہر سلیمانیہ آ گئے تھے اور اب تک یہیں ہیں۔ ہم نے دن رات ایک کر دیے لیکن داعش والوں نے ہمیں تمہارے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا۔‘ آخر تھک ہار کر بیٹھ گئے اور خون کے آنسو پیتے رہے۔

’ماں! ماں! ‘ اور پھر لیلیٰ کے آنسوؤں کا بادل پھٹ گیا۔
’میری بچی! میری لیلیٰ! اب رونے کی ضرورت نہیں! میری بچی ہم تمہیں کہاں لینے آئیں؟ ‘

’ماں تم مجھے پتہ بتا دو، یہاں سے ایک تنظیم نے ہمیں گھر پہنچانے کی ذمہ داری لی ہے۔ ہم دونوں خود ہی آ جائیں گے۔ ‘

’ہیلو تم بول کیوں نہیں رہی۔ ماں ماں! ‘
’دوسرا کون ہے تمہارے ساتھ؟‘ ماں کی آواز اب دھیمی ہو گئی تھی۔
’میری بچی کلثوم۔ ‘
پھر دوسری طرف سناٹا جیسے کوئی بات کرنے والا ہی نہ ہو۔
’ہیلو، ہیلو، ماں! ‘

’تمہاری بچی! اسے کبھی ادھر نہ لانا۔ ہم یہ بدنامی برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر تم اسے یہاں لے کر آؤ گی تو کوئی اسے جان سے مار دے گا۔‘

’وہ کیوں؟ میرا کیا قصور اور اور میری بچی کا کیا قصور؟‘ لیلیٰ نے پھر آنکھوں سے مینہ برسانا شروع کر دیا۔

’آپ میری مدد کرنے کے بجائے مجھ پر اور میری بچی پر ظلم کر رہے ہیں، یا خدایا! ‘ لیلیٰ زار و قطار رو رہی تھی۔

’بیٹی میں تمہیں کیا بتاؤں، بچی یا بچہ کیا، یہاں تو داعش کا نام لینا بھی جرم ہے۔ یہ لوگ داعش کے ہر نام و نشان کو ہمیشہ کے لئے اپنی یاد سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ یہاں آ کر تم کبھی داعش کا لفظ منہ سے نہیں نکالنا۔ اور نہ ہی کوئی اس بارے میں کوئی بات کرنا۔‘

’کلثوم میری صرف دو سال کی بیٹی ہے۔ میں اسے کیسے اور کہاں چھوڑ کر آؤں، اتنا ظلم نہیں کرو ماں۔ ‘
کچھ سیکنڈ خاموشی رہی۔
’ابھی تم اس کو کسی یتیم خانے میں چھوڑ آؤ اور جب تم یہاں آ جاؤ گی تو حل نکال لیں گے۔ میں تمہیں۔ ‘
اور لیلیٰ کے ہاتھ سے فون گر کر بند ہو گیا۔

یاقوت نے غصے سے اٹھ کر فون اٹھایا۔ ’مجھے یہی ڈر تھا۔ ‘ پھر اس نے ایک لمبا سانس لیا۔ ’تم اس کو یہیں چھوڑ جاؤ ہم اس کا خیال رکھیں گے۔ ‘

’کیا ماں باپ بھی اتنے ظالم ہو سکتے ہیں! ‘

یاقوت نے لیلیٰ کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’یہ خانہ جنگی کا دور ہے ہر شخص اپنے حالات سے مجبور ہے۔ تم اس سے اچھی طرح مل لو اور جلدی کرو، یہاں دیکھو کتنے لوگ مجھ سے بات کرنے کے لئے انتظار کر رہے ہیں۔ ‘

’میں اسے خدا حافظ نہیں کہہ سکتی کوئی دو سال کی بچی ماں کے بغیر کیسے رہے گی! میں بھی یہیں رک جاتی ہوں۔ ‘

’ہم اس کا بہت اچھی طرح خیال رکھیں گے۔ یہ تو صرف بچوں کی جگہ ہے میں تمہیں یہاں نہیں رکھ سکتی اور نہ ہی اپنے گھر میں۔ اب تم جاؤ ورنہ تمہاری آج کی بس بھی نکل جائے گی۔ ‘

’ لیکن میں اپنی بچی کو خدا حافظ نہیں کر سکتی۔ ‘ تھوڑی دیر بعد لیلیٰ بھاگ کر عمارت سے باہر نکل آئی۔
۔ دو ہفتے کے بعد ۔
’تمہیں یہاں آئے ہوئے دو ہفتے ہو چکے ہیں کب تک ایسے ہی روتی رہو گی!‘
’جیسے آپ لوگ میرے لیے رو رہے تھے۔ ‘ لیلیٰ نے آنسو پوچھتے ہوئے کہا۔
’صبر کرو صبر۔ حالات ہمارے قابو سے باہر ہیں۔ ‘ باپ نے لیلیٰ کو بھینچتے ہوئے کہا۔

’آپ لوگوں کو سب پتا ہے کہ تو میرے ساتھ کیا کیا ہوا ہے۔ پھر بھی آپ لوگوں نے میری بچی کلثوم کو مجھ سے علیحدہ کر دیا۔ بولیں آپ لوگوں اور داعش میں کیا فرق ہے؟‘

’تم ابھی صرف انیس سال کی ہو دوبارہ اسکول جانا شروع کرو، کچھ لکھو پڑھو تمہارا دھیان بٹ جائے گا۔ ‘
’کیا آپ لوگوں نے مجھے بھول جانے کی کوشش کی تھی، اور اپنا دھیان کہیں اور بانٹا تھا؟‘
۔ ایک سال بعد ۔
لیلیٰ اپنی بچی کو کو پاگلوں کی طرح چومے جا رہی تھی، کبھی رو رہی تھی کبھی ہنس رہی تھی۔
’تمہارے گھر والے اب اسے رکھنے کے لیے تیار ہو گئے! ‘ یاقوت نے قدرے اطمینان سے پوچھا۔
نہ جواب ملنے پر پھر اس نے پوچھا۔ ’اچھا تم کلثوم کو کو لے کر جا رہی ہو لیکن کہاں! ‘

’اس اتنی بڑی دنیا میں کوئی اس بچی کا نام بھی نہیں لینا چاہتا۔ اب اس کے لئے ایک ہی جگہ رہ گئی ہے۔ مادام۔‘

’کون سی جگہ ہے جہاں اس کو قبول کر لیں گے؟ ‘ یاقوت کے ماتھے پہ صرف تیوریاں ہی تیوریاں تھیں۔

’یہ داعش کی بچی ہے میں اسے انہی کے پاس لے جا رہی ہوں۔ میں نے اس کے باپ کا پتا کر لیا ہے کہ وہ کہاں ہے۔ ‘

یاقوت کا قلم سوالات اور جوابات لکھ رہا تھا۔ ’یعنی واپس اسی کے پاس جس نے تمہیں! جس نے تمہیں دو سال سے بھی زیادہ عرصے تک۔‘

وہ جملہ مکمل نہ کر سکی۔
’لیلیٰ کیا وہ تم سے شادی کرے گا؟‘ یاقوت کی بے قراری بڑھتی جا رہی تھی۔

لیلیٰ ایک پتھر بنی ہوئی تھی۔ چہرہ بالکل جذبات سے عاری تھا۔ اچانک وہ چیخ اٹھی۔ ’ہاں اسی کے پاس۔ ہاں اسی کے پاس!‘

یاقوت کچھ نہ کہہ سکی۔
یاقوت کے ہونٹ کھلے ہوئے تھے۔ لیکن زباں گنگ ہو چکی تھی۔

’میں نے اس سے رابطہ کیا ہے اور اس نے مجھے بچی کے ساتھ آنے کے لیے کہا ہے، پھر، پھر وہ کہتا ہے کہ وہ بچی کو خود پالے گا اور اسے جنگی تربیت دے گا۔ ‘

’اور تم؟ تم کہاں جاؤ گی؟ کیا کرو گی؟‘
’میں اس کے پاس رہ لوں گی بیوی بن کر یا جنسی غلام بن کر، کلثوم کے لئے! اپنی بچی کے لئے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments