ہاجرہ مسرور: حقوق نسواں کی علمبردار


خواتین افسانہ نگاروں میں جہاں قرة العین حیدر، عصمت چغتائی، الطاف فاطمہ اور بانو قدسیہ کا نام لیا جاتا ہے وہیں ہاجرہ مسرور کا نام لیے بغیر ادب کی دنیا ناتمام ہے۔ ہاجرہ مسرور اپنے بچپن کے بارے میں بتاتی ہیں کہ جب مجھے پہلی مرتبہ ماسٹر صاحب کے پاس پڑھنے کے لیے بھیجا گیا تو میں نے سخت بغاوت کی۔ کتاب اور کاپیاں پھاڑی۔ سلیٹ بھی توڑی، بہت روئی اور کان کھنچوائے۔ مجھے بچپن میں کہانیاں سننے کا بے حد شوق تھا جو دنیا کے اکثر بچوں کو ہوتا ہے۔

کہانی پڑھنے کی شوق کی وجہ سے پڑھائی کی جانب راغب ہوئی۔ ایک دن بچوں کے رسالے میں سنڈریلا کی کہانی کا ترجمہ شائع ہوا جو میری بڑی بہن خدیجہ مستور نے پڑھ کر سنائی۔ میں نے بار بار سننے کی فرمائش کی تو انھوں نے کہا خود پڑھ لو۔ یہ کہانی مجھے اتنی پسند تھی کہ خود پڑھنے کے شوق میں الف، ب پ کی مصیبت برداشت کر لی۔ سکول کے زمانے میں مجھے ڈرامے میں ایک پارٹ ادا کرنا تھا۔ جب ایکٹنگ کرنے کا وقت آیا تو میں تماشائیوں کے سامنے گم سم کھڑی تھی۔ میں کانپتی رہی اور بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ ہاجرہ مسرور کی یہ باتیں ابھی بھی ریکارڈ میں موجود ہیں۔

ہاجرہ مسرور 17 جنوری 1929 ء کو لکھنو میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر تہور علی خان برٹش آرمی میں ڈاکٹر تھے اور علم و ادب سے لگاؤ رکھتے تھے۔ ان کا تبادلہ مختلف شہروں میں ہوتا رہتا تھا۔ اس لیے ہاجرہ کی تعلیم مختلف قصبوں اور شہروں میں ہوئی۔ آٹھ برس کی عمر میں والد کا انتقال ہوا تو عزیزوں نے منھ پھیر لی۔ مگر ان کی والدہ ایک باہمت اور خوددار خاتون تھیں۔ انھوں نے بڑی صبر آزما زندگی گزاری۔ وہ اپنے بچوں کو لے کر میکے چلی آئی۔ انھوں نے تمام بچوں کو رکھ رکھاؤ سے پالا۔ ماں کی اچھی تربیت کا یہ نتیجہ نکلا کہ انھوں نے اپنے اپنے شعبوں میں خوب ترقی کی۔

گھر میں ادبی ماحول میسر تھا۔ ہاجرہ کی بڑی بہن خدیجہ مستور اعلیٰ پائے کی ناول نگار تھیں اور ہاجرہ مسرور میں فطری صلاحیت بھی موجود تھی۔ ہاجرہ نے لکھنے کا آغاز بچپن ہی سے کیا تھا۔ انھوں نے محض تیرہ برس کی عمر میں ”لاوارث لاش“ لکھی۔ یہ ان کی پہلی ادبی تخلیق تھی جو بچوں کے ایک رسالے میں شائع ہوئی۔ ادبی حلقوں میں ان کے افسانوں کو پسند کیا جاتا تھا۔ کم عمری میں ہی اتنی مقبولیت حاصل کی کہ ایک پبلشر نے ماہوار پندرہ روپے کے عوض چار افسانے لکھنے کی فرمائش کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور تشریف لے آئیں اور لاہور کو اپنا مسکن بنا لیا۔ وہ احمد ندیم قاسمی کی منھ بولی بہن تھیں۔ وہ مل کر رسالہ ”نقوش“ کی ادارت کرتے تھے۔ وہ ترقی پسند مصنفین کی اجلاس میں باقاعدہ شریک ہوتی تھیں۔

چونکہ ہاجرہ نے اپنی زندگی دیہاتوں، قصبوں اور مختلف شہروں میں گزاری۔ انھیں سماجی برائیوں کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔ ہاجرہ مسرور کو زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس حاصل تھی۔ انھوں نے ہر صنف ادب میں طبع آزمائی۔ یہ وہ افسانہ نویس تھی جنھوں نے سماج میں خواتین پر ہونے والی نا انصافیوں، ظلم و زیادتیوں، ناہمواریوں، طبقاتی کشمکشوں اور چھوٹی بڑی الجھنوں کو اپنے افسانوں میں بیان کیا۔ وہ عمر بھر حقوق نسواں کی علمبردار رہی۔ ایک شعلہ جوالہ جس نے ظلم و جبر کے ایوانوں کو لرزہ بر اندام کر دیا۔

ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں چاند کے دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری چھپے، ہائے اللہ، چرکے قابل ذکر ہیں۔ ان تمام افسانوں کا ایک مجموعہ ”سب افسانے میرے“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ انھوں نے ناول نگاری میں بھی قلم فرسائی کی مگر اس میں خاطر خواہ کام یابی نہ مل سکی۔ ہاجرہ نے کہانیوں، افسانوں، ڈراموں کے علاوہ فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے۔ اس معروف ادیبہ کو حکومت پاکستان نے ادب کے شعبے میں بے پناہ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ یہ عظیم ادیبہ 15 ستمبر 2012 ء کو ادبی محفل سوگوار کر کے پاکستان کے شہر کراچی میں انتقال کر گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments