سویڈن: ایسا ملک جہاں بیمار بچے کی دیکھ بھال پر والدین کو تنخواہ ملتی ہے


سکول جانے والے تین ننھے بچوں کے ساتھ ایک کمپنی میں بطور منیجر کام کرنے والے جریمی کوتھمین سردیوں میں اس بات کے لیے تیار تھے کہ ان کے خاندان کو ٹھنڈ، کورونا یا کسی اور مرض کا سامنا ہو سکتا ہے۔ لیکن کرسمس سے پہلے ہی صورتحال ان کی توقع سے زیادہ خراب ہو چکی تھی۔

42 سال جریمی کہتے ہیں کہ ان کے بچے یکے بعد دیگرے بخار یا نورو وائرس کا شکار ہو رہے تھے۔ وہ سٹاک ہوم کی ایک ٹیکنالوجی کمپنی میں عملے کی بھرتی سے منسلک امور کو دیکھتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ بچوں کو رات بھر الٹیاں لگی رہتی تھیں جس کی وجہ سے انھیں بار بار اپنی بلڈنگ میں موجود لانڈری یعنی کپڑوں کو دھونے کی سہولت تک جانا پڑتا تھا۔

لیکن ان کے خاندان پر بچوں کی بیماری میں پڑنے والا دباو اس پالیسی کی وجہ سے کم ہو گیا جسے کیئر آف چائلڈ کہا جاتا ہے۔ اس میں والدین کو یہ حق ملتا ہے کہ وہ اپنے کام کے اوقات کو اپنے بیمار بچے کی تیماداری پر صرف کریں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس سویڈن میں والدین کو اپنے بیمار بچے کی دیکھ بھال کے لیے عزیزو اقارب یا دوستوں سے مدد کی درخواست نہیں کرنا پڑتی۔

ان والدین کو دفتر سے چھٹی کرنی پڑے گی نہ بغیر تنخواہ کے چھٹی لینی پڑے گی۔ گھر میں بیمار بچے کی موجودگی کے باوجود گھر سے باہر کام کے لیے جانا بھی نہیں پڑے گا۔

جریمی کوتھمین کا تعلق امریکہ سے ہے۔ ان کی اہلیہ چیف مارکٹنگ آفیسر ہیں۔ دونوں نے اپنے بچوں کی بیماری کے دوران نو چھٹیاں کیں جو نئی ویب پالیسی کے باعث ملیں۔

وہ کہتے ہیں کہ سویڈن میں ان کے پاس خاندان کی صورت میں کوئی فیملی سپورٹ نہیں تھی اس لیے ’ہمارے لیے مشکل وقت تھا اور ویب کے بغیر ہم دونوں میاں بیوی کے لیے کسی بھی طرح ممکن نہ تھا کہ ہم اپنے کام کے ساتھ فیملی لائف کو چلا سکتے اور ہماری ذہنی صحت بھی درست رہتی۔’

سویڈین خاندان کے حوالے سے دوستانہ اور آسان پالیسیوں کے لیے مشہور ہے جیسا کہ والدین بننے پر دی جانے والی چھٹیاں اور چائلڈ کئیر کے لیے نسبتاً آسانی۔

اب سویڈین میں ’ویب‘ کو بین الاقوامی سطح پر کوتھمین جیسے ٹیلنٹ کے حامل افراد کو اپنی جانب مائل کرنے اور انھیں وہیں کام کرتے رہنے کے لیے کاروباری سطح پر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

لیکن کام کرنے والوں کی آسانی کے لیے پہلے سے موجود اقدامات جیسے کہ لامحدود چھٹیاں یا ضروری ورزش کے مقابلے میں ویب جہاں ایک فائدہ مند سہولت ہے وہیں یہ تحفظات بھی ہیں کہ اگر والدین زیادہ چھٹیاں لیں تو یہ ان کے کرئیر پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

خاندان کے لیے دوستانہ ماحول

بظاہر لگتا ہے کہ ویب کی پالیسی کا خیال مالکان کی جانب سے کورونا وائرس کی وبا کے دوران آیا ہو گا لیکن درحقیقت یہ سویڈن کے قانون میں کئی دہائیوں سے موجود تھی۔ ریاست والدین کی 80 فیصد آمدن ادا کرتی ہے جو کہ یومیہ 120 امریکی ڈالر بنتی ہے۔

والدین ماں ہو یا باپ، جب تک ان کے بچے کی عمر 12 برس نہ جائے، ہر سال اپنے ایک بچے کے لیے 120 چھٹیاں لے سکتے ہیں (اگرچہ اس کے لیے آٹھ مسلسل چھٹیوں کے بعد ڈاکٹر کے نوٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔) والدین اس میں اپنے خاندان کے دوسرے افراد کا نام بھی دے سکتے ہیں اور دوستوں کا بھی جنھیں ان کی جگہ ویب کی ادائیگی ہوتی ہے۔

اس سے سیلف ایمپلائیڈ یعنی اپنا کام کرنے والے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

یہ تمام پیپر ورک سویڈش انشورنس ایجنسی کی ایپ کے ذریعے ہوتا ہے۔

ویب کا خیال اتنا عام ہے کہ سویڈن میں اکثر کہا جاتا ہے ’ایٹ وابا‘ یعنی گھر میں رہیں اور بچے کا خیال رکھیں۔ بین الاقوامی کمپنیاں جہاں انگریزی بہت وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے وہاں آپ مسلسل یہ سویڈش جملہ سنتے ہوں گے ’آئی ایم ویببنگ‘ کہ میں گھر پر رہتا ہوں۔

سویڈن میں فروری کو ویبیورری کہا جاتا ہے وہاں کام کی جگہوں پر اس ماہ میں کرسیاں خالی ہونا عام سی بات ہے کیونکہ اس وائرس سے بھرے سرد مہینے کے دوران والدین ویب کی چھٹیاں لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ایسے میں مالکان اپنے سٹاف کو ویب لینے کے حق سے روک نہیں سکتے اور اگر والدین اس سہولت سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو بہت سی کمپنیاں اس پر ہمدردہغج رویہ رکھتی ہیں۔

کوتھمین کہتے ہیں کہ میرے باس کے دو بچے ہیں اور اکثر انھیں خود ویب کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ اس لیے پوری کمپنی ہی اس کو سمجھتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سلیک (میسجنگ ایپ) میں ویب کا سٹیٹس آئیکون موجود ہے اور اگر کوئی کام نہیں کر سکتا تو یہ فوری طور پر کمپنی کو آگاہ کر دیتا ہے۔

جس حد تک سویڈن میں والدین کو بیمار بچے کا خیال رکھنے کے لیے مدد دی جاتی ہے، شاید اسے جان کر دیگر دنیا میں موجود لوگ مایوس ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ پرائیویٹ ہیلتھ کئیر اور بچوں کی کئیر کے لیے دیگر ذریعوں پر انحصار کرتے ہیں۔

لیکن سویڈین میں خاندانوں کے لیے دوستانہ رویے کی پالیسز کی ایک طویل تاریخ ہے۔

مزید پڑھیے

’گھر رہ کر بچے پالنے پر دوستوں نے کہا ’یار تُو تو فارغ ہو گیا ہے‘

اب والد کو بھی بچے کی پیدائش پر چھٹی ملا کرے گی

پاکستان میں بچے کی پیدائش پر کتنا خرچ آتا ہے؟

ویب پالیسی سنہ 1974 میں متعارف کروائی گئی اور یہی وہ وقت تھا جب سویڈین نے والدین بننے والے ماں اور باپ دونوں کو صنف کے بلا امتیاز بغیر تنخواہ کی کٹوتی کے چھٹیاں دینے کا آغاز کیا تھا۔

اگلے برس سرکاری طور پر سبسڈی ریٹ پر تمام والدین کے لیے ڈے کئیر کی سہولت بھی فراہم کی گئی تھی۔

اس پس منظر کے ساتھ ویب والدین کے لیے بہت منظم اور پریکٹیکل/ آسان حل ہے۔

سویڈش انسٹی ٹیوٹ آف سوشل ریسرچ کی کترینہ جو کہ ماہر سماجیات ہیں، اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ملک میں تمام جماعتوں میں اور ووٹرز کی جانب سے اسے بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

آجر کے لیے ویب کی وجہ سے یقیناً ایک چیلنج ہوتا ہے کیونکہ اس سے منصوبے میں موجود پراجیکٹس یا پھر طے شدہ ڈیوٹیوں پر اثر پڑتا ہے۔ لیکن یہ پھر بھی تمام کاروباری اداروں میں اب بھی مقبول ہے۔

کیتھرینا کہتی ہیں کہ یہ کمپنیوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ورک فورس کو اپنی جانب متوجہ کر سکے اور کام پر رکھ سکے۔

کیتھرینا کنفڈریشن آف سویڈش انٹرپرائسز میں بطور محقق کام کر رہی ہیں جو کہ 60 ہزار کمپنیوں کی ترجمانی کرتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یورپی یونین میں سویڈین کے سب سے زیادہ نوکری پیشہ خواتین والا ملک ہونے کی ایک وجہ ویب کی پالیسی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے چھوٹے بچوں کے ساتھ کام کرتے رہنا اسی کی وجہ سے آسان ہوا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ بچے کی پیدائش پر ملنے والی چھٹی، انشورنس سسٹم بشمول ویب، چائلڈ کیئر کے ساتھ ساتھ کام اور فیملی لائف دونوں کو چلانے کے لیے دونوں والدین کے لیے ضروری شرائط ہوتی ہیں۔

ایسے افراد جو والدین نہیں یا جن کے بچے نہیں، اس میں ان کے لیے بھی فوائد ہیں۔

تیس سالہ ایسا سوینسن جو کہ کمیونکیشن آفیسر ہیں اور ان کے بچے نہیں ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ مجھ پر مثبت اثر ڈالتا ہے کیونکہ میرے ساتھی اپنے چھوٹے بچوں سے کوئی بیکٹیریا لے کر کام کی جگہ پر نہیں آتے۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر وہ کم ترقی پذیر ویلفئیر سسٹم والے ملک میں رہ رہی ہوتیں تو اتنی نوجوان ماؤں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کبھی حاصل نہ کر پاتیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک عورت کی حیثیت سے اور کسی ایسے فرد کی حیثیت سے جو خود کو فیمنیسٹ سمجھے۔۔۔ یہ بہت شاندار چیز ہے‘۔

جوڑوں کے مابین سمجھوتہ

سویڈن کی انشورنس ایجنسی کے اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اگر صنفی اعتبار سے دیکھیں تو ویب کے تحت بھی والد کی نسبت مائیں زیادہ چھٹیاں لیتی ہیں۔ یہ تناسب 60 کے مقابلے میں چالیس ہے۔

سویڈش انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ کے بوئے کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں مرد اب بھی پرائیویٹ سیکٹر میں زیادہ کمائی کرتے ہیں۔

اس قسم کے کیسز میں اپنی کم آمدنی والی فیمیل پارٹنر کی نسبت ان کی ویب تنخواہ کا زیادہ اثر پڑتا ہے۔

بوئے کا کہنا ہے کہ اس میں صنفی امتیاز بھی ایک کردار ادا کر رہا ہے۔

’ہم اب بھی عورتوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ زیادہ خیال کرنے والی ہوں اور اچھی ماں کے لیے توقعات اچھی والد سے کی جانے والی توقعات سے زیادہ ہوتی ہیں۔‘

حتیٰ کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو جوڑے برابری کی سطح پر بچے کی ذمہ داری لینا چاہیں وہ بھی یہ دیکھتے ہیں کہ دونوں میں سے کس کے لیے بہتر ہے کہ وہ ویب کے تحت چھٹی لے۔

سٹاک ہوم میں مقیم والدین پر لکھنے والی مصنف اور پوڈ کاسٹر، مانے فورسبرگ کا کہنا ہے کہ ’ایسے جوڑوں کے مابین بھی جو بوجھ کو یکساں طور پر بانٹنے کے خواہشمند ہیں، یہ ترقی یافتہ ملک کے عیش و آرام کے مسئلے کی طرح لگ رہا ہے کیونکہ ہمیں ویب کی سہولت حاصل ہے لیکن فوری طور پر یہ فیصلہ کرنا ایک چیلنج ہے کہ کس کا کام پر جانا بہت اہم ہے۔‘

The VAB benefit might sound like an idea dreamed up by employers during the pandemic, but it's actually been enshrined in Swedish law for decades (Credit: Getty Images)

سنہ 2020 میں وبا کی وجہ سے ویب کی چھٹیاں بڑھ گئیں۔

انھوں نے پنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ’آپ اپنی شادی کو ویب کے اوقات میں کیسے بچائیں۔ انھوں نے اپنی پوڈ کاسٹ میں والدین کو مشورہ دیا کہ وہ ہر اتوار کو اپنے شیڈول ایک دوسرے سے شئیر کریں اور پہلے سے ہی پلان کر لیں کہ اگر بچوں میں سے کوئی اچانک بیمار ہو گیا تو دونوں والدین میں سے چھٹی کون کرے گا۔

یہ طریقہ کار کوتھمین اور ان کی اہلیہ بھی اپناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم دونوں سینئیر لیڈر شپ لیول پر کام کر رہے ہیں اور اکثر ہاف ڈے ویبنگ لیتے ہیں۔

کوتھمین کی اہلیہ کو اکثر بورڈ میٹنگ پر جانا ہوتا ہے جنھیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی مدد کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور ویب کا استعمال اچھے طریقے سے کرتے ہیں۔

کوتھمین کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں لاکھوں جوڑوں کی طرح جو اپنے گھروں سے دور کام کر رہے تھے کہ یہ ایک مشکل صورتحال تھی کیونکہ گھریلو زندگی اور کارپوریٹ لائف کے درمیان موجود حدیں دھندلا رہی تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اکثر ویب کی سہولت میسر نہ ہونے والے والدین کے لیے یہ مشکل ہے کہ انھیں گھر میں کام کرنے کے لیے پرسکون جگہ مل سکے۔۔۔ ایسا وقت بھی ہوتا ہو گا جب بچے چیخ رہے ہوں اور آپس میں جھگڑ رہے ہوں اور یہ کام سے توجہ ہٹنے کا باعث بن رہا ہو۔

اور اگر والدین کو ویب پالیسی کے تحت چھٹی مل بھی رہی ہے تب بھی دن بھر بچے کی دیکھ بھال کے بعد آپ پر دفتر کے کام کا بوجھ ہو سکتا ہے اور ٹیم کے ساتھ وابستگی کا مطلب ہے کہ آپ کو بچوں کی دیکھ بھال کے بعد بھی ای میل چیک کرنے کے لیے لاگ ان کرنا پڑے گا۔

وہ کہتے ہیں اگر آپ اپنی بیوی کی طرح مینیجر ہیں تو آپ کو کام کو تفصویض کرنے میں اچھا ہونا ہو گا تاکہ یہ نہ ہو کہ آپ پر کام کا بوجھ پڑ جائے اور جو بعد میں پریشانی کی وجہ بنے۔

فائل فوٹو

فائل فوٹو

حالیہ برسوں میں غیر رسمی طریقہ کار ایٹ ووبا بھی سامنے آیا ہے۔ یہ ایک ویبا اور ایٹ جابا کا مکسچر ہے۔ جس کا مطلب ہے کام۔

ٹو جوبا کا مطلب ہے کہ ویب لینے کے بجائے آپ اپنے بچے کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ دفتری کام بھی کریں گے۔

اس میں یہ نظریہ ہے کہ آپ اپنا کام کر سکتے ہیں اور اگر آپ زیادہ کمانے والے ورکر ہیں تو ویب سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنی تنخواہ سے محروم نہیں ہوں گے۔

یہ کورونا کی وبا کے دوران بہت زیادہ عام ہو گیا تھا جب نسبتاً کم بیمار بچوں کو بھی تھوڑی سی چھینکوں کی وجہ سے بھی سکول نہیں آنے دیا جاتا تھا۔ لیکن سویڈش یونینز نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے کام کرنے والوں میں برن آؤٹ یا تھکاوٹ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

انھوں نے متنبہ کیا ہے کہ ملازمین کو ایسے باسز کی جانب سے چوکنا رہنا چاہیے جو ووبا کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بجائے اس کے کہ ملازمین ویبا کے لیے اپنا قانونی حق استعمال کریں۔

کرئیر کو تباہ کرنے والا ایک خفیہ قاتل

سویڈش کاروباروں میں اگرچہ قانونی طور پر اجازت نہیں کہ وہ والدین جو کہ وابا چاہیں یا ووبا ان کے درمیان کوئی تخصیص کریں۔ کیونکہ کچھ کام کرنے والے کسی مخصوص قسم کی چھٹیوں کو لینے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔

اگرچہ سویڈش کاروباروں کو قانونی طور پر ایسے والدین جنھیں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وابا یا ووبا کی ضرورت ہوتی ہے، کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کی اجازت نہیں ہے تاہم کچھ کارکنان اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔

نوزائیدہ بچہ

کترینہ جو ایک سرکاری ادارے میں کام کرتی ہیں اور اپنا پورا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی نسبت ویب پالیسی کا زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں اور انھوں نے گذشتہ برس نومبر اور دسمبر کے دوران چار ہفتوں کی چھٹیاں اسی مد میں لی تھیں۔

سٹاک ہوم میں ایک ماں نے بتایا کہ یہ ان کے ساتھ کام کرنے والی بہت سی ورکرز کے لیے حیرت کا باعث ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں المیہ یہ ہے کہ جب میں غیر حاضر ہوں تو کسی کو بھی بلایا نہیں جاتا اور میرا کام میرے ساتھیوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میں محسوس کرتی ہوں کہ شاید مجھے لیڈر شپ رول میں ترقی دینے میں میری جانب سے ایک سال میں ویب کے استعمال کے دنوں کو شمار کر کے ہچکچاہٹ محسوس کی جاتی ہو لیکن میرے منھ پر تو کچھ نہیں کہا جاتا۔

بوئے کی جانب سے کی جانے والی ریسرچ جو کہ سنہ 2015 میں شائع ہوئی سے پتہ چلتا ہے کہ جس عرصے میں ان کے بچے چھوٹے تھے، سویڈش والدین کا اس عرصے میں تنخواہ بڑھنے کا تناسب بہت کم رہا۔ یہ والد اور والدہ دونوں کے معاملے میں دیکھا گیا ہے۔ جو والد مسلسل بنیادوں پر ویب لیتے ہیں ان کی تنخواہ ایسے والدین سے 2 فیصد کم تھی جو کہ اوسط نمبر پر ویب لیتے ہیں۔ ماؤں کے یے یہ نصف فیصد ہے۔

بوئے کہتے ہیں کہ والدین کی چھٹیاں ان کے آجر کے لیے اشارہ ہوتی ہیں کہ انھیں کام کرنے میں کم دلچسپی ہے۔

اب یہ اشارہ والد کے لیے ماں کی نسبت زیادہ سخت ہوتا ہے کیونکہ والد سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ ذمہ دار ہو۔

ایک مہنگا خیال

فائل فوٹو

فائل فوٹو

سویڈن کی حکومت کے خزانے کے لیے ویب کی پالیسی میں لی گئی چھٹی کی ادائیگی بھی آسان نہیں۔

سنہ 2019 میں ایک کروڑ کی آبادی والے ملک سویڈن میں چھ لاکھ ستر ہزار بیماری کی چھٹیاں تھیں۔ سنہ 2020 کے دوران آٹھ لاکھ تیس ہزار چھٹیوں سے یہ ریکارڈ ٹوٹا۔ پھر کورونا وائرس چلتا رہا اور اس دوران سویڈن کے لوگوں سے کہا گیا کہ اگر انھیں ٹھنڈ لگ جانے کی علامات ظاہر ہوں تو وہ گھر پر ہی رہیں۔

سویڈش سوشل انشورنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ یہ انھیں 18 ملین ڈالر میں پڑا۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ وبا کے بعد ملک کی معیشت بہتری کی جانب لوٹ گئی ہے تاہم سیاسی سطح پر اور میڈیا میں اس پر بات ہو رہی ہے کہ اگر کورونا وائرس جاری رہا اور آنے والے موسم سرما کے دوران ایسے ہی ویبنگ کی بنیاد پر لی گئی چھٹیاں اتنی ہی زیادہ رہیں تو ان اضافی خرچوں کو کیسے پورا کیا جائے گا۔

یہ بھی پریشانی ہے کہ شاید والدین اس نظام کا جان بوجھ کر ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔

سویڈن میں لوگوں کا حکام پر بہت زیادہ اعتماد رہا ہے اور اس کے بدلے میں وہ قوانین پر عمل بھی کرتے ہیں مگر سنہ 2019 میں ایسے مشتبہ والدین کی تعداد بڑھی جو اس کا غلط استعمال کر رہے تھے۔ ویب سےتقریباً 50 فیصد والدین نے فائدہ اٹھایا۔

سوشل انشورنس ایجنسی انفرادی طور پر ہر اس شخص کی نگرانی کرتا ہے جو ویب کا مسلسل استعمال کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنی روٹین کی تنخواہ بھی لے رہا ہوتا ہے۔

حکومت کی جانب سے 2022 کی رپورٹ کو دیکھتے ہوئے پبلک انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

اس انکوائری میں شامل ہونے کیتھرینہ بیک کہتی ہیں کہ ’آجروں کو ویب کی قانونی حیثیت کو جاننے کے لیے بہتر طریقوں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا غلط استعمال روکا جا سکے۔‘

ایک ایسا اقدام جسے عالمی پذیرائی ملی

فائل فوٹو

فائل فوٹو

چیلنجز کے باوجود آپ شاید ہی کسی سویڈش سے مل سکیں جو اس کے حق میں نہ ہو۔

بوئے کہتے ہیں کہ جہاں تک میں جانتا ہوں کسی بھی پارٹی یا گروہ کی جانب سے اس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا۔

امریکہ میں پیدا ہونے والا کوتھمین کا کہنا ہے کہ یقیناً یہ نظام بہترین نہیں ہے، لیکن یہ زبردست نظام ہے اور اسے یقینی طور پر دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں وہاں امریکہ میں ان کے دوست ہیں جو بچے اس لیے پیدا نہیں کر رہے کیونکہ وہ اپنے کرئیر پر توجہ دینا چاہتے ہیں جو کہ سمجھ میں آتا ہے لیکن یہاں سویڈن میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ دونوں کام کر سکتے ہیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments