ذوالفقار علی بھٹو: ایک بندہ صحرائی


5 جنوری 1928 کا دن ذوالفقار علی بھٹو کا یوم پیدائش ہے جو اپنی انتھک سیاسی جد جہد کے نتیجے میں تاریخ کے افق پر قائد عوام، فخر ایشیا کے طور پر جگمگاتے ہوئے 4 اپریل 1979 کو ملک کے جرنیلی حکمران ضیا الحق کے دور آمریت میں سردار چڑھا دیے گئے۔ جب انہوں نے آمریت کو للکارا، ایوب خان کا اقتدار نصف النہار پر تھا۔ مسئلہ کشمیر اور 65 کی جنگ کے خاتمے پر معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو میں اختلافات سامنے آئے تو دونوں کے راستے جدا ہو گئے۔

بھٹو کی قیادت میں 30 نومبر 67 19 کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ پارٹی کی اساس انہوں نے اسلام ہمارا دین، سوشلزم ہماری معیشت، جمہوریت ہماری سیاست اور طاقت کا سرچشمہ عوام کے بنیادی نکات پر رکھی، جس کے ساتھ ساتھ روٹی، کپڑا اور مکان کا مقبول عام نعرہ بھی دیا گیا۔ جلسے جلوسوں کے ذریعے انہوں نے ملک بھر کے دور افتادہ علاقوں کے پسماندہ طبقات میں قومی آزادی کا جو شعور دیا آج بھی اسے پانے کی جد و جہد جاری ہے۔

1970 کے عام انتخابات کے نتائج نے ان کی جماعت کو مقبول عام اور فیصلہ ساز کردار دیا، سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو ملکی حالات، بہتر نہ تھے ملک دولخت ہو چکا تھا سر زمین آئین سے محروم اور خزانہ خالی تھا اور بے انتہا چیلنجز کا مقابلہ۔ انہوں نے نامساعد حالات میں مملکت کی تعمیر شروع کی، تنکا تنکا جوڑا اور اسے پاؤں پر کھڑا کیا۔ بھٹو بے پناہ خدا داد صلاحیتوں کے مالک تھے اگر انہیں راستے سے نہ ہٹایا جاتا تو منظر نامہ یکسر مختلف ہوتا۔

عالمی سامراج نے اپنے نو آبادیاتی نظام کے کارندوں کو استعمال کر کے پاکستان سے مدبر قیادت چھین لی اور زمام کار چھوٹے قد کے افلاس زدہ ذہنوں کے حصے میں آ گئی، جو معاملات کی نوعیت سمجھتے تھے نہ استعمار کے ارادوں کو ۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان ایک ایسی دلدل میں پھنستا گیا جو آج دہشت گردی، بدامنی، بے روزگاری، کساد بازاری کی صورت میں موجود ہے۔

بھٹو شہید نے سائنسی تجزیہ پیش کر کے ان قوتوں کو للکارا تو عوام نے ان کی صدا پر لبیک کہا اور پھر ایک قافلہ بنتا گیا جس نے سیل رواں کی صورت اختیار کر لی۔ ذوالفقار علی بھٹو موزوں وقت اور ماحول کی نزاکت سے خوب آگاہ تھے۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس موقع پر بنگلہ دیش تسلیم کرنے کا اعلان کر کے انہوں نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ اس سے قبل بھارت سے جنگی قیدیوں کی واپسی اور مقدمات چلانے کے موقف سے بھارت کی پسپائی سمیت مقبوضہ علاقوں کی واپسی کے لئے شملہ معاہدہ کر کے انہوں نے قدم بقدم حکمت عملی میں کامیابی حاصل کی۔ یہی وہ فیصلہ کن اقدامات تھے جو انہیں آج بھی تاریخ میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ان کے خیالات و افکار سے آگہی حاصل کی جائے تو بہت کچھ سمجھ میں آتا ہے۔ بھٹو شہید نے ایک موقع پر کہا تھا۔

”کوئی بھی ہزاروں سال نہیں رہا، کسی نے بھی لاکھوں برس حکومت نہیں کی، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں سیزر آیا، نپولین آیا اور چلا گیا۔ ہٹلر بھی ہزار برس کے اقتدار کی بات کرتا تھا وہ بمشکل دس برس گزار سکا اور صفحہ ہستی سے مٹ گیا اسی لئے جتنی جلد ہو سکے بحران کا حل تلاش کر لیا جائے تو بہتر ہو گا“ ۔

کیا نکتہ آفرینی ہے، تاریخ کے تناظر میں مدلل انداز میں زمینی حقائق کے ساتھ اپنا موقف پیش کر دیا۔ فریق ثانی خاطر میں نہ لائے تو اس کی مرضی مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ زمین تو گھوم رہی ہے۔ سقراط نے زہر پی لیا حقائق اپنی جگہ موجود رہے۔ ایک موقع پر ان کا کہنا تھا ”عوام کی جدوجہد میرا ایمان ہے۔ میں اس ملک سے سامراج کے پھٹوؤں کو ختم کرنے کی آخری دم تک جدوجہد کرتا رہوں گا۔ دنیا کی امیر قوموں کا رویہ افسوسناک ہے اور وہ ترقی پذیر ملکوں کی امداد کے نام پر اپنے سیاسی مفادات کو پورا کرتی ہیں یہ بھی غریب قوموں کے استحصال کی بدترین مثال ہے۔ ہمیں ایسی اقتصادی امداد کوئی ضرورت نہیں جو ہمیں قومی مفادات سے بے خبر کردے اور ہماری خود مختاری کے لئے چیلنج بن جائے۔ دنیا امیر و غریب قوموں میں تقسیم ہو چکی ہے اور غربت کے خاتمے کے لئے غریب قوموں کا اتحاد بہت ضروری ہے۔ ہم عوام کو زیادہ دیر تک انتظار میں نہیں رکھ سکتے“ ۔

ذوالفقار علی بھٹو علی بھٹو کی سیاسی جدوجہد، قربانیوں اور کامیابیوں سے عبارت ہے، انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد پژمردہ قوم کو سنبھالا، بھارت سے مقبوضہ رقبہ کی واپسی، 92 ہزار جنگی قیدیوں کی رہائی، 73 کا آئین اور ایٹمی پروگرام کا آغاز کتنے کارنامے ہیں جو ان کی کتاب حیات کا حصہ ہیں۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد، اسٹیل مل کی تعمیر، پورٹ قاسم کا قیام اور درجنوں منصوبے اور سکیمیں عالمی رہنماؤں سے ذاتی دوستیاں ٹھیک نصف صدی پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو وہ عروج وہ ترقی، کال کوٹھری میں گزرے ان کے ایام کے حوالے سے خواب و خیال دکھائی دیتی ہے۔ جب وہ بے ساختہ یہ کہہ اٹھتے ہیں ”میں ایک قوم بنانے کے لئے پیدا ہوا ہوں میں عوام کی خدمت کرنے کے لئے پیدا ہوا ہوں، میں کال کوٹھڑی میں رہنے یا غداروں کے انتقام کی بھینٹ چڑھنے کے لئے پیدا نہیں ہوا“ ۔

ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا پوری طرح ادراک تھا۔ اسی لئے انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں کہا سازشی عناصر مجھے ہٹانا چاہتے ہیں وہ پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ایک ملک موجودہ تحریک کے لئے بھاری رقم خرچ کر رہا ہے۔ ہاتھی نے ویتنام اور مشرق وسطیٰ پر ہمارے موقف کو تسلیم نہیں کیا۔ کیا ہاتھی مجھ سے ناراض ہے لیکن اس کا واسطہ بندہ صحرا سے آن پڑا ہے۔ ہم نے ایٹمی پلانٹ پر قومی مفاد کے مطابق موقف اختیار کیا ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی کرنسی پانی کی طرح بہائی جا رہی ہے۔ کراچی میں ڈالر چھ روپے کا ہو گیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس طرح لوگوں کو اذان دینے کے لئے رقوم دی گئیں اور لوگوں کو جیل جانے کے لئے رشوت دے دی گئی ”۔

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی آخری کتاب ”اگر مجھے قتل کیا گیا“ میں تحریر کیا کہ 11 جنوری 1977 میں سفید ہاتھی کے بارے میں مجھے رپورٹ ملنے لگی اسی مہینے میں رفیع رضا نے میرے ساتھ ساڑھے چار گھنٹے ملاقات کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پی این اے وجود لے رہی ہے انہوں نے بتایا کہ پی این اے کا صدر کون ہو گا اور اس کے دوسرے عہدیدار کون ہوں گے۔ انہوں نے مجھے اس کے ڈھانچے ڈیزائن حکمت عملی اور مقاصد کے بارے میں بتایا۔

اپنے انکشافات کے آخر میں انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے پاس تین متبادل ہیں ایک یہ کہ میں نیوکلیئر پروسیسنگ پلانٹ کو بھول جاؤں تو اپوزیشن کبھی متحد نہ ہو سکے گی دوسرا یہ کہ انتخابات ملتوی کر دوں تیسرا یہ کہ انتہائی نتائج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہوں۔ انہوں نے اصرار کیا کہ میں اس پر ذرائع کے انکشاف پر دباؤ نہ ڈالوں۔

جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری پروفیسر غفور احمد مرحوم نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا کہ پی پی پی اور پی این اے کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے اور سمجھوتہ ہو گیا تھا کہ دوبارہ انتخابات کرائے جائیں گے مگر پاک فوج نے رات کو شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ پی این اے کی تحریک کے نتیجے میں ایک آمر جرنیل ضیا الحق نے پاکستان پر مارشل لا مسلط کر دیا جو گیارہ سال تک جاری رہا۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے طویل اقتدار کے دوران کلاشنکوف ہیروئن نفرت انتہا پسندی تعصب اور شدت پسندی کی وہ فصل بوئی جسے آج تک پاکستان کے عوام کاٹ رہے ہیں اور خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ پی این اے کے اتحاد میں شامل سیاستدان معیار اہلیت اور دیانت کے حوالے سے بہت بہتر تھے۔ ان پر کرپشن کے الزامات نہیں تھے مگر وہ حالات کا درست ادراک نہ کرسکے اور پاکستان کو بدترین آمر جرنیل کے حوالے کر دیا۔

بھٹو کو پھانسی دینے اور ان کی بیٹی بے نظیر کو سرعام قتل کرنے والے آمریت زدہ اذہان آج بھی بھٹو ازم کے نام سے خائف ہیں، وہ کبھی جرنیلی جمہوریت کے نام پر عوام کے حقوق پر ڈاکا مارتے ہیں اور کبھی کھلے بندوں ننگی آمریت وطن عزیز پر مسلط کر کے آئین پاکستان کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ بھٹو کے خلاف مذہبی کارڈ کھیلنے والے آج بھی ریاست مدینہ جیسے مقدس نام کو اپنے ذاتی اور مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں لیکن شاید انہیں اپنے انجام کی فکر نہیں۔

یہی وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہیں جو قرآن حکیم، فرقان حمید کی حقیقی اور ابدی وارننگ کو سمجھنے کے قابل نہیں، اور ہوں بھی کیسے جب اللہ نے ان کے سیاہ دلوں پر مہر لگادی ہو۔ فطرت کا اپنا قانون، اپنا ضابطہ اور اپنا نظام ہے جو وقت مقررہ پر ضرور حرکت میں آتا ہے۔ بے شک ظالموں کا انجام بہت ہی عبرت ناک ہے۔ کٹھ پتلی تماشا ختم ہونے کو ہے اور عوامی راج قائم ہونے کو ۔ وہ جدوجہد جو بھٹو شہید نے شروع کی، جاری ہے اور جاری رہے گی۔

بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments