عمران خان کے دورے میں چین کا سب سے اہم سوال کیا ہو گا؟


کسی بھی قوم پر سب سے کٹھن وقت ہوتا ہے کہ جب اس کے حکمران حقیقی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی پر عوام کی توجہ مسائل سے ہٹا کر الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھانے کی کوشش کر رہے ہو۔ وطن عزیز میں معاشی تباہی مہنگائی، شہریوں کا سماجی عدم تحفظ قومی سلامتی سے جڑے سنگین خطرات ہے اور ان تمام خطرات کی ماں سیاسی عدم استحکام یا یوں کہہ لیجیے کہ غیر حقیقی سیاسی صورتحال کا قیام ہے جو روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

ان تمام مسائل کی جانب سے عوام کی توجہ ہٹانے کی غرض سے احتساب سے لے کر قومی سلامتی پالیسی تک کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ انگریزی میں ایک مضمون تحریر کریں اور عوام کی توجہ اس جانب مبذول کروا دو اور مبذول بھی وہ لوگ کروا رہے ہیں کہ جن کو قومی سلامتی کی الف بے کا بھی علم نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آئی ایم ایف سے معاملات پر وزرا اور ان کے کپتان کے بیانات ہی آپس میں نہیں ملتے ہیں۔

مشرف کے دور میں ضلعی مجسٹریسی کا نظام ختم کر کے پوری دنیا سے ٹوٹے اکٹھے کر کے بلدیات کا نظام قائم کیا گیا۔ نا تو وہ نظام چل سکا اور نہ ہی سابقہ نظام ہی بچ سکا۔ اسی کی مانند قومی سلامتی پالیسی بھی ہے بس ادھر ادھر سے نکات اٹھائے اور تیار کردی۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے مستقل رہائش ملے گی۔ بھائی ترکی اور دیگر ممالک سے یہ پروگرام اٹھایا اور بیان کر دیا گیا۔ ان تمام ممالک کے حالات اور کشش اور ہیں جبکہ پاکستان میں حالات اور رخ پر گامزن ہے لیکن بس خانہ پوری کرنی تھی کر لی۔ عوام کو اب چند اور دنوں اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جائے تاکہ بس ایسے توجہ ہٹائی جا سکے ورنہ اس حوالے سے اصل ہدف یہ ہونا چاہیے کہ جو لوگ پاکستان سے سرمایہ لے کر دیگر ممالک میں جا رہیں ہیں اور ایسے ممالک بھی کہ جن کا نام لینا بھی مناسب نہیں پہلے ان کو تو روک لیا جائے۔

قومی سلامتی کی پالیسی ریاست کی ہوتی ہے کسی ایک سیاسی جماعت یا حکومت کی نہیں ہوتی ہے مگر یہاں تو معلوم نہیں کہ پوری حکومت بھی حکومت کے ساتھ ہے کہ نہیں۔ بہرحال ایسی حکومتیں جن کی نمائندہ حیثیت کے آگے بہت سارے سوالیہ نشان موجود ہو ان کا اپنے وقت کو گزارنے کے لیے ایوب خان کے بی ڈی ممبران، ضیاءالحق کا سائیکل چلانا اور مشرف کا مکا دکھانے کی مانند قومی سلامتی جیسے حساس موضوع کو تختہ مشق بنانا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

ایسے حساس موضوعات پر صرف پوائنٹ سکورنگ کے لیے اقدامات کرنا انتہائی غیر ذمہ داری کا طرز عمل ہے پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات دو نوعیت کے ہیں۔ اول خطرہ تو گھر کے اندر سے ہے اور وہی سب سے بڑا خطرہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی معاملات کو بین الاقوامی طور پر طے شدہ سیاسی اخلاقیات کے مطابق نہیں چلا رہے ہیں انتہائی درجے کا ناپسندیدہ عمل ہے کہ غیر سیاسی قوت سیاست کو اپنے تابع فرمان کر لیں جبکہ کتابی طور پر وہ آئین کی تابع فرمان ہو۔

معیشت کی تباہی سے لے کر سماجی گروہوں میں باہمی اختلافات تک اسی حکمت عملی کا شاخسانہ ہے۔ جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار میں ایک انٹرویو میں خود تسلیم کیا تھا کہ ان کے دور میں وفاق کمزور ہوا ہے اور کیا ثبوت درکار ہے؟

دوسرا خطرہ ہمارے ہمسایہ بھارت کی جانب سے ہے وہ ہمہ وقت ہماری فالٹ لائن سے فائدہ اٹھانے کے اور ہمیں نقصان پہنچانے کی سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہے۔ ہمیں بلوچستان کے مسائل سے لے کر انتخابی دھاندلی تک کی فالٹ لائنز کو ختم کرنا ہو گا پھر دشمن کی کیا مجال کہ وہ دوبارہ 16 دسمبر 1971 کو دہرانے کا تصور بھی کر سکے مگر اس کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں ہے بلکہ جو فالٹ لائنز نہیں بھی ہے ان کو بھی کوشش کر کے فالٹ لائنز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

پاکستان اور چین کی دوستی تعلقات زبردست معاشی اور سلامتی کے تقاضوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے جیسے لوگ چیخ چیخ کر تھک گئے مگر اس کے مسائل کی طرف دھیان ہی نہیں دیا جا رہا ہے۔ سی پیک کی صورت میں 2015 میں ایک ایسا منصوبہ پیش کیا گیا تھا کہ جس کی بروقت تکمیل کے ذریعے سے قومی سلامتی کے بہت سارے مسائل کو دفنایا جا سکتا تھا۔ مگر بوجوہ اس اہم قومی نوعیت کے منصوبے کو دانستہ طور پر تاخیر کا شکار کر دیا گیا۔ عمران خان بہت عرصے سے کوشش کر رہے تھے کہ وہ چین کا دورہ کر سکیں مگر ان کو انہی اسباب کے سبب سے موقع نہیں دیا جا رہا تھا۔

اب چین میں سرمائی اولمپکس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ کھیلوں کے اس بڑے ایونٹ کے موقع پر ان کو چین جانے کا موقع مل رہا ہے کیوں کہ امریکہ اس ایونٹ کی مخالفت کر رہا ہے اس لئے چین موقع دے رہا ہے کہ دورہ ہو سکے جس میں سائیڈ لائن پر ان کو چینی قیادت سے بھی ملاقات کا موقع ملے گا اور لازماً ان سے یہ سوال ہو گا کہ چینی کمپنیوں کے جو بل یہاں پر رکے ہوئے ہیں اس کی کیا وجوہات ہے اور وہ کھاتے کب تک صاف کر دیے جائیں گے۔

یہاں تو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ سی پیک کا پہلا فیز مکمل ہو گیا ہے مگر چینیوں کی نظر میں ایسا نہیں ہے۔ سی پیک فیز ون کا سب سے بڑا منصوبہ ایم ایل ون ہے جو ابھی تک صرف فائلوں میں ہے اور موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اس کی وجہ سے وہ رہے گا بھی فائلوں میں ہی قید، اور یہ ہی وہ سوال ہے جو چین میں سب سے اہم ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments