نرگسیت کا مارا ہوا ایک کالم نگار


کھی ہم بھی اس نرگسیت زدہ ہستی کے ایسے اسیر ہوا کرتے تھے کہ اخبار میں سب سے پہلے اسی کے کالم کی طرف لپکتے تھے لیکن جونہی کچھ عقل و شعور  نے ذہن و دل پر اینٹری ماری تو ان کے نظریات کسی افیون کی مانند نظر آئے اور پھر مڑ کر ان کی تحریر یا زبان سے متاثر نہ ہوئے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ کس کی بات ہو رہی ہے تو عرض یہ ہے کہ یہ بیلی پور کے فرعونیت میں لتھڑے اس شخص کا ذکر ہو رہا ہے جو اپنے سوا کسی کو بھی نہ تو خوبصورت سمجھتا ہے اور نہ دانا اور ہوش مند، اور اپنا حال یہ ہے کہ عورتوں اور وہ بھی بیٹیوں برابر کو ”کتی رن“ کہتا ہوا ملتا ہے اور عورت ذات کو ایسی ایسی فحش گالیاں بکتا ہے کہ اس کی پہلی اولاد بھی کیا بکتی ہوگی؟

تو جناب آئیے آج آپ کو اس خود پسند بارے کچھ معلومات دیتے ہیں، جی ہاں ہم اس کالم نگار کی بات کر رہے ہیں، جس کا اصل نام میاں اسرار الحق ہے اور یہ لائل پور کی ارائیں فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے ناسٹلجیا کی وجہ سے انہوں نے آج تک سعودی شاہ فیصل کے نام پر لائل پور کا نام فیصل آباد رکھنے کو تسلیم نہیں کیا ہے اور ہمیشہ اسے ”لائل پور“ لکھتے اور کہتے ہیں،

ان کا بچپن لائل پور میں جس محلے میں گزرا وہاں شہرہ آفاق گلوکار استاد نصرت فتح علی خاں بھی رہتے تھے، اسرار الحق اور نصرت کا بچپن ایک ساتھ کھیلتے گزرا اور اسرار الحق کے بقول نصرت فتح علی ان کے گھر کھیلنے آیا کرتے تھے اور ہر وقت روتے رہتے تھے ( یعنی نصرت فتح علی خاں بچپن سے ہی ”گائیک“ تھے 😂) ، اسرار الحق کے مطابق بچپن میں گول مٹول سے نصرت فتح علی خاں کو ”پیجی“ کے نام سے پکارا جاتا تھا، شاید اسی فنکار فیملی سے تعلق کی وجہ سے اسرار الحق کا شوبز کی طرف کافی زیادہ جھکاؤ دیکھا جاتا ہے اور انہوں نے آگے چل کر ڈرامہ انڈسٹری میں بطور رائٹر قدم بھی رکھے اور ان کے لکھے ایک ڈرامے میں معروف اداکار ضیا خان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی اسرار الحق کی بہت گہری دوستی ماضی کے مشہور ہیرو سنتوش (اداکارہ صبیحہ خانم جو امریکہ میں چند سال پہلے فوت ہوئیں، ان کے شوہر تھے) کے چھوٹے بھائی سے بھی تھی، شوبز حلقوں سے وابستہ لوگ عام طور پر خود کو ہیرو سمجھتے ہیں اور بہت خود پسند ہوتے ہیں، نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں، اسرار الحق کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہمیشہ رہا ہے، وہ اپنے سامنے کسی کو کچھ بھی نہیں سمجھتے ہیں اور اس چیز کا دائرہ کار نہ صرف لکھنے لکھانے سے ہے بلکہ شکل و صورت سے بھی ہے، اسی رو میں بہتے ہوئے وہ دوسروں کی شکل کا خاصی ڈھٹائی اور سفاکی سے مذاق اڑاتے بھی ملتے ہیں، ایک کالم میں انہوں نے جنرل ایوب اور گوہر ایوب کی خوبصورتی سے شروع کر کے بات اس پر ختم کی تھی کہ

”عمر ایوب کی شکل دولے شاہ کے چوہے سے ملتی ہے“
اور پھر انہوں نے ایسے ہی حمزہ شہباز کے چہرے کو ”بے کشش اور سپاٹ“ قرار دیا تھا۔

انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور ان کی فیلڈ اکنامکس تھی لیکن آ گئے صحافت کی طرف اور ان کا سیاسی لگاؤ شروع میں بھٹوز کی طرف ایسا تھا کہ ان کی خاطر دوسروں کے خاصے لتے لیا کرتے تھے، پیپلز پارٹی کے اخبار ”روزنامہ مساوات“ کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں، ایک میگزین ”زنجیر“ بھی نکالتے رہے جس میں شوبز کے قصے کہانیاں بہت بیان کیے جاتے تھے، روزنامہ مساوات کے دنوں ان کا کرش بے نظیر بھٹو پر تھا اور بی بی کو ”، leader of all times“ لکھا کرتے تھے لیکن پھر اسی بی بی کے خلاف ایسے لکھنا شروع کیا کہ لوگ دنگ رہ گئے،

ان کی مساوات تک کوئی خاص پہچان نہ تھی ان کی اصل پہچان اور اٹھان بنی روزنامہ خبریں سے 90 کی دہائی سے اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد سے ان کی ان بن ایک پولیس افسر دوست کی دعوت میں جانے سے ہوئی جس سے ان دنوں ضیا شاہد کا ایک ذاتی جھگڑا چل رہا تھا، پھر اسرار الحق کو شیخ افتخار عادل نے اپنے اخبار ”روزنامہ اساس“ کا ایڈیٹر بنا دیا، اسرار الحق نے روزنامہ خبریں کے دوپہر کے اخبار ”نیا اخبار“ کو دھچکہ پہنچانے کے لیے اساس گروپ کا ”روزنامہ لشکر“ بھی شروع کیا جس سے ضیا شاہد اور ان کی دشمنی مزید بڑھ گئی تھی اور وہ نجی محفلوں میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہوئے ملتے تھے اور اپنے کارکنوں پر شک بھی کرتے تھے کہ وہ ان کی جاسوسی کرتے ہیں،

اسرار الحق کا سیاسی قبلہ پانچ سات سال بعد بدل جاتا ہے، کبھی یہ بھٹوز کے دیوانے تھے اور انہیں ملک و قوم کے رہبر اور نجات دہندہ کہا کرتے تھے لیکن پھر ان کی سوئی عمران خان پر اٹک گئی اور جنرل حمید گل کی ”ترغیب“ پر سیاست جوائن کرنے والے عمران خان نے تحریک انصاف بنائی تو اس کے پہلے ”میڈیا ایڈوائزر“ اسرار الحق ہی تھے اور تحریک انصاف کا پہلا نغمہ بھی اسرار الحق ہی نے لکھا تھا لیکن پھر ان کے عمران خان سے اختلافات ہو گئے اور وہ اسے برگر جماعت کہہ کر چھوڑ آئے اور اس کے خلاف سخت کالم بھی لکھے۔

ایک وقت اسرار الحق لندن گئے تو ان کی ملاقات ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین سے کروائی گئی اور واپس آ کر اسرار الحق نے الطاف بھائی کے حق میں زبردست کالم لکھے اور ان کی image building کے لیے ہر حد کراس کر گئے اور ان کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم ملک میں انقلاب برپا کرنے والی واحد جماعت ہے مگر پھر اپنی افتاد طبع کے باعث اسرار الحق اس جماعت کے بھی خلاف لکھنا شروع ہو گئے اور ہمیشہ کی طرح بھول گئے کہ وہ اس کے حق میں کیا کیا لکھتے رہے ہیں؟

جب عمران خان نے دوسری بار اٹھان پکڑی تو پھر اسرار الحق ان کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے بھی نظر آئے اور عمران خان کے ساتھ اوپر کھڑے وہ چمکتی آنکھوں ساتھ کسی فاتح کے سے انداز میں مسکرا رہے تھے اور پھر ان کی عمران کے حق میں زبان بھی چلی اور قلم بھی، انہوں نے شریفوں اور بھٹوز کو تاک تاک کے نشانے لگائے، اپنے مخصوص انداز میں ان کے کپڑے بیچ چوراہے میں کھڑے ہو کر اتارے اور مزے لے لے کر ان کی کرپشن اور گناہوں کے قصے منہ بھر بھر کر بیان کیے لیکن عمران خان نے اقتدار میں آ کر جب بقول تجزیہ نگاروں کے کالم نگار ہارون الرشید کی طرح انہیں بھی بری طرح نظرانداز کیا تو انہوں نے پھر ماضی کی روایت کو دہرایا اور عمران خان کی حمایت کرنے پر ایک چینل پر بیٹھ کر کھلے عام خود پر ”لعنت“ بھیج دی اور اس بات کا جواب کبھی نہ دیا کہ غلط لوگوں کی حمایت کر کے انہیں اقتدار تک پہنچانے کے لیے استعمال ہو کر انہوں نے جو قوم و ملک کے ساتھ کھلواڑ کرانے میں بھرپور حصہ ڈالا، اس کی ذمے داری کس پر ہے؟ لیکن موصوف جنرل امجد شعیب کی طرح خود پر لعنت بھیج کر سائیڈ پر ہو گئے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اسرار الحق کو سیاست میں آنے کا بے حد شوق ہے اور وہ اسمبلی آنے کے بچپن سے خواہش مند رہے ہیں لیکن انہیں نہ بھٹوز  نے اس معاملے میں لفٹ کروا کر اسمبلی یا سینیٹ بھیجا اور نہ ہی عمران خان نے تو ان کا پارہ چڑھ گیا اور وہ پھر ہاتھ دھو کر ہر اس شخص کے پیچھے پڑ گئے جس نے انہیں نظر انداز کیا تھا،

واقفان حال کہتے ہیں کہ الطاف بھائی نے بھی انہیں پنجاب سے سینیٹر بنانے کی ”پھکی“ دی تھی تو وہ الطاف بھائی کو نجات دہندہ بنا کر ہیش کرنے پر تل گئے تھے لیکن جب الطاف بھائی نے کوئی پیش رفت نہ دکھائی تو عادت سے مجبور ہو کر اسرار الحق بھی پٹڑی بدل گئے اور آج ان کا اہم کیو ایم بارے وہی خیال ہے جو ازل سے کالم نگار ہارون الرشید کا ہے۔

اسرار الحق کو مذہبی حلقوں سے ہمیشہ چڑ رہی ہے اور وہ بائیں بازو کے دانشور کہلواتے ہیں لیکن ان کی ایک نعت رسولﷺ ایسی خوبصورت ہے کہ لوگ حیران ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ کیا واقعی یہ ان کی تخلیق ہے؟ اور ان سے شوقین مزاج بندے کو مذیب سے کب اور کیسے لگاؤ ہو گیا؟

اسرار الحق کا جمہوریت سے کبھی کوئی جذباتی یا غیر جذباتی تعلق نہیں رہا ہے بلکہ یہ جمہوریت کا نام لینے والوں کو گالیاں بکتے ہوئے ملتے ہیں اور ابھی انہیں قومی اسمبلی کی ایک قائمہ کمیٹی نے جمہوریت کا نام لینے والوں کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑے کر کے گولی مار دینی چاہیے والے اپنے بیانیے کے کھلے عام اظہار کی وجہ سے طلب بھی کیا ہوا ہے، موصوف عوام کو جاہل سمجھتے ہیں اور بظاہر سائنس و ٹیکنالوجی کے حامی ہیں لیکن ان کا اپنا حال یہ ہے کہ موبائل استعمال کرنے تک سے ناواقف ہیں اور بقول ان کے اپنے ہی ”مجھے نمبر تکSave کرنا نہیں آتا ہے، بس کال سن لیتا ہوں اور میسج پڑھ لیتا ہوں“

ان کی شخصیت میں ایسا بھیانک تضاد ہے کہ بھٹوز کی محبت میں فوجی آمر جنرل ضیا کے خلاف تھے اور بقول موصوف کے اسی آمریت کی وجہ سے ملک سے خودساختہ جلاوطنی اختیار کی اور تقریباً 10 سال سعودی عرب میں گزارے تھے لیکن پھر ان کا سابق فوجی آمر جنرل مشرف کی بھرپور حمایت کرنا ثابت کرتا ہے کہ ان کے اندر شاید کوئی ”بہت بڑا منافق“ انسان بھی چھپا ہوا ہے اور اسی لیے انسان سوچتا ہے کہ ایک شخص بیک وقت جمہوریت اور آمریت کا دلدادہ کیسے ہو سکتا ہے؟ انہوں نے جنرل مشرف کی ہر غلط اور ناروا حرکت کا ہمیشہ ڈٹ کر دفاع کیا اور آج بھی جنرل مشرف کے حق میں کلمہ خیر ادا کرنے کے لیے کل کائنات میں واحد ان کا قلم اور زبان رواں دواں رہتے ہیں۔

سیاستدانوں میں ان کے محبوب سیاستدان گجرات کے چوھدری ہیں اور اس کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ وہ ہر غیرجمہوری طاقت اور ہر آمر کے لیے ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اسرار الحق کبھی بھی گجراتی چودھریوں کی کرپشن بارے کچھ نہیں لکھتے ہیں بلکہ ان کے ”پھر سے محبوب بننے والے لیڈر“ عمران خان جس مونس الہی کو اس کی کرپشن کہانیوں کی وجہ سے وزارت دینے کو تیار نہ تھے اس مونس الہی کے حق میں پرویز الہی کی وزارت اعلیٰ کے دنوں میں اسرار الحق بڑھ چڑھ کر کالم لکھتے ہوئے نظر آیا کرتے تھے۔

اسرار الحق کی ذاتی زندگی بھی خاصی تنازعات کا شکار رہتی ہے، ان کی پہلی شادی بھی پسند کی تھی اور اس سے انہیں طلاق ہو چکی ہے اور وہ اپنی سابق اہلیہ کو ”کریک“ کہتے ہیں اور اس پہلی بیوی کی نوجوان اولاد انہیں سوشل میڈیا کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے انتہائی غیراخلاقی زبان سے یاد کرتی ہے اور اپنے مسائل کا ذمے دار انہیں قرار دیتی ہے، ان کا ایک بیٹا جو کہ ان کی طرح ہی بولتا ہے انہیں انتہائی نامناسب القابات سے یاد کرتا ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ وہ اپنی سگی اولاد کو کیسے بے یارومددگار چھوڑ کر بیلی پور سے فارم ہاؤس اور پرتعیش لائف انجوائے کرتے پھرتے ہیں اور سیاستدانوں کی اولادوں کے ”کارناموں“ پر ان کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں اور ان کے بگاڑ کی ذمے دار ”حرام کی کمائی“ پر ڈالتے ہوئے ملتے ہیں، سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا ان کی پہلی اولاد جو کہ میڈیا پر ان کے خلاف خاصا طوفان بدتمیزی بپا کیے پھرتی ہے، کے حوالے سے ان کی کوئی ذمے داری نہیں بنتی ہے؟

کیا، اللہ کے حضور اس بارے ان سے بازپرس نہ ہوگی کہ خود تو آرام و سکون اور عیاشانہ انداز میں زندگی کے مزے لیے اور اولاد کی بالکل بھی فکر نہ کی؟ وہ نظرانداز کردہ اولاد سڑکوں پر ذلیل و خوار ہوتی پھر رہی ہے اور تماشا بنی ہوئی ہے تو اس کی تربیت کی ذمے داری کس پر ہے؟ المیہ ہے کہ دنیا جہان کی فکر میں غلطاں شخص کو اپنی سگی اولاد کو دھکے دھوڑے کھاتے دیکھ کر بھی ترس نہ آتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہن موصوف نرگسیت زدہ ایسی شخصیت ہیں کہ اپنی ذات کے آگے انہیں کچھ بھی نظر نہ آتا ہے یہاں تک سگی اولاد بھی نہیں، یقیناً یہ ایک انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments