آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں!


عمر و عیار کی زنبیل، کیا غضب کی چیز تھی بھئی، جو چاہے لپک جھپک اندر ڈالو اور سب آنکھ سے اوجھل۔ بحری جہاز سے لے کر سوئی دھاگے تک گویا ایک عالم زنبیل میں بند تھا۔ ہم سالہا سال اس زنبیل کے سحر میں رہے۔ ہر ناممکن خواہش کے بعد آہ بھر کر کہتے، نہ ہوئی زنبیل ہمارے پاس ورنہ دیکھتے ہم بھی۔

خیر کچھ تھیلے تو ہمارے پاس بھی ہیں جن سے عمر رفتہ کے کچھ ایسے لمحات نکل آتے ہیں کہ دل سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ برسوں پہلے لکھے گئے خط، تہنیتی کارڈ، رقعے، بلیک اینڈ وائٹ تصویریں، بچوں کی بنائی ڈرائنگز اور نہ جانے کیا کچھ!

شکستہ ہینڈ رائٹنگ میں لکھے گئے کچھ خط اور رقعوں میں ہماری جان ایسے بند ہے جیسے قدیم زمانوں میں جادوگر کے قبضے میں توتا۔ کہانی کے ہر صفحے پر ہم دہل دہل جاتے کہ نہ جانے کب جادوگر چشم زدن میں گردن مروڑ دے۔

ایک خط ہے جو ہم بار بار پڑھتے ہیں، جس میں ایک عمر رسیدہ عورت ایک بچی سے مخاطب ہے۔ بہت سی باتوں کے علاوہ جو بات بار بار کہی گئی ہے کہ جان عزیز بہت پڑھنا اور زندگی کے ہر میدان میں خوب سے خوب تر کی تلاش رکھنا۔ اپنی امی سے کسی طور پیچھے مت رہنا۔

ہماری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
”میرا جی چاہتا ہے میں خوب پڑھی لکھی ہوتی اور اپنی مرضی سے نوکری کرتی“
”اگر میں پڑھی لکھی ہوتی نا، پھر دیکھتے تم لوگ“
”ہائے ہمارے گاؤں میں سکول ہی نہیں تھا“
”میرے ابا نے شہر سے ایک استانی جی بلوائیں، انہیں شوق تھا کہ لڑکیاں پڑھیں“
”اس زمانے میں کوئی بھی اپنی بیٹی کو گاؤں سے شہر بھیجنے پہ تیار نہیں ہوتا تھا“
”کاش ہمارے گاؤں میں سکول ہوتا“

یہ تھے وہ خواب تھے جو رقعوں میں پیغام لکھنے والی عورت اپنے بچوں کو بارہا سناتی تھی اور وہ سب خوابوں کی ان کرچیوں کو سمیٹنے کی کوشش کرنے والی نم آنکھوں کے عینی شاہد ہوئے۔

ایک بچی بار بار سوال کرتی،
”کیوں، شہر کے سکول بھیجنے میں کیا دشواری تھی؟“
” لڑکیوں کو گھر سے دور بھیجنا معیوب سمجھا جاتا تھا“
”لڑکوں کو کیوں نہیں؟“
”ارے بیٹا لڑکیوں کی عزت نازک ہوتی ہے سو خیال کرنا پڑتا ہے“
”کیا چیز نازک ہوتی ہے لڑکیوں کی عزت میں جو لڑکوں کی مضبوط ہوتی ہے“
”افوہ، تمہاری جرح، زچ ہو گئی میں تو“

نہ ماں نے کبھی جواب دیا اور نہ ہی بچی نے اپنی جرح بند کی۔ یونہی ایک دوسرے سے الجھتے اور بحث کرتے ماں بیٹی کا کھیل ختم ہو گیا۔

اماں اس جہان فانی سے بالکل ایسے ہی گزر گئیں جیسے فلک پہ ستاروں کے جھرمٹ میں آج ایک ستارہ دکھائی دے اور کل آنکھ سے اوجھل ہو جائے۔ معلوم نہیں ٹوٹنے والا ستارہ اپنا نشان چھوڑتا ہے یا بلیک ہول میں بدل جاتا ہے لیکن اماں تو اپنی بے شمار یادوں اور باتوں کو نامعلوم طریقے سے ہم سب کی زندگی پہ ثبت کر کے رخصت ہوئیں۔

سکول، پڑھائی اور نوکری اماں کی دکھتی رگ تھی اور مرتے دم تک رہی۔ ہمارے نانا برٹش پولیس کے ملازم گھر سے دور رہتے تھے۔ تعلیم کے حامی تو تھے لیکن گاؤں میں سکول کہاں سے لاتے؟

آخر گاؤں کے کچھ اور باشعور لوگوں سے صلاح مشورے کے بعد اپنی بچیوں کو بنیادی تعلیم دینے کے لئے قریبی شہر سے ایک ادھیڑ عمر استانی جی کو بلایا گیا۔

اماں ہمیشہ کہتیں، ابا کے خیال میں بیٹی بہن کو اس قابل ضرور ہونا چاہیے کہ اپنے شوہر کا خط خود پڑھ سکیں اور جواب بھی لکھ سکیں۔

ہم سوچتے کیا اس خواہش میں نانا کے اپنے دل کی خلش چھپی تھی، بے نام سی یا شاید پیاس، نامعلوم سی۔ وہ دور دراز کے علاقوں کی خاک چھانتے پھرتے اور نانی کو لکھے خطوں میں جدائی کے کسی لمحے کا حال لکھنا ممکن نہیں تھا کہ نانی خط پڑھوانے اور جواب لکھوانے کے لئے گاؤں کے منشی کی محتاج تھیں سو زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے؟

جب بچیاں پانچ جماعتوں کا کورس پورا کر لیتیں تو وہ استانی جی کسی نہ کسی طریقے سے امتحان دلواتیں اور بچی کو پانچویں کلاس پاس کا سرٹیفیکٹ مل جاتا۔ ہماری اماں ان استانی جی کو ساری عمر محبت سے یاد کرتی رہیں اور یہ بھی کہ انہوں نے سرتوڑ کوشش کی کہ اماں کو سیالکوٹ کے کسی سکول میں داخل کروا دیا جائے، اماں کی ذہانت ان کی آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی۔ سادات خاندان کے رسم و رواج اور لڑکیوں کو گھر سے دور بھیجنے کی بندشوں لڑکیوں کے پاؤں میں بندھی ایسی زنجیریں تھیں جو توڑنا آسان نہیں تھا۔

اماں خوش قسمت ٹھہریں کہ جس شخص کی ہم سفر بنیں وہ علم و ادب کی راہوں کا مسافر تھا۔ ہمیں یہ علم نہیں کہ ابا نے شادی کے بعد اماں کو سکول میں داخل کیوں نہیں کروایا لیکن کتاب کی چاہت بیدار کرنے میں انہیں کا ہاتھ تھا۔

اماں سب رسالے اور اخبار پڑھتیں اور چھوٹے بچوں کو اردو خود پڑھاتیں۔ جب بچے سکول میں سکھائی گئی انگریزی نظمیں گھر میں دہراتے تو اماں غور سے سنتیں اور یاد کر لیتیں۔ مرتے دم تک انہیں با با بلیک شیپ، ٹونکل ٹونکل لٹل سٹار یاد رہا اور وہ اگلی نسل کے بچوں کو سناتی رہیں۔

اماں برقعہ پہنے ہمارے ساتھ ریڈیو پاکستان جاتیں، پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران مسکرا مسکرا کر ہمیں دیکھتی رہتیں۔ پاکستان نیشنل سنٹر کی اگلی صفوں میں بیٹھ کر ہمیں مائیک پہ گرجتا برستا دیکھ کر تالیاں پیٹتیں۔ انعام ملنے کے بعد ڈھیروں لوگوں سے مبارکباد وصول کرتیں اور گھر آ کر ابا کو ایک ایک لفظ سناتیں۔ ان کی آنکھیں یہ کہتے ہوئے چمک رہی ہوتیں ”اینھے لوکاں نے مینوں مبارک دتی، توانوں کیی دساں“ ۔ ابا زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ انہیں دیکھتے رہتے۔

زندگی کی ہما ہمی میں یہ بھی ہوا کہ جب کبھی بے انتہا مصروفیت کے باعث ہم اپنے بچوں کی تقریبات میں نہ پہنچ پاتے، اماں کو فون ملا کر صرف اتنا کہتے، میں ہسپتال میں مصروف ہوں، آپ چلی جائیے پلیز۔

اماں کی کتاب میں انکار کا تو لفظ ہی نہیں تھا۔ فوراً تیار ہوتیں اور اگر کوئی لے جانے والا نہ ملتا، ٹیکسی پہ بیٹھ کر سکول پہنچ جاتیں۔ حیدر کا سپورٹس ڈے ہو، ماہم کا سٹیج ڈرامہ یا شہر بانو کا تقریری مقابلہ، اماں پھر سے اگلی صفوں میں بیٹھی تالیاں بجا رہی ہوتیں۔ بعد میں کہتیں، میں تہاڈی ماں دے نال وی ایسے طراح آندی ساں۔

کبھی کبھی دل میں ہوک سی اٹھتی ہے کہ اماں کو اگر اپنے خوابوں کا تعاقب کرنے کا موقع ملا ہوتا تو انہوں نے کیا کچھ نہ کیا ہوتا۔ شاید ایسے ہی بہت سے ہیرے گمنامی کی مٹی میں مل کر خاک ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments