میری بیوی جاہل ہے


پاکستان وہ ملک ہے جہاں بدقسمتی سے خواتین کے حقوق کے علمبرداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور اس سے بھی زیادہ بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ افراد جو خواتین کے حقوق کی علمبرداری کے دعوے دار ہیں درحقیقت ویسے ہیں نہیں جیسے نظر آنا چاہتے ہیں۔ یہ محض ایک الزام نہیں بلکہ وہ تلخ حقیقت ہے جسکا تجربہ سوشل میڈیا پر با رہا ہوچکا ہے۔
چند ماہ قبل ایک صاحب جو خواتین کے حقوق کی علمبرداری کے پرجوش دعوے دار تھے میرے فیس بک اکاؤنٹ پرموجود دوستوں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ خواتین پر ہونے والی زیادتیوں اور ان پر عائد بے جا معاشرتی پابندیوں کے موضوع پر کی گئی میری ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ :

“خواتین اپنی ہم جنسوں پر ہونے والے مظالم کی خود ذمہ دار ہیں ؛ عورت ہی عورت کو جینے نہیں دیتی اورعورت ہی عورت کی دشمن ہے۔”
جب میں نے ان سے ان کے ان خیالات کے پیچھے کارفرما وجہ دریافت کی تو فرمایا :

” جب میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کسی پارک یا کسی اور تفریحی مقام پر جاتا ہوں تو میری بیوی میری تیرہ سالہ بیٹی کو پارک میں کھیلنے کودنے اور جھولا جھولنے پرسخت روک ٹوک کرتی ہے جبکہ میرے بیٹوں پر اسکی جانب سے ایسی کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی ۔”
ان صاحب کی اس بات سے مجھے واقعی بہت دکھ پہنچا کہ ظالم ماں کس طرح اپنی معصوم بچی سے اسکے بچپن کی خوشیاں چھین رہی ہے۔ لیکن بہرحال میری نظر میں یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا جسے حل نا کیا جاسکتا ہو، کیونکہ پدرسری معاشرے کی نمائندہ، دقیانوس، تنگ نظرماں بھلے لاکھ بیٹی کے حقوق غضب کرنے کی کوشش کرے لیکن ایک آزاد سوچ کا حامل ترقی پسند باپ کم ازکم اپنی بیوی کے سامنے تو اپنی بیٹی کے حقوق کی خاطر سینہ سپرہوہ ی سکتا ہے۔
جب میں نے ان صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ اور اپنی بیٹی کے حقوق کے تحفظ کی خاطر اپنی بیگم کو سمجھائیں اور اس معاملے میں لاپرواہی نا برتیں کیونکہ ہر انسان کو بچپن صرف ایک ہی بار ملتا ہے اور بڑا مختصر ہوتا ہے تو اس پرانھوں نے کچھ اس طرح پینترا بدلا کہ عقل ہی حیران رہ گئی ۔ فرمانے لگے :

“میری بیوی اتنی ظالم نہیں ہے کہ وہ بیٹی سے اسکی خوشیاں چھینے، بس وہ معاشرے سے خوفزدہ ہے۔”

جب میں نے ان سے سوال کیا کہ ؛ جب وہ جانتے تھے کہ انکی بیوی ظالم نہیں ہے صرف معاشرے سے خوفزدہ ہے تو پھر وہ پدرسری معاشرے میں خواتین پر ہونے والے مظالم سے متعلق مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے معاشرے کے بجائےعورت کو عورت کی دشمن کیونکر قرار دے رہے تھے؟ ایک پبلک پوسٹ پر اپنی بیوی اور بیٹی کی مثال پیش کرکے کیونکر یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ انکی بیوی ظالم اور جاہل ہے اور انکی بیٹی کو جینے نہیں دیتی؟

ساتھ ہی ساتھ میں نے انھیں یہ احساس دلانے کی بھی کوشش کی کہ پبلک میں اپنے گھر کی سیدھی سادی خواتین کی بلاوجہ برائیاں کرنا شریف مردوں کا شیوہ نہیں ہوتا ۔

میرے ان سوالات اور الفاظ نے ان صاحب کو اتنی شدید جھنججھلاہٹ میں مبتلا کیا کہ انکی زبان سے مغلطات نکلنے شروع ہو گئے اور یہ مغلطات انکی انگلیوں کے رستے کی بورڈ سے ہوتے ہوئے کمنٹس تک بھی تک بھی آ پہنچےاورانھوں نے مجھے مرد دشمن، فرسٹریٹڈ ذہنی مریض قراردے ڈالا؛ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ صاحب اب میرے دوستوں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔
ان صاحب کے رویے سے جو تاثر ملا وہ یہ تھا کہ اگر آپ کسی دوست مرد کے ساتھ مل کر اس کی بیوی کا مذاق نا اڑائیں اوراس کی غیبت نا کریں تو آپ لازمی مرد دشمن ہیں یا آپ کسی بھی بے سروپا الزام کی بنیاد پر عورت کو عورت کی دشمن تسلیم کرلیں بصورت دیگر آپ مرد دشمن ہیں۔
یہ واحد کیس نہیں ہے۔ بلکہ عام مشاہدہ ہے کہ آزاد خیالی کے دعویدار مرد خواتین سے دوستیاں گانٹھ کر ان کے سامنے ان کی ذہانت کے فرضی قصیدے پڑھ کر اوراپنی بیویوں کی جہالت ، تنگ نظری، بد زبانی اور پھوہڑ پن کے فرضی قصے سنا کر ان خواتین کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر و بیشتر نا صرف اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان خواتین کو اپنی دوسری بیوی بننے پر بھی راضی کرلیتے ہیں مگر مزے کی بات یہ کہ اپنی بیوی سے شدید نفرت اور بیزاری کا اظہار کرنے کے باوجود اسے طلاق دینے پر راضی نہیں ہوتے کیونکہ ان کے پاس مجبوریوں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے۔

 اگر آپ اپنے حسن گفتار و کردار و ادا پر کچھ زیادہ ہی نازاں ہیں تو اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ کے دھوکا کھانے کے چانسز صفر ہیں بلکہ اگر خوش فہمی حد سے بڑھی ہوئی ہے تو کسی بھی شخص کے لئے قطعی مشکل نہیں کہ آپ کے سامنے آپ کی تعریف میں چند بول بول کر اور اپنی بیوی کی برائیوں کا پٹارا کھول کر آپ کو اپنی مٹھی میں کرلے۔ کسی سراہنے والے سے محبت کرنے میں اگرچہ کوئی حرج نہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جو شخص ایک عورت سے شدید نفرت اور بیزاری کا اظہار کرنے کے باوجود اسے چھوڑنے کی ہمت نہیں کرسکتا تو وہ آپ سے شدید محبت کا اظہار کرنے کے باوجود آپ کو کیونکر اپنا سکتا ہے؟ یہاں یا تو یقینی طور پر اسکی اپنی بیوی کے ساتھ نفرت میں کھوٹ ہوگا یا پھر آپ کے ساتھ محبت میں؛ اور دونوں صورتوں میں فائدہ کسی کا بھی ہو مگر نقصان آپ کا ہی ہوگا، شادی شدہ مرد کو پھانسنے کے طعنے بھی آپ کو ہی ملیں گے، عورت ہو کر عورت کے ساتھ دشمنی کرنے کا تمغہ بھی آپ کے ہی حصے میں آئے گا اور ساتھ ہی ساتھ محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر بنائے گئے اس رشتے کے کھوکھلے پن کی ساری کی ساری اذیت بھی آپ ہی کو سہنی پڑے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی تعریف ہر شخص کو پسند ہوتی ہے اور بلاامیتاز رنگ و نسل و جنس ہر شخص اپنی اصلی یا فرضی خوبیوں کی بنیاد پرسراہا جانا پسند کرتا ہے لیکن اگر آپ ایک پدرسری معاشرے سے تعلق رکھنے والی خاتون ہیں اور اس معاشرے میں خواتین پر ہونے والے مظالم اور ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کی چشم دید گواہ بھی ہیں تو آپ کو قطعی زیب نہیں دیتا کہ آپ محض اپنی تعریف کے عوض اپنے نام نہاد فیمینسٹ مرد دوستوں کی زبانی انکی بیویوں کی جہالت، بد زبانی، تنگ نظری اور پھوہڑ پن کے قصے سن کر بلا تردید ان پر ایمان لائیں۔ ممکن ہے کہ کچھ خواتین واقعی ویسی ہی بد زبان ، بدتمیز اور جاہل ہوتی ہوں جیسا کہ ان کے شوہر کہتے ہیں لیکن بہر حال ہر سکے کا دوسرا رخ بھی ہوتا ہے جسے دیکھے بنا کوئی بھی فیصلہ صادر کرنا کسی اور کے ساتھ نہیں بلکہ آپ کے اپنے ساتھ خود آپ کی اپنی ہی زیادتی ہو گی ۔ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments