اسلامو فوبیا اور ہیپی کرسمس


بہت سوچا کہ مجھے اس موضوع پر لکھنا چاہیے یا نہیں۔ بہت سوچ بچار کے بعد لکھنے پر مجبور ہو گیا۔ لکھنے سے ہچکچاہٹ کی وجہ عیاں ہے کہ ہم جیسوں پر ”ان“ کی خاص نظر ہوتی ہے اور عقیدہ فرق ہونے کی وجہ سے ”ایویں“ زیرعتاب رہتے ہیں۔ لیکن کیا کریں لکھنا بھی مجبوری ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے حکمران اسلاموفوبیا کا اتنا شور کرتے ہیں کہ مثل لاگو ہوتی ہے کہ ”جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے“ اور ویسے بھی موجودہ حکمرانوں نے تو جھوٹ بولنے کے علاوہ کچھ کیا ہی نہیں۔

اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو آپ بات کر سکتے ہیں لیکن دلائل کے ساتھ۔ بات دراصل یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کے ماننے والے لاکھوں، کروڑوں افراد ایسے ہیں جو نان مسلم ممالک کے اندر رہائش پذیر ہیں اور ان ممالک میں انہیں تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں سوائے چین کے۔ جہاں کہیں کوئی کمی ہوتی ہے وہ شور شرابا کر کے مزید حاصل کرلیتے ہیں مگر ہمیں یہاں یہ سہولت حاصل نہیں الٹا زیر عتاب رہتے ہیں۔ لیکن قربان جاؤں اپنے پاکستانیوں کے، انہیں یورپ، امریکہ یا دیگر ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے حسن سلوک پر بات کرنا تو فرض ہے لیکن چین میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا ”حسن سلوک“ نظر نہیں آتا۔

اس سے پیشتر کہ یہ سلسلہ طویل ہو جائے، اصل موضوع کی بات کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں بسنے والے مسیحی یا بعض دوسرے نان مسلم آزادی کے بعد اپنی مرضی سے یہیں مقیم رہے بلکہ پاکستان کے قیام کے دوران ایس پی بہادر سنگھا (مسیحی) کا ووٹ اہمیت کا حامل تھا۔ لیکن گزشتہ سات دہائیوں سے مسلمانوں نے دیگر نان مسلم کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کی دنیا مثالیں دیتی ہے اور آئے روز یورپی یونین اور امریکہ اس سے متعلق دستاویزی ثبوت جاری کرتا رہتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ یہاں سب کے سب برے لوگ ہیں بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے اس عمر تک ہم نے اپنے اردگرد مسلمان دوستوں کے ساتھ وقت گزارا اور بہت اچھے لوگ بھی ہیں اور اچھے برے وقتوں کے ساتھی ہیں، ہم ان کے شکر گزار بھی ہیں اور ظاہر ہے ہمیں اس مٹی سے محبت ہے اور آپ اس بات کے گواہ ہوں گے کہ آج تک کسی نان مسلم نے وطن سے غداری نہیں کی۔ اپنے حقوق کے لئے بات کرنا یا کسی ناروا سلوک پر آواز بلند کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

ہمارے بہت سے مسلمان دوست نان مسلم کو اسلام وعلیکم کے جواب میں وعلیکم السلام نہیں کہتے، کیونکہ شاید انہیں اسلام میں اس بات کی اجازت نہیں۔ مگر مسیحیت میں تو ہر ایک کے لیے سلامتی کی دعا کی تلقین کی گئی ہے اور باقاعدہ حکم ہے کہ جہاں پر آپ رہتے ہیں اس وطن کے حکمرانوں اور وطن کی سلامتی کی دعا کرو۔ خیر! ہر عقیدے کی اپنی تعلیمات ہیں وہ ویسا ہی عمل کریں گے۔ ویسے تو پاکستان میں بسنے والے نان مسلم ایسے سلوک کے عادی ہوچکے ہیں تاہم اس سال کرسمس کے موقع پر ایسے پیغامات سامنے آئے کہ بعض عالموں نے فتوے جاری کیے کہ کرسچن کو کرسمس کی مبارک باد نہیں کہنا چاہیے اور یہی سلوک کیا گیا۔

میرے بہت سے قریبی دوستوں نے کرسمس کی مبارکباد دینے کی بجائے ”ہیپی ہالیڈیز“ یا ایسے کچھ الفاظ استعمال کیے۔ اس میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو سال ہا سال سے انگریزوں کے ملک میں رہتے رہے۔ لیکن بہت سے مسلمان دوستوں نے مبارکباد دی (اور بعض سے زبردستی عیدی بھی لی)۔ میں کرسمس سے متعلق الفاظ کی درستی یا انگریزی ترجمے کی وضاحت نہیں کروں گا۔ فرق صرف سوچ کا ہے جس کے اندر جو کچھ ہے وہی کرے گا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ بات تھی کہ کراچی میں کچھ بیکری والوں نے کرسمس کیک پر ہیپی کرسمس لکھنے سے اجتناب کرتے ہوئے مسیحیوں کو کیک دینے سے انکار کر دیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نان مسلم کو بیکری کا کام خود شروع کر لینا چاہیے لیکن دوسری جانب یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ یہ کاروبار کتنی دیر تک چلے اور کہاں کریں گے؟ اب ہمارے مسلمان دوست اپنے حسن سلوک کا خود موازنہ کر لیں کہ یورپ، امریکہ سمیت دیگر ممالک میں رہتے ہوئے جہاں پر آپ اپنی مرضی سے ہجرت کر کے جاتے ہیں اور اپنے حقوق کا تقاضا کرتے ہیں، مساجد، حلال گوشت اور دیگر حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پھر اس پر ستم یہ ہے کہ اسلامو فوبیا کا نعرہ بھی لگاتے رہتے ہیں۔

اس پر مجھے سوشل میڈیا پرایک دوست کی جانب سے شیئر کی گئی پوسٹ یاد آ گئی جس پر لکھا تھا کہ ”ساری عمر لنڈے کے کپڑے پہنے والے کہتے ہیں کہ کرسچن کو کرسمس مبارک کہنے سے اسلام سے خارج ہوجائیں گے“ ۔ اب اگر میں یہاں یہ کہوں گا تو یار لوگ برا مان جائیں گے کہ اسلام سے اخراج آپ کو اس وقت کیوں نہیں یاد آتا جب کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ، دھوکہ فریب، کم تولنا اور کاروباری بددیانتی کرتے ہیں۔ کہنا یہ تھا کہ یہ دنیا گلوبل ویلیج ہے اور ہر لمحہ آپ کو کسی دوسرے انسان کی ضرورت ہوتی ہے چاہے اس کا کوئی بھی مذہب یا عقیدہ ہو۔

ویسے بھی جدید دنیا کی بیشتر ایجادات نان مسلمز کی ہیں اور ہم دنیا سے الگ تھلگ ہو کر نہیں رہ سکتے۔ خدارا۔ دنیا بہت خوبصورت ہے اس میں مزید گھٹن پیدا نہ کریں اور دوسروں کو جینے کا حق دیں۔ دین خالصتا آپ کا اپنا مسئلہ ہے اور وہ اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے اس سے الگ ہونے کا اندیشہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک اور بات اس کرسمس پر ایرانی وزیر خارجہ نے دنیا کے تمام مسیحیوں کو مبارک باد کا پیغام دیا ہے پوچھنا یہ تھا کہ وہ اسلام کے دائرے میں رہ گئے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments