ایدھی کی ماں کی محبت اور دھرتی ماں کی خدمت کی کہانی


’ایک دن میرا ہمسایہ بھاگا بھاگا میری ڈسپنسری میں آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ میری والدہ سخت بیمار ہو گئی ہیں۔ گھر کا دروازہ کھلا تھا اور میری والدہ زمین پر بیٹھی برتن دھو رہی تھیں۔ بچوں نے انہیں زمین پر گرتے دیکھا۔ میں گھر پہنچا تو وہ اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہی تھیں۔ انہیں ہسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہیں سٹروک ہو گیا ہے۔ ان کا آدھا جسم مفلوج ہو چکا تھا۔ میرے والد اور بھائی اپنے کاموں میں مصروف تھے اس لیے میں نے اپنی والدہ کا خیال رکھنے کی ذمہ داری لی۔

میں نے اپنی والدہ کا بڑھاپے میں اسی طرح خیال رکھنے کا فیصلہ کیا جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں میرا خیال رکھا تھا۔ میں جب ان کا خیال رکھتا تو وہ شرمندہ ہوتیں اور خدا سے دعا کرتیں کہ وہ انہیں بیماری کے عذاب سے نجات دلائے۔ میں جانتا تھا کہ ان کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے۔

میں ہر صبح انہیں کھانا کھلاتا۔ ان کے کپڑے بدلتا۔ انہیں دوا کھلاتا۔ مجھے دھیرے دھیرے اندازہ ہو رہا تھا کہ ہمارے معاشرے میں نجانے کتنی عورتیں ہیں جو بیماری کی وجہ سے معذور ہو چکی ہیں اور ان کے رشتہ داروں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ ان کا خیال رکھ سکیں۔

میری والدہ کو یہ فکر رہتی کہ چونکہ وہ دوسروں کی خدمت نہیں کر سکتیں اس لیے وہ بے کار ہو گئی ہیں۔

دھیرے دھیرے ان کی حالت اتنی خراب ہو گئی ہے کہ وہ واش روم بھی نہ جا سکتیں۔ میں ان کے کمرے میں انہیں ایک سٹول پر بٹھاتا اور انہیں صابن لگا کر نہلاتا۔ پھر ان کے جسم کو خشک کرتا ان کے کپڑے بدلتا اور انہیں بستر پر لٹاتا۔ پھر میں کمرہ صاف کرتا۔

جب میں انہیں بیڈ پین دیتا تو خود کمرے سے باہر بیٹھ کر انتظار کرتا۔ جب میں بیڈ پین لینے جاتا تو وہ شرم سے دوسری طرف دیکھنے لگتیں۔ ان کی عزت نفس مجروح ہوتی۔

میں ان سے کہتا۔
کبھی میں بچہ تھا آپ میری ماں تھیں
اب آپ میری بچی کی طرح ہیں اور میں آپ کی ماں کی طرح ہوں۔
میں نے بہت کوشش کی لیکن وہ اپنا نیا رول قبول نہ کر سکیں۔
میں رات کو ان کا سر اپنی گود میں لے کر سہلاتا تا کہ انہیں نیند آ جائے۔

کئی ماہ بعد ایک دن ان کی دماغ کی خون کی نالی پھٹی انہیں برین ہیمرج ہوا۔ وہ پانچ دن کوما میں رہیں اور پھر فوت ہو گئیں۔ ہم نے سادگی کا مظاہرہ کیا۔ اپنی والدہ کی لاش کو چارپائی پر ڈالا ’انہیں قبرستان لے گئے اور انہیں دفن کر دیا۔

والدہ کو دفن کرنے کے بعد میں گھر نہیں گیا کیونکہ گھر جانے کا کوئی جواز نہ تھا۔ میں قبرستان سے سیدھا کام کرنے ڈسپنسری چلا گیا اس رات میں گھر گیا تو میں نے گھر کے سب دروازے اور کھڑکیاں بند کیں اور میں اپنی والدہ کے دکھوں کا سوچ سوچ کر پھوٹ پھوٹ کر رویا۔

میں نے سوچا کہ کسی انسان کا عزت نفس کو کھونا کتنا بڑا المیہ ہے۔
میری والدہ نے مرتے وقت مجھے خدمت خلق کا درس سکھایا۔

میں نے سوچا کہ جس طرح مرنے سے پہلے میں نے اپنی ماں کی خدمت کی اب ان کے مرنے کے بعد میں ویسے ہی دھرتی ماں کے بچوں کی خدمت کروں گا۔

میری والدہ نے جو پہلی رات اپنی قبر میں گزاری اسی رات میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی بقیہ زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دوں گا۔ ’

مندرجہ بالا پیراگراف عبدالستار ایدھی کی سوانح عمری
A MIRROR TO THE BLIND (نابینا شہر میں آئینہ)

کے چند اقتباسات کا ترجمہ ہیں جو تہمینہ درانی نے ایدھی سے تفصیلی انٹرویوز کے بعد لکھی ہے۔ یہ کتاب سوانح عمریوں کی تاریخ میں ایک گرانقدر اضافہ ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ عبدالستار ایدھی ایک ایسے پاکستانی تھے جو اپنے عہد کے مسیحا تھا۔ ان کی عزت اور قدر کرنے والے ان کی وفات کے بعد بھی ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی عظمت کا اقرار کرنے والے کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔

ایدھی نے درویشی کی ایک مثالی زندگی گزاری۔ وہ لکھتے ہیں

’ میرا نواسا بلال مجھے صبح سویرے اٹھا دیتا تھا۔ میرے ساتھ ناشتہ کرتا تھا اور جب مجھے کل کی باسی روٹی کھاتے دیکھتا تھا تو پوچھتا تھا‘ نانا! آپ باسی روٹی کیوں کھاتے ہیں؟ کیا آپ غریب ہیں؟ اور میں اسے کہتا تھا ’بیٹا یہ باسی روٹی مجھے غریب لوگوں کی یاد دلاتی ہے ان کی خدمت کے لیے تیار کرتی ہے۔ یہ میرا ہوم ورک ہے‘

ایدھی جن رہنماؤں سے متاثر تھے ان میں مارکس بھی شامل تھے امام حسین بھی موہن داس گاندھی بھی شامل تھے خان عبدالغفار خان بھی۔ وہ مسلمان حکمرانوں میں شیر شاہ سوری سے متاثر تھے جنہوں نے خدمت خلق کرتے ہوئے پشاور سے کلکتے تک پھیلی جی ٹی روڈ بنوائی تھی۔

ایدھی کو نوجوانی میں ہی اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ عورتوں پر بہت سے ظلم ڈھائے جاتے ہیں اور انہیں اپنی زندگی میں بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عورتوں کے لیے ایدھی اپنے دل میں ہمدردانہ جذبات رکھتے تھے۔ ایدھی اپنے رفقا کار سے کہتے تھے کہ ہمیں ان لوگوں کی زیادہ عزت کرنی چاہیے جن کی لوگ عزت نہیں کرتے۔ ایدھی کو ان غریب لڑکیوں کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا جن کے ساتھ ان کے خاندان والے ناروا سلوک کرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں ’بچیوں کی بوڑھوں سے شادی کر دی جاتی ہے۔ اور ان بچیوں کو ان مردوں کی تیسری یا چوتھی بیوی بنا دیا جاتا ہے۔ بعض بچیوں کو ریلوے سٹیشنوں یا مزاروں سے اغوا کر لیا جاتا ہے اور انہیں بازار حسن میں بیچ دیا جاتا ہے‘

ایدھی کو اس دن بہت غصہ آیا جس دن انہیں پتہ چلا کہ ایک نوزائیدہ بچے کو مسجد کے سامنے نمازیوں نے سنگسار کر دیا کیونکہ وہ نمازی اس بچے کو گنہگار سمجھتے تھے۔ ایدھی نے کہا کہ سب بچے معصوم ہوتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے سارے شہر کی خاص جگہوں پر خاص جھولے رکھوا دیے جو پالنے کہلاتے ہیں تا کہ وہ مائیں جو بچے نہیں پالنا چاہتیں وہ انہیں رات کی تاریکی میں وہاں چھوڑ جائیں تا کہ ایدھی ان کی نگہداشت کا انتظام کر سکیں۔ ایدھی نے نجانے کتنے لاوارث بچوں کو اپنا بچہ سمجھ کر پالا۔

ایدھی نے زندگی کے ایک دور میں عبدالستار ایدھی ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن قائم کیے اور اپنی خدمت خلق کے کام کو منظم کیا۔

میں ساری دنیا میں کسی ایسے فلاحی ادارے کو نہیں جانتا جو اپنے ڈونرز کے تحفوں کو قرض سمجھتا ہے۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد جب مہاجر پاکستان آئے تو ایدھی کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ ہم نے آپ کے ادارے کو تحفے بھیجے تھے اب ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ ایدھی نے اپنے ریکارڈ چیک کیے اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ ان لوگوں نے واقعی ایدھی کے ادارے کو رقم بھیجی تھی تو ایدھی نے اپنے محسنوں کو ان کی رقم واپس کر دی۔ ایسی خدمت خلق کی دنیا میں مثال ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ یہ ایدھی کی عظمت اور ایمانداری کا واضح ثبوت ہے۔

ایدھی کا موقف تھا کہ قوم میں فلاحی کاموں کا مرکز عوام ہونے چاہییں۔ وہ پاکستان کو ناروے ڈنمارک اور سویڈن کی طرح ایک فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھا کرتے تھے۔ ایسی فلاحی ریاست جس میں ہر شہری باروزگار ہو اور باعزت زندگی گزار سکے۔

پچھلی چند دہائیوں سے ایدھی کی سینکڑوں ہزاروں ایمبولینسیں رنگ ’نسل‘ مذہب اور زبان سے بالاتر ہو کر سب انسانوں کی خدمت کر رہی ہیں۔ ایدھی کی ایمبولنس سروس دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولنس سروس ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایدھی کو امن کا نوبل انعام ملنا چاہیے تھا اور بعض کا خیال ہے کہ نوبل امن کمیٹی کا ایدھی کو انعام نہ دینا ایدھی کی نہیں نوبل انعام والوں کی محرومی ہے کیونکہ ایدھی کی انسانیت کی خدمت ایوارڈوں سے بے نیاز تھی۔

میری نگاہ میں ایدھی کی شخصیت اور خدمت پر ساری پاکستانی قوم بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔ ایدھی جیسے درویش صفت مسیحا ہر صدی میں دو چار ہی پیدا ہوتے ہیں۔

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail