علی وزیر اور ریاست سے ناراض لوگوں کا لہجہ تلخ کیوں ہے؟


گلگت بلتستان سے لے کر گوادر تک اور وزیرستان سے لے کر بلوچستان تک ایک بے چینی اور بے گانگی کا احساس ریاستی وجود کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔ پنجاب اور سندھ میں بھی اگرچہ احساس محرومی اور ریاست سے ناراضی کا رجحان ابھی اتنا بھی شدت اختیار نہیں کر سکا ہے لیکن سندھ کے دیہات اور سرائیکی وسیب کی صورت میں دھیمی آنچ کسی بھی وقت شعلۂ جوالہ بن سکتی ہے۔ گوادر میں اپنے آئینی حقوق کے لئے اٹھنے والی آواز کو اگرچہ اس کی حساس حیثیت کی وجہ سے کچھ مطالبات مان کر خاموش کرانے کی کوشش کی گئی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ریاست اپنے عہد کا پاس رکھنے میں کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی ہے۔ ہر اٹھنے والی جائز آواز وقتی مصلحتوں کی آڑ میں یا تو طاقت کے ذریعے خاموش کی گئی ہے اور یا عارضی دلاسا دے کر اسے امید و بیم کے چوراہے پر لٹکانے کا وسیع تر قومی مفاد کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس کی مثال بلوچستان اور وزیرستان کی ہے۔

اس وقت پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر گزشتہ ایک سال سے ریاست کے قیدی ہیں۔ انھیں گزشتہ برس 16 دسمبر 2020 ء کو سندھ پولیس کی درخواست پر پشاور سے گرفتار کر کے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے چھ دسمبر 2020 ء کو سہراب گوٹھ کراچی میں پیشگی اجازت لیے بغیر جلسہ کیا اور اس میں سیکیورٹی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز الفاظ استعمال کیے۔

30 نومبر 2021 ء کو سپریم کورٹ نے علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انھیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔ اس سے قبل ان کی ضمانت کی درخواستوں کو مسلسل تاخیری حربوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا تھا لیکن اب درخواست ضمانت منظور کیے جانے کے باوجود انھیں ابھی تک رہائی نصیب نہ ہو سکی ہے۔ بہ ظاہر ان کی رہائی دوسرے مقدمے کی وجہ سے عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے لیکن ان کی رہائی میں با اثر ادارے مخل ہو رہے ہیں کیوں کہ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت اس مقدمہ میں دیگر تمام ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں منظور کی جا چکی ہیں لیکن علی وزیر کو ہی جیل میں رکھا گیا ہے۔ 10 دسمبر کو دوسرے مذکورہ مقدمے میں سماعت 15 دسمبر تک موخر کی گئی تھی لیکن اسے بعد ازاں رواں مہینے کی 28 تاریخ تک التوا میں ڈال دیا گیا ہے۔

علی وزیر جنوبی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں۔ وہ پارلیمان میں اپنے علاقے کے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن جان بوجھ کر انھیں اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

علی وزیر اور پی ٹی ایم کے دیگر رہنماؤں اور کارکنوں کے لہجے میں تلخی کیوں موجود ہے۔ حکومت اور طاقت وار اداروں کو اس کا علم اچھی طرح سے ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جس انداز میں فوجی کارروائیاں کی گئیں، اس نے دہشت گردوں کو کم اور عام پرامن لوگوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس ریاستی ظلم اور جبر کے خلاف وہاں جس نے بھی آواز بلند کرنے کی کوشش کی ہے، اسے یا تو اٹھا کر غائب کر لیا گیا ہے، یا اسے ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے اور یا اسے اپنے پالے ہوئے اچھے طالبان کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسی وزیرستان میں فوجی آپریشنوں کے دوران ایک ایک گھر سے کئی کئی جنازے اٹھے ہیں۔ علی وزیر جن پر غداری کا الزام لگایا جاتا ہے، ان کے گھر سے ایک درجن سے زائد جنازے اٹھے تھے جن میں ان کے والد اور بھائی سمیت کئی قریبی رشتے دار شامل ہیں۔ ان کے گھر اور تجارتی مراکز کو ملبے کا ڈھیر بنایا گیا تھا اور وہاں موجود چیک پوسٹوں میں جس طرح عام لوگوں کو ذلیل کیا جاتا تھا، اس نے وہاں کے مکینوں کے ذہنوں میں سیکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات بھر دیے ہیں۔

منظور پشتین کی جرات مندانہ قیادت میں ”محسود تحفظ موومنٹ“ کا قیام ریاستی اداروں کے ان ہی ظلم و جبر کی پالیسیوں کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا لیکن جب نقیب اللہ محسود کو کراچی میں ماورائے عدالت قتل کیا گیا تو اس کو ”پشتون تحفظ موومنٹ“ میں تبدیل کر دیا گیا کیوں کہ پختونوں کے ساتھ طاقت ور اداروں کا جابرانہ سلوک صرف وزیرستان ہی میں نہیں ہو رہا تھا بلکہ سوات، بلوچستان اور کراچی میں بھی پختونوں کے ساتھ امتیازی برتاؤ جاری تھا جو اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ پی ٹی ایم کے جلسے ہمیشہ پرامن ماحول میں ہوتے رہے ہیں اور ان میں پہلے پہل اداروں کے خلاف کوئی اشتعال انگیز نعرے بلند نہیں ہوتے تھے لیکن جب ان کی آواز نہیں سنی گئی، مین سٹریم میڈیا میں ان کے پرامن احتجاج کا بلیک آؤٹ کیا گیا اور ان کے رہنماؤں پر غداری کا الزام عائد کیا گیا تو ان کے لہجوں میں تب تلخی عود کر آئی۔ علی وزیر اور ان کا خاندان چوں کہ فوجی آپریشنوں میں زیادہ متاثر ہوا ہے، اس لئے وہ ریاستی ظلم اور چیرہ دستی کے خلاف دبنگ انداز میں بولتے رہے ہیں۔ اگر ریاست مظلوم اور مقہور پختونوں کے جائز مطالبات مانتی اور ان کی اشک شوئی کے لئے منصفانہ طور پر عملی اقدامات اٹھاتی تو ریاستی جبر کی کوکھ سے جنم لینی والی یہ تحریک بے اثر ہو کر ختم ہوجاتی لیکن ہماری ریاست کی شان ہی نرالی ہے۔ ناراض اور مظلوم عوام کو انصاف فراہم کرنے کی بہ جائے وہ اپنے مظالم کو چھپانے کے لئے وسیع تر قومی مفاد کی آڑ لیتی ہے اور ستم رسیدہ عوام کی آواز دبانے کے لئے غداری کے سرٹیفیکیٹ جاری کرتی ہے۔

علی وزیر کو جن الزامات کے تحت ایک سال تک قید میں رکھا گیا ہے، ان کے مقابلے میں تحریک لبیک پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے ثابت شدہ جرائم زیادہ سنگین ہیں۔ اولالذکر پر بھارت کے فنڈنگ کا الزام لگا کر اسے ملک دشمن جماعت قرار دیا گیا تھا لیکن پھر اس پر لگائے گئے تمام الزامات اور مقدمات واپس لئے گئے اور اسے پاک و صاف قرار دے دیا گیا۔ آخرالذکر کے ساتھ مفاہمت کا ڈول ڈالا گیا اور اس کے لئے عام معافی کی تجویز پیش کی گئی لیکن وہ حکومت کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ نہ ہو سکی اور اس نے ریاست کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

اس میں شک نہیں کہ پاکستان قدرت کی طرف سے ہمارے لئے ایک ان مول عطیہ اور نعمت ہے۔ یہاں پر بسنے والی مختلف قومیتوں کے حامل لوگ ایک ہی گل دستے کے مختلف معطر پھولوں کی مانند ہیں۔ انھیں اگر اپنی تاریخ کے تناظر میں لسانی اور نسلی شناخت دی جائے تو اس سے وفاق پاکستان کمزور نہیں بلکہ مضبوط اور مستحکم ہو گا۔ مختلف چھوٹی بڑی قومیتوں کی وجہ سے یہاں تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کا تنوع موجود ہے جس نے پاکستانی معاشرے کو رنگارنگی اور خوب صورتی بخشی ہے۔ حیثیت کے لحاظ سے ان میں نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا، سب کے حقوق مساوی ہیں۔ ریاستی اداروں کی طرف سے اگر ان کے ساتھ نسلی اور لسانی تعصب کی بنیاد پر غیر مساوی سلوک ہو گا تو اس سے تمام قومیتوں کے مابین نفرتیں جنم لیں گی جس سے وفاق کو سنگین خطرات کا سامنا ہو گا۔ دہشت گردی کی جنگ جو ہماری نہیں تھی، اسے ہم نے کچھ ذاتی اور کچھ نام نہاد ریاستی مفاد کے لئے دانستہ طور پر اپنی بنا لی ہے، اس نے پورے ریاستی وجود کو زخموں سے چور چور کر دیا ہے۔ دوسری طرف ناراض اور کسی حد تک مشتعل عوام کے ساتھ روئیے میں حکمت اور تدبر کا فقدان ہے۔ ریاست کی مثال اگر ماں کی سی ہے تو ان کے ساتھ شفقت و محبت اور ہم دردی کا سلوک ہونا چاہیے اور یہ کام عوام کی منتخب حکومت زیادہ بہتر طور پر کر سکتی ہے لیکن طاقت ور ادارے اس معاملے میں عوامی نمائندوں کی بہ جائے بے محابا طاقت اور جبر کو فوقیت دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ناراض لوگوں کا احتجاج اشتعال اور بغاوت کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ اس وقت بدقسمتی سے ملک کا کون سا حصہ ہے جو مثالی امن و امان کا مظہر ہے اور جہاں عوام کو امن و سکون اور خوش حالی و آسودگی کا احساس ہو سکتا ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی اپنی بیڈ گورننس اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں ملک میں بے چینی اور عدم تحفظ کی لہر دوڑا دی ہے جس کی وجہ سے ریاست مسائل کی گرداب میں بری طرح پھنس چکی ہے، اس لئے طاقت ور اور اصل مقتدر حلقوں کو سوچنا چاہیے کہ اگر حالات یوں ہی تباہی کی طرف گامزن رہے تو مستقبل کی بھیانک صورت گری سے بچنا مشکل ہو گا۔

جبری طور پر لاپتا افراد، ماورائے عدالت ہلاکتوں، میڈیا پر پابندیوں اور علی وزیر جیسے ناراض سیاسی کارکنوں پر مقدمات نے عالمی سطح پر ملک کی بچی کھچی ساکھ پر مزید سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ جب مسائل کی جڑوں کو ختم کرنے کی بہ جائے ان کی نشان دہی کرنے والے ناراض لوگوں پر غداری کے الزامات لگانا قومی مفاد کی ناگزیر روش بن جائے تو ریاست کی سلامتی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اصل مقتدر حلقے اور قومی سطح کے سیاست دان مل بیٹھ کر موجودہ روز افزوں سنگین سے سنگین تر ہوتی صورت حال کا جائزہ لیں اور باہمی مشاورت سے ملک کو مسائل اور مشکلات کی اس گرداب سے نکالنے کی کوئی صورت نکالیں۔ ورنہ گلگت سے لے کر گوادر تک، وزیرستان سے لے کر بلوچستان تک اور پنجاب سے لے کر سندھ تک پھیلی عوامی بے چینی اور ناراضی کسی ناخوش گوار سانحہ کا سبب بھی بن سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments