بے ‏خواب آنکھیں


”اس نے کہا تھا۔ میں دیکھ سکتا ہوں اس لیے میں ہوں“

بوڑھے داستان گو نے اپنی گھنے بالوں والی سموری ٹوپی کو اپنے چہرے پر کھین‍چا اور ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کسی پرانے فلسفی کا قول دہرایا۔

” مگر سوال یہ ہے کہ جو آپ نہیں دیکھ سکتے کیا وہ واقعی ناموجود ہے؟ کیا دیکھنے والے سب کچھ دیکھتے ہیں؟ کیا حاضر و موجود سے آگے بھی کچھ ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر یہ پیغمبر پہاڑ کے اس طرف کیسے دیکھ لیتے ہیں؟ کیسے اتنے تیقن سے آنے والے وقتوں کی بشارتیں دے دیتے ہیں؟ شاید ان کی آنکھیں وہ بھی دیکھتی ہیں جو ہمیں نہیں دکھتا۔ اور بالکل ایسے دیکھتی ہیں جیسے اس وقت میری آنکھیں تم دونوں کو دیکھتی ہیں۔“

داستان گو کی خود کلامی طویل تر ہوتی جاتی تھی اور ہمارے صبر کا پیمانہ بھرتا جاتا تھا۔ وہ داستان کو ایک دلچسپ موڑ پر بے آسرا چھوڑ کر جانے کون سی بے سمت راہوں پر چل نکلا تھا۔ اس کی کوئی بات ہمارے پلے نہ پڑ رہی تھی۔ میرا ہمراہی جو لفظوں کو گن کر بولنے کا عادی تھا اور شاید آج کے دن کے الفاظ پہلے ہی خرچ کر چکا تھا اپنی چھوٹی چھوٹی گول آنکھوں سے داستان گو کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ اس کے لب تھرتھرا رہے تھے جیسے لفظوں کے پرندے حلق کے پنجرے سے نکلنے کو پھڑ پھڑا رہے ہوں مگر نکل نہ پا رہے ہوں۔

”آگے بتائیے نا۔ پھر کیا ہوا؟“ میں نے مداخلت کرتے ہوئے داستان گو کو مزید خود کلامی سے روکا۔
” آپ کہہ رہے تھے کہ دشمن کی افواج بڑھتے بڑھتے دارالسلطنت تک آ پہنچیں اور فصیل کا محاصرہ کر لیا۔ ؟“

میرے ہمراہی نے اپنی پوستین کو جسم کے گرد درست کیا اور پہلو بدل کر ایک آرزو مندی کے ساتھ داستان گو کی طرف متوجہ ہوا۔

”ہاں۔ وہ دن“ داستان گو نے ایک بہت گہری گمبھیر سانس لے کر ٹوٹا ہوا سلسلہ دوبارہ جوڑا۔
”وہ دن جب ریاست کا آخری قلعہ بھی خونخوار دشمن کے نرغے میں آ گیا تھا۔“

میں آتشدان کی بھڑکتی ہوئی آگ کی روشنی میں داستان گو کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جو کچھ تاریکی میں تھا اور کچھ روشنی میں اور اس لمحے یوں اوپر کو اٹھا ہوا تھا جیسے وہ خود قلعے کی فصیل پر کھڑا نیچے غنیم کی افواج کا جائزہ لے رہا ہو۔ میری نگاہ اس کے چہرے سے پھسل کر پیچھے کھڑکی پر پڑی تو شیشے کے اس پار رات کی گھور سیاہی میں متواتر گرتی ہوئی برف جگنووں کی طرح جلتی بجھتی نظر آئی۔

داستان گو بول رہا تھا۔

”بچی کھچی ریاستی فوج نے بڑی مزاحمت کی لیکن وہ محاصرے کونہ توڑ سکی اور وہ طویل ہوتا چلا گیا۔ بالآخر خوراک کی بندش کے باعث اہل شہر کی حالت دگرگوں ہونے لگی۔ ان کی ہمتیں پست ہوئیں تو مزاحمت کمزور پڑنے لگی۔

اور پھر وہ دن آیا جب موقع شناس دشمن نے دم توڑتی ہوئی حریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔

اس اعلی سطحی اجلاس میں جہاں شاہ اور اس پوری کابینہ موجود تھی جب اول وزیر نے دشمن راجہ کی جانب سے موصول ہونے والا خط پڑھ کر سنایا تو سناٹا چھا گیا۔ خط سفارتی لفظ گری کا ایک عمدہ نمونہ تھا مگر مفہوم بالکل عیاں تھا۔ خط میں محصور عوام کی گونا گوں مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے شاہ کو شکست تسلیم کر لینے اور ہتھیار ڈال دینے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ لیکن اس تکلیف دہ مشورے کو بڑی چابکدستی سے ’صلح‘ اور ’امن و آشتی‘ جیسی پرکشش اصطلاحات کا جامہ اوڑھایا گیا تھا۔

اس خط پر کابینہ نے کوئی بحث نہیں کی۔

شاہ کے سامنے ایک مختصر جوابی خط بنا کر رکھ دیا گیا جس کی رو سے اسے ’صلح‘ اور ’امن و آشتی‘ کی یہ پیشکش من و عن قبول تھی۔ اس کا محض ایک مطالبہ تھا جس کی وہ یقین دہانی چاہتا تھا۔ یعنی شاہ، اس کے اہل خانہ اور عمائدین دربار سمیت تمام اہل شہر کی جان بخشی۔

شاہ کا قلم اس کی لرزیدہ انگلیوں کے بیچ کانپتا ہوا سامنے رکھے کاغذ پر جھکا۔ دستخط کرنے سے ایک لمحہ پہلے اس نے سر اٹھا کر اپنے دائیں اور بائیں جانب موجود زریں دستاروں کی قطار پرایک نظر دوڑائی۔ ساری جھکی ہوئی گردنیں اپنے اپنے گریبانوں میں گم تھیں۔ کمرے میں مکمل سناٹا تھا۔

سقوط ریاست کی دستاویز پر دستخط کے لیے قلم نے ابھی کاغذ کو چھوا ہی تھا کہ مایوس سروں کی قطار میں سے ایک کرسی کھسکنے کی آواز سنائی دی۔ چلتا قلم رک گیا۔ پورے دربار کی نگاہیں اسی جانب اٹھ گئیں۔

یہ شاہ زاد تھا۔ شاہ کی سب سے چھوٹی اور واحد نرینہ اولاد۔ اس کا وارث اور ولی عہد سلطنت۔ وہ پورے جنگی لباس میں تھا اور سیاہ چوغوں کے بیچ سے یوں ابھرا تھا جیسے اندھیری رات میں روشن چاند نکلتا ہے۔

اس کی تلوار بے نیام ہوئی اور خالی دستاروں کے اوپر لہرا کئی۔

” میں اعلان بغاوت کرتا ہوں۔ “ شاہ زاد کی گرجتی گونجتی آواز دربار کے مہر بہ لب در و دیوار سے ٹکرائی۔ ”میں رد کرتا ہوں کابینہ کے فیصلے کو ۔ مجھے نہیں قبول ’امن‘ کے نام پر ہتھیار پھینکنے کا یہ معاہدہ۔“

شاہ سمیت تمام اہل دربار نو عمر شاہ زاد کی جرات انکار سے ششدر رہ گئے۔ سب کو پہلا خیال یہی گزرا کہ شاید متوقع شکست کے دباؤ میں شاہ زاد کے حواس جواب دے گئے ہیں۔ دو ایک عمائدین اس کی دلجوئی کو اٹھنا چاہتے تھے مگر اس کی تلوار کے تیور دیکھ کر سہم گئے۔

شمشیر بدست شاہ زاد ہارے ہووں سے خطاب کر رہا تھا۔

” میں۔ ابن شاہ۔ اپنے پورے ہوش و حواس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں نے ذلت کی زندگی کے بدلے عزت کی موت کا سودا کر لیا ہے۔ میں دشمن کی فوج پرایک آخری حملہ کرنے جا رہا ہوں۔ تن تنہا۔ اس کا انجام میری فتح پر ہو گا یا میری موت پر ۔ دونوں صورتوں میں مجھے کوئی غم نہ ہو گا۔ بہادروں کے لیے تخت شاہی ہے یا پھر قبر کا گڑھا۔ جس کو اس تجارت میں نفع نظر آتا ہو وہ میرے پیچھے آ سکتا ہے۔“

اپنی مختصر تقریر ختم کر کے شاہ زاد اسی طرح تلوار سونتے ہوئے سوئے مقتل روانہ ہو گیا جیسے پھولوں کی سیج کی طرف جا رہا ہو۔ ‎ ‎ ‎

شاہزاد جا چکا تھا۔ اہل دربار کی زبانیں گنگ تھیں۔ شاہ اپنی جگہ پتھر کا بت بنا ہوا تھا۔ یہ سناٹا شاید تا ابد یوں ہی قائم رہتا اگر بائیں جانب والی قطار میں سے ایک اور کرسی کھسکنے کی آواز نہ آتی۔ ایک ثانیہ کے بعد سامنے سے ایک اور کرسی کھسکی پھر ایک اور۔ یکے بعد دیگر کرسیاں ہٹتی گئیں۔ مردے زندہ ہوتے گئے اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ ہاری ہوئی فوج کی مختصر جمیعت شہر سے باہر نکل کر جشن فتح کی تیاریوں میں مصروف فاتح فوج پر ٹوٹ پڑی۔ جواں ہمت شاہ زاد کی قیادت میں ریاستی فوج کچھ ایسی بے جگری سے لڑی کہ دشمن کے چھکے چھوٹ گئے۔ کچھ ہی گھنٹوں کی جنگ کے بعد دشمن کو محاصرہ ترک کر کے راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔

اس شام جب فاتح فوج اپنے شہر میں واپس لوٹی تو ہر طرف خوشیوں کے شادیانے بج رہے تھے۔ شاہ دوبارہ تخت نشیں ہوا تو لگ نہیں رہا تھا کہ یہ وہی لوگ ہیں کہ جو آج صبح تک ہتھیار پھینک کر شہر دشمن کے حوالے کرنے کو تیار تھے۔ ریاست کی تقدیر بدلی جا چکی تھی اور اس کا سہرا تنہا ایک شخص کے سر تھا۔ ایک دم شور مچا اور شاہ زاد کی آمد کا اعلان ہوا۔ سب کی نظریں اسی طرف اٹھ گئیں۔ نوجوان شاہ زاد اپنے ہمراہیوں کے جلو میں دربار میں داخل ہوا تو دھول، خون اور پسینے میں اٹا ہوا تھا مگر مسکرا رہا تھا۔ بیٹے کو سلامت پا کر بوڑھے باپ کی جان میں جان آئی۔ وہ تخت سے اترا، بیٹے کو سینے سے لگایا، ماتھے پر بوسہ ثبت کیا اور اسے تخت پر اپنے برابر لا بٹھایا۔ دربار میں شاہ زاد کے نام کے نعرے گونجنے لگے۔

سب کی طرح شاہ زاد بھی اس فتح پر خوش تھا مگر ایک درجہ تفکر کے ساتھ۔ اسے علم تھا کہ دشمن شہر سے زیادہ دور نہیں گیا اور نئی صف بندیوں کے ساتھ دوبارہ حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ شاہ زاد کا ذہن آنے والے وقت کی تیاری میں بری طرح مصروف تھا۔

اگلے روز کابینہ کی خصوصی جنگی مجلس کا اجلاس ہوا۔ سپہ سالار نے حاضرین کو اپنی آئندہ جنگی حکمت عملی کے چیدہ چیدہ نکات سے آگاہ کیا۔ حاضر جنگی ذرائع اور موجود انسانی وسائل کے پیش نظر سپہ سالار کی منصوبہ سازی سب کو معقول لگی۔

” ہم سب لڑیں گے۔ ہم سب ایک ساتھ لڑیں گے“ شاہ زاد اپنی نشست سے اٹھ کر کھڑا ہوا اور ہوا میں مکا لہرا کر پرجوش انداز سے بولا۔

سب حاضرین شاہ زاد کی طرف دیکھنے لگے۔ سپہ سالار کا منہ کھلا رہ گیا۔ شاہ بھی حیران ہوا۔

” شاہ زاد مجھے یقین کامل ہے کہ ہماری فوج دشمن کے خلاف متحد ہو کر لڑے گی۔ لیکن آپ کیا کہنا چاہتے ہیں وضاحت کیجئے۔“ شاہ نے بغور شاہ زاد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

”ضرور جہان پناہ“ شاہ زاد نے ادب سے سر کو خم دیتے ہوئے کہا۔ ”یہ بات واضح ہے کہ ہماری کل کی فتح عارضی ہے۔ دشمن نئے حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ دشمن کو ہم پر عددی برتری حائل ہے۔ ہماری فوج کے لیے دشمن کو مکمل طور پر شکست دینا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ۔ اس لیے ہم سب کو لڑنا ہو گا۔ ہر پیر و جواں ہر مرد وزن کو ہتھیار بند ہو کر گھر سے نکلنا ہو گا۔ مادر وطن کی عزت اور اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے اور۔“

یہاں پر سپہ سالار کی قوت برداشت جواب دے گئی اور وہ بیچ میں بول اٹھا۔

” کم سن شاہ زاد۔ میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن جوش جوانی میں اپ یہ بھول رہے ہیں کہ آپ کا سامنا ایک پیشہ ور فوج سے ہے جس کا مقابلہ صرف ایک پیشہ ور فوج ہی کر سکتی ہے۔ یہ غیر تربیت یافتہ بوڑھوں اور عورتوں کا کھیل نہیں ہے۔“ ‎

شاہ زاد نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

” محترم سالار آپ بھی یہ بھول رہے ہیں کہ وہ واحد چیز جس میں ہمیں اس وقت دشمن پر برتری حاصل ہے وہ یہی عوام کا جوش و جذبہ ہے جو اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ اصل طاقت لوگوں میں ہے سپہ سالار اعظم۔ اصل طاقت لوگوں میں ہے۔ اور یہی وقت ہے اس طاقت کو آزمانے کا ۔ آپ ان لوگوں کو مسلح کیجئے پھر دیکھیے کیسے یہ اپنے سے برتر دشمن سے ٹکراتے ہیں اور کیسے اس کے غرور کو پاش پاش کرتے ہیں۔“

” لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے عالم پناہ“ سپہ سالار نے مدد کے لیے شاہ کو پکارا ”ان غیر تربیت یافتہ اور غیر منظم لوگوں پر کس طرح بھروسا کیا جا سکتا ہے؟ یہ نا ممکن ہے“

” یہ ممکن ہے عالم پناہ“ شاہ زاد نے جو اپنے کاندھوں پر اپنی عمر سے بہت بڑا سر رکھتا تھا شاہ کے حضور سر کو جھکا کر کہا ”بالکل ویسے ہی ممکن ہے جیسے آج ہم سب کا یہاں دوبارہ اکٹھے ہونا ممکن ہوا ہے۔“

یہاں شاہ بھی لاجواب ہو گیا اور یوں شاہ زاد کی ذہانت اور حوصلہ مندی کی بدولت پہلی بار ریاست کے عوام باقاعدہ مسلح ہو کر اپنی افواج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے میدان میں نکل سکے۔

یہاں پہنچ کر بوڑھا داستان گو دم لینے کو رکا۔ آتشدان میں شعلے سرد پڑنے لگے تھے اور کمرے کا درجہ حرارت گرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ میں اس کی بے چین نظر کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔ اٹھا، کونے میں دھرے ایندھن کے ڈھیر سے لکڑی کے کچھ ٹکڑے اٹھائے آتش دان میں جھونکے اور واپس فرش پر بچھے گرم گدیلے پر اپنے چھوٹی انکھوں والے دوست کے برابر آن بیٹھا۔

داستان گو اپنا سانس درست کر کے دوبارہ گویا ہوا۔

” کچھ روز بعد جب دشمن زخمی سانپ کی طرح حملہ کرنے کو واپس پلٹا تو اس کو معلوم ہوا کہ اس بار اس کا سامنا ریاست کی افواج کے ساتھ ساتھ ریاست کے عوام سے بھی ہے جو اپنے وطن کی بقا کی جنگ لڑنے کے لئے کفن باندھ کر گھروں سے نکل آئے تھے۔ جنگ شروع ہوئی اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اس ’غیر منظم‘ عوام نے شجاعت اور سرفروشی کے ایسے نمونے پیش کیے کہ پیشہ ور لڑنے والے بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ ایک خونی معرکے کے بعد انھوں نے بالآخر اپنے سے کئی گنا برتر افواج کے قدم اکھیڑ دیے۔

اس بار جب دشمن فوج اور عوام کی مشترکہ طاقت کے آگے پسپا ہوا تو اس کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ریاستی افواج کے قدم ہر محاذ پر بڑھتے چلے گئے اور دشمن کی فوجیں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوتی گئیں۔ ایک ایک کر کے چھنے ہوئے علاقے ریاستی افواج کو واپس ملنے لگے۔ اور پھر وہ دن بھی آیا جب ایک فیصلہ کن جنگ کے بعد انھوں نے دشمن کو حتمی طور پر شکست دے کر اپنی سرحدوں سے نکال باہر کیا۔ وہ بلا شبہ ریاست کی تا ریخ کا سب سے بڑا دن تھا جب ان کو ایک برتر دشمن پر کامل فتح نصیب ہوئی۔ مگراس دن کچھ ایسا بھی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔“

یہاں پہنچ کر یک بیک داستان گو کی آواز سرد پڑتے ہوئے شعلے کے مانند لڑکھرانے لگی۔ اس کے بھاری گونجدار لہجے میں جیسے آنسوؤں کی نمی اتر آئی ہو۔ ‎

میرا دل ایک دم اچھل کر حلق میں آ گیا۔ ”کیا ہوا تھا اس دن۔ کیا شاہ زاد۔ ؟
میرے ساتھی کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں بھی اپنے حلقوں میں تیزی سے گھومنے لگیں۔

داستان گو جیسے خود کو سنبھالتے ہوئے بولا۔ ”یہ ریاست کی بدنصیبی تھی کہ وہی روز سعد ان کے لیے روز سیاہ بھی ثابت ہوا۔ اس آخری معرکے کے فیصلہ کن مرحلے میں جب شاہ زاد کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا ایک موذی دشمن نے مرتے مرتے تلوار کا ایک بھرپور ہاتھ اس کے چہرے پر یوں مارا کہ تیز دھار اس کی ناک کے بانسے کو کاٹتی ہوئی ایک کنپٹی سے دوسری تک پھر گئی۔ اور ایک لمحے میں شاہ زاد اپنی آنکھیں کھو بیٹھا۔ “

میں اور میرا ہمراہی بے یقینی کے عالم میں داستان گو کا منہ تک رہے تھے کہ شاید وہ ابھی کہہ دے گا ایسا کچھ نہیں ہوا تھا اور اس نے تو مذاق کیا تھا۔ لیکن اس کے بشرے پر ایسے کوئی آثار نہ تھے۔ وہ کہہ رہا تھا ”اس شام شاہ نے جنگ تو جیت لی لیکن جو کچھ اس نے ہار دیا تھا اس کے صدمے کو بس وہی جانتا تھا۔ فتح گرشاہزاد کو جب لہو میں تر بے نور آنکھوں کے ساتھ شاہ کے حضور لایا گیا تو اس کے ہزاروں جاں نثار ساتھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ لیکن شاہ باپ ہو کر بھی نہیں رویا کہ بادشاہوں کو رونے کی اجازت نہیں ہوتی۔

شاہزاد کی زندگی کا وہ تاریک دن تو اپنے دامن کی سیاہی لیے رات کی آغوش میں جا سویا مگر اگلے دن کا سورج دائمی امن و آشتی کا نور لے کر طلوع ہوا۔ ریاست کی فوج اور عوام کی بے مثال بہادری اور شجاعت کی دھاک ایسی بیٹھی کہ پھر مدتوں کسی دشمن کی میلی نگاہ ان کی طرف نہ اٹھی۔ شہیدوں کے لہو نے وطن کی مٹی کو وہ طراوت بخشی کہ جس سے نئی نسلوں اور نئے خوابوں کا ظہور ہوتا ہے۔ جنگوں کے طویل سلسلے کے بعد ریاست میں ترقی اور خوشحالی کا ایک عظیم دور شروع ہوا۔

تمام ہمسایہ ریاستوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ حتی کہ کچھ عرصے بعد دشمن پڑوسی ریاست کے نئے راجہ نے بھی اپنی خارجہ حکمت عملی میں تبدیلی کرتے ہوئے شاہ کو دوستی اور بھائی چارے کی پیشکش کی جسے شاہ نے ماضی کے تلخ تجربات کے پیش نظر با دل نخواستہ قبول کر لیا۔ دونوں ریاستوں میں سفیروں کا تبادلہ ہوا جس سے ان کے باہمی تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

ادھر نوجوان شاہ زاد کے ظاہری زخم جلد ہی مندمل ہوگئے۔ ایک گہرے کٹاؤ کے نشان کے علاوہ بظاہر کوئی اور علامت اس خوفناک جنگ کی اس کے چہرے پر نہ رہی تھی۔ دیکھنے میں وہ پرسکون نظر اتا تھا لیکن جو محشر اس کے اندر بپا تھا اس کا علم صرف اسی کو تھا۔ شور اتنا تھا کہ اس نے بالکل چپ سادھ لی تھی۔ وہ تمام دن شاہی محل کی بالائی منزل کے اس جھروکے میں بیٹھا رہتا جو فصیل شہر کے مرکزی دروازے پر کھلتا تھا اور تصور کی آنکھ سے وہاں کی چہل پہل کو دیکھتا رہتا تھا۔

شاہ اپنے اکلوتے بیٹے، وارث اور ولی عہد کی یہ حالت دیکھ کر اندر ہی اندر گھلتا رہتا لیکن اس کے لئے کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ وہ اپنے نور نظر کی آنکھوں کی روشنی لوٹانے کے لیے اپنی پوری سلطنت دینے کو تیار تھا لیکن اس درد کا درماں کسی کے پاس ہو بھی تو سہی۔ اسے یہ فکر بھی کھائے جاتا تھا کہ اس کی آنکھیں بند ہونے کے بعد نابینا شاہ زاد کیوں کر ریاست کا انتظام چلائے گا اور کیسے اسے آس پاس کی ریاستوں کے بھوکے بھیڑیوں سے بچا پائے گا۔ ”‎‎

ہم دونوں پوری محویت سے داستان سن رہے تھے کہ داستان گو بولتے بولتے ایک بار پھر چپ ہو گیا۔ کچھ دیر پچھلی دیوار سے ٹیک لگا کر سستانے کے بعد وہ پھر سے گویا ہوا۔

” شاہ کے کئی برس اسی پیچ و تاب میں گزر گئے۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ ہر تنگی کہ بعد آسانی ہوتی ہے تو اس کے لیے بھی آخرکار ایک اچھی خبر آ ہی گئی۔“

داستان گو کا یہ جملہ سن کر ہمارے چہروں پر رونق لوٹ آئی۔ وہ بھی اس تبدیلی کو محسوس کر کے اپنی گھبری داڑھی اور مونچھوں کے عقب میں مسکرا دیا۔ اس نے پوستین جسم کے گرد درست کی اور اپنی آنکھ سے بائیں طرف اشارہ کیا۔ اس بار میرا ساتھی اٹھا اور آتشدان میں بجھتے شعلوں کو بھڑکا کر آیا۔ میری نظر ایک بار پھر سامنے شیشے کے پار گئی جہاں رات کی تاریکی میں کمی آئی تھی نہ برف باری کے تسلسل میں کوئی وقفہ۔ کمرہ ایک بار پھر گرم ہونے لگا تھا۔

داستان گو نے ہماری بے قراری کا لطف لیتے ہوئے کہانی پھرسے شروع کی۔ ”ایک دن یہ خبر آس پاس کی ریاستوں میں پھیلی کہ شاہ کی سابقہ دشمن اور موجودہ دوست ریاست میں آنکھوں کے ایک ایسے طبیب اور جراح کا ظہور ہوا تھا جو اپنے علم اور مہارت میں محیرالعقول اور دیو مالائی قسم کی صلاحیتیں رکھتا تھا۔ اس نے کچھ ہی عرصے میں کئی بے نور آنکھوں کو ان کی روشنی لوٹا کر مسیح ابن مریم کی طرح حیات نو عطا کر دی تھی۔

شاہ کے کانوں تک اس طبیب کی شہرت پہنچی تو وہ بے قرار ہو گیا۔ اس نے طبیب کو منہ مانگے معاوضے کی پیشکش کے ساتھ شاہ زاد کی آنکھوں کا علاج کرنے کی درخواست کی۔ طبیب نے پیغام بھجوایا کہ وہ یہ کام محض خلق خدا کی بھلائی کے لیے کرتا ہے نہ کہ مالی منفعت کے لیے ۔ اس لیے انعام و اکرام کی اس کے نزدیک چنداں کوئی اہمیت نہ تھی۔ اسے شاہزاد کا علاج کر کے بہت خوشی ہو گی لیکن شرط یہ تھی کہ شاہ زاد چل کر اس کے پاس آئے وہ آنے سے قاصر تھا۔ عام حالات ہوتے تو شاید شاہ اپنے ولی عہد کو اپنے دشمنوں کے یہاں بھجوانے میں پس و پیش سے کام لیتا مگر یہاں اس نے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ اس نے طبیب کی شرط کو قبول کرتے ہوئے شاہ زاد کے سفر کی تیاری شروع کروا دی۔

ایک ہفتے بعد شاہ زاد اپنے ماضی کے دشمنوں کے بیچ، کہ جن کو اس نے میدان جنگ میں خاک چٹائی تھی، انہی کے طبیب کے سپرد تھا۔ اپنی تمام دھڑکتی آرزووں اور اپنی قوم کی دعاوں کے ساتھ۔

طبیب نے شاہ زاد کے ابتدائی طبی معائنے کہ بعد انکشاف کیا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے قرینے مکمل ناکارہ ہو چکے تھے اور ان پر عام علاج کے کارگر ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ اب آنکھوں کی پیوند کاری ہی واحد راستہ تھا اور اس مقصد کے لیے اسے آنکھوں کا عطیہ درکار تھا۔

شاہ زاد کی ریاست میں یہ خبر حیرت مسرت اور اضطراب کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ سنی کئی کیوں کہ ان کے یہاں آج سے پہلے اس نوع کی جراحت کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ اس کے باوجود یہ خبر سنتے ہی شاہی محل کے باہر عوام کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے۔ وہ سب اپنے محسن اور محبوب شاہ زاد کو عطیہ کرنے کے لیے اپنی انکھیں خود نکال کر دینے کو تیار تھے۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ یہ سعادت اس کے حصے میں آئیے۔ ابھی کسی جاں نثار کے نام کا فیصلہ نہ ہو پایا تھا کہ طبیب کی جانب سے دوسرا پیغام ملا کہ آنکھوں کے عطیے کا بندوبست مقامی طور پر ہو گیا ہے اس لیے اس باب میں مزید تردد نہ کیا جائے۔

پھر وہ دن آیا جب شاہ زاد کی آنکھوں کی پیوند کاری کا طویل اور پیچیدہ عمل انجام پا گیا۔ زخموں کو مندمل ہونے میں دس دن کا عرصہ درکار تھا۔ بالآخر وہ روز سعید بھی آ گیا۔ طبیب نے دھڑکتے دل کے ساتھ شاہ زاد کی آنکھوں سے پٹیاں ہٹائیں اور اسے بہت آہستہ آہستہ انہیں کھولنے کو کہا۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ آنکھیں کھلنے پر ، ایک طویل عرصے کے بعد شاہ زاد کو اندھیرے کی جگہ روشنی کا سا احساس ہوا۔ لیکن ابھی سب کچھ دھندلا تھا۔ طبیب نے دوا کے چند قطرے اس کی آنکھوں میں ڈالے تو منظر دھیرے دھیرے واضح ہونے لگا۔ شاہ زاد کی مسرت کی کوئی حد نہ رہی۔ وہ پھر سے دیکھ سکتا تھا۔ اس کی زندگی کا نور واپس آ گیا تھا۔

شاہ زاد کی کامیاب جراحت کی خبر جب اس کے وطن میں پہنچی تو اہل وطن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ نوجوان دیوانہ وار رقص کرتے ہوئے گلیوں میں نکل آئے۔ بزرگ عبادت گاہوں اور عورتیں گھروں میں شکرانہ ادا کرنے لگیں۔ شاہ بھی سر بہ سجود تھا۔ جب شاہ زاد صحتیاب ہو کر وطن واپس لوٹا تو عوام نے سرحد پر جا کر اس کا ایسا استقبال کیا جس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہ ملتی تھی۔ شاہ نے سات دن تک جشن منانے کا اعلان کیا۔ غربا اور مساکین کے لیے شاہی خزانے کے منہ کھول دیئے گئے۔ شاہ نے پڑوسی ریاست کے راجہ اور خاص طور اس طبیب کا شکریہ ادا کیا اور انہیں اپنی ریاست کے دورے کی دعوت دی جسے قبول کر لیا گیا۔

پڑوسی راجہ نے اپنے طبیب سمیت ریاست کا دورہ کیا۔ ماضی کے دشمن بغلگیر ہو کر بھائی بھائی بن گئے۔ پرانی مخالفتوں کو زمین میں گہرا گاڑ دیا کیا اور دونوں ریاستوں کے بیچ بے مثال دوستی کے دور کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر احسان مند قوم نے بھرپور طریقے سے حق مہمان نوازی ادا کیا۔ خاص طور پر طبیب کو ریاست کے امتیازی نشان کے ساتھ بہت سے قیمتی تحائف سے نوازا گیا۔ ‎

اب شاہ نے تمام امور سلطنت شاہ زاد کے سپرد کر کے کو شہ نشینی اختیار کر لی اور یوں شاہ زاد بادشاہ بن کر سریر آرائے سلطنت ہوا۔ چند ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ شاہ راہی ملک عدم ہو گیا۔ نوجوان بادشاہ کے لیے یہ بڑا صدمہ تھا۔ اب وہ معاملات حکومت چلانے میں باپ کی پر شفقت دعاوں سے محروم ہو چکا تھا۔ لیکن اس نازک موقع پر پڑوسی راجہ نے اس کے باپ کے ساتھ کیے ہوئے عہد دوستی و رفاقت کا پاس رکھا۔ وہ نوجوان بادشاہ کو پرسہ دینے آیا اور کئی ہفتوں تک اس کے ساتھ اس کے محل میں مقیم رہا۔

نوجوان بادشاہ کی اس کے آنے سے بہت ڈھارس بندھی۔ پڑوسی راجہ عمر میں بادشاہ سے خاصا بڑا تھا اور ایک بہت ہی دانشمند آدمی تھا۔ اس کے لب و لہجے میں مٹھاس تھی اور شخصیت میں غضب کی کشش۔ بادشاہ کو اس کی شکل میں گویا اپنا کھویا ہوا باپ مل گیا تھا۔ راجہ تو آخر واپس اپنے وطن لوٹ گیا لیکن بادشاہ بعد میں بھی امور مملکت کی انجام دہی میں اس کی رہنمائی کا متلاشی رہا۔ دونوں کے مابین خط و کتابت بہت کثرت سے ہونے لگی۔

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے راجہ نے تجویز دی کہ اگر بادشاہ پسند کرے تو وہ اپنے ایک معتمد اور بہت خاص الخاص وزیر کو اس کے دربار میں اپنے مستقل مندوب کے طور پر چھوڑ سکتا ہے تاکہ وہ بادشاہ کی رہنمائی کرتا رہے۔ بادشاہ نے اس تجویز کو بخوشی قبول کر لیا۔ یوں اس کی کابینہ میں ایک غیر ملکی مشیر کا تا حیات اضافہ ہو گیا۔ پڑوسی راجہ کی طرح اس مشیر نے بھی اپنی ذہانت اور لیاقت سے بادشاہ کو بہت جلد اپنا اسیر کر لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بادشاہ کا اول وزیر بن گیا اور تمام امور مملکت میں دخیل۔ اس کی موجودگی سے یقیناً بادشاہ کی زندگی بہت آسان ہو گئی۔ ”

یہاں پہنچ کر داستان گو کی ہمت پھر جواب دے گئی اور وہ خاموش ہو گیا۔ شاید اسے اب نیند آ رہی تھی۔ میں نے کھڑکی سے باہر نظر دوڑائی۔ اب برف نہیں گر رہی تھی اور رات کی تاریکی بھی غیر محسوس طور پر چھٹنے لگی تھا۔ صبح قریب تھی۔ داستان اتنی دلچسپ رہی تھی کہ ہمیں رات گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا تھا۔ ہمیں بہت سویرے کوچ کر جانا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ یہ کہانی اگر ادھوری رہ گئی تو کبھی مکمل نہ ہو پائے گی۔ اس لیے میں نے موقع غنیمت جانا اور جلدی سے وہ سوال پوچھ ڈالا جو بہت دیر سے میرے دماغ میں کلبلا رہا تھا۔

” محترم بزرگ۔ مجھے معاف کیجیئے گا لیکن میں اب تک ایک بات نہیں سمجھ پایا۔“
داستان گو نے میری طرف دیکھ کر اپنی گھنی بھنویں اچکائیں۔

” کیا ہوا کہ وہ ریاست جو ایسا عالی دماغ اور جواں ہمت بادشاہ رکھتی تھی اور اتنے جری اور نڈر لوگوں کا مسکن تھی۔ داستان بن گئی؟ کیا ہوا بادشاہ کے کاندھوں پر اس کی عمر سے بڑے اس کے سر کا ؟ کیا وہاں کے بہادر سب نقل وطن کر گئے؟“

میرا سوال سن کر بوڑھا داستان گو بہت دیر کے لیے چپ ہو گیا۔ پھر چہرہ اوپر اٹھایا اور چھت کی طرف دیکھتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں بولا۔ ”آنکھیں۔ میرے دوست آنکھیں“

” آنکھیں؟“ میں چکرا گیا ”لیکن آپ نے بتایا تھا کہ آنکھیں تو اس کی بینا ہو گئیں تھیں۔ پھر؟“
” بے شک وہ آنکھیں بینا تھیں۔ مگر بے خواب تھیں“ ۔
” بے خواب آنکھیں۔ کیا مطلب؟“ اس بار میرا کم سخن دوست بھی بول اٹھا ”میں کچھ سمجھا نہیں“

” وہ آنکھیں جو شاہزاد کو پیوند کی گئیں تھیں ایک غلام زادے کی آنکھیں تھیں۔ ان آنکھوں کا رگ و ریشہ جس لہو سے وجود میں آیا تھا وہ غلام لہو تھا۔ اس لہو میں نسل بعد صرف تقلید کی برف دوڑا کرتی ہے کبھی بغاوت کا شعلہ نہیں بھڑکتا۔ غلام آنکھیں خواب دیکھنے سے معذور ہوا کرتی ہیں۔ اور شاہزاد کو یہ غلام آنکھیں اس طبیب نے اپنے راجہ کے کہنے پر لگائیں تھیں۔“ ‎‎‎

” تو پھر؟“ چھوٹی آنکھیں نیم تاریکی میں چمکیں۔

” تو پھر یہ ہوا کہ بادشاہ زندگی کو غلام کی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ آہستہ آہستہ غلام آنکھوں کا تمام رگ و ریشہ بادشاہ کا جزو بدن بن گیا۔ آزاد لہو میں محکوم خون کا پیوند لک گیا۔“

ہم دونوں سامعین دم بخود یہ ماجرا سن رہے تھے۔ داستان گو اب جلدی جلدی بولنے لگا تھا۔

” کچھ عرصے بعد پڑوسی راجہ نے دونوں ریاستوں میں ثقافتی تال میل بڑھانے کی غرض سے اپنا ایک طائفہ بادشاہ کی خدمت میں بھجوایا۔ اس طائفہ میں طرح طرح کے با کمال ہنر مند شامل تھے۔ شاعر، دستکار، مجسمہ ساز، گویے، موسیقار، رقاص اور بہت سی حسین رقاصائیں۔ اس رنگا رنگ گروہ نے دو ہفتوں تک بادشاہ کو اپنے کمالات سے محظوظ کیا۔ بادشاہ کی اب تک کی زندگی کا چلن محض جفا کشی اور خطر پسندی کا رہا تھا۔ ان دو ہفتوں میں بادشاہ کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ زندگی صرف جدال و قتال سے عبارت نہیں بلکہ اس میں لطافت اور حسن و جمال کے پہلو بھی ہیں جن سے انکار کرنا کفران نعمت ہے۔ بادشاہ نے اس طائفے پر اتنی دولت نچھاور کی کہ جو ان کی اگلی کئی پشتوں کے لیے کافی تھی۔ جاتے وقت اس نے پڑوسی ثقافت کے کچھ نسوانی حصوں کو بصد اصرار مزید رکنے پر بھی آمادہ کر لیا۔

اس شاندار پذیرائی کے بعد پڑوسی ملک سے قسم قسم کے وفود اور طائفوں کی آمد کا تانتا بندھ گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں بادشاہ کے ملک میں ہر طرف انہی کی ثقافت کے رنگ لہرانے لگے۔ اس ثقافتی غلبے کو صنعت کا درجہ حاصل ہونے میں اور بھی کم وقت لکا۔ کچھ سال گزرے تھے کہ شمال کی طرف سے کچھ شر پسند عناصر ریاستی حدود میں گھس کر بد امنی پھیلانے لگے۔ اس مشکل وقت میں سب سے پہلے امداد پڑوسی راجہ کی جانب سے آئی۔ اس نے پیشکش کی کہ بادشاہ کی ریاست کی حفاظت کے لیے اس کی اپنی فوج حاضر ہے۔ بادشاہ نے اس فراخدلانہ پیشکش کو بصد تشکر قبول کر لیا۔ اور یوں تاریخ میں پہلی بار ریاست نے اپنی حفاظت کے لیے غیر ملکی افواج کی مدد حاصل کی۔ اور وہ بھی اپنے ماضی کے دشمنوں سے۔ ”

یہاں تک پہنچتے داستان گو کی آواز مدھم پڑتے پڑتے بالکل ہی ڈوب گئی۔ میرا ساتھی اٹھا اور دبے پاؤں چل کر لکڑی کے اس تخت پوش تک گیا جہاں بوڑھا براجمان رہا تھا اور اب آنکھیں بند کیے دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے تھا۔

” سو گیا“ وہ بولا۔ ”چلیں؟“ اس نے مجھ سے پوچھا۔
” ہاں چلیں“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔ کھڑکی کے اس پار دن کا اجالا اب صاف نظر آ رہا تھا۔

اس شدید برفانی رات میں ہم اجنبی مسافروں کو گرم کمرے میں پناہ دینے، خوراک فراہم کرنے اور اتنی دلچسپ گو اداس انجام داستان سنانے پر بوڑھے کا شکرانہ واجب تھا لہذا ہم نے اپنے سفر خرچ میں سے سونے کے دو دو سکے نکال کر اس کے تکیے تلے رکھ دیے اور باہر نکل آئے۔

کمرے سے نکلتے ہی برف زار کی ٹھنڈی ہوا لپٹ گئی۔ ہم نے اپنی سموری ٹوپیاں کھینچ کر نیچے کر لیں اور گھٹنوں گھٹنوں برف میں پاؤں دھنساتے ہوئے اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔ میں چل رہا تھا لیکن میرا ذہن ابھی تک رات کی داستان کے کرداروں میں الجھا ہو تھا۔

میرا ساتھی جو مجھ سے چند قدم آگے تھا چلتے چلتے اچانک رک گیا اور میری طرف مڑا۔ میں بھی رک گیا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ اسے کچھ کہنا تھا۔

” بولو“ میں نے اس کی ہمت بندھائی۔
” تم نے دیکھا۔ وہ بوڑھا سوتے میں مسکرا رہا تھا۔ کوئی خواب دیکھ رہا ہو گا شاید۔“
” بے خواب آنکھیں بھلا کیا خواب دیکھیں گی میرے دوست۔ تم نے سنا نہیں بوڑھے نے کیا کہا تھا۔“
” کیا مطلب؟“ ہمراہی چونکہ گیا۔

” مطلب یہ کہ ہم اس وقت اسی علاقے سے گزر رہے ہیں جو کبھی اس شاہ زاد کی راج دھانی تھا جسے غلام آنکھیں لگائی گئیں تھیں۔ اس کا قبیلہ آج بھی یہاں آباد ہے۔“

” اوہ“ میرا کم سخن ساتھی یہ سن کر اداس ہو گیا۔ اس کی آنکھوں سے کرب کا ایک سایہ سا گزر گیا۔ وہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا۔

” تم نے۔ بوڑھے کی ناک پر ۔ وہ کٹاؤ کا گہرا نشان دیکھا تھا کیا؟“

میں زور سے ہنس دیا۔ ”تمہیں اس کے جھریوں بھرے چہرے پر کٹاؤ کا نشان بھی نظر آ گیا؟ نہیں میں نے نہیں دیکھا کوئی ایسا نشان۔ اب ہم آگے چلیں کیا؟ موسم کا کچھ بھروسا نہیں“ ۔

میرے ساتھی نے دھیرے سے تائید میں سر ہلایا اور برف میں قدم مارتے ہوئے آگے چل پڑا اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).